لیاقت مظہر باقری
دسمبر کی سرد رات تھی میں تیز تیز قدم اُٹھاتا چلا جارہا تھا، جیکٹ کی جیب سے موبائل نکال کر ٹائم دیکھا تورات کے 11بج رہے تھے۔ میری منزل ایک تنگ گلی میں وہ چھوٹا سا کمرا تھا، جسے میں نے تقریباً تین ہفتے قبل کرائے پر لیا تھا، تاکہ یہاں رہتےہوئے ملازمت کی تلاش کر سکوں۔ جہلم کے نواحی گاؤں سے روانہ ہونے سے قبل میرے دوست کے والد نے اپنےایک رشتے دار کا نام اور موبائل نمبر مجھے دیتےہوئے کہا تھاکہ یہ اسلام آباد میں سرکاری ملازم ہے،شاید تمہاری کچھ مدد کرسکے۔ بہر حال، والدین کی دعائیں سمیٹے میں گھر سے روانہ ہوا۔اسلام آباد پہنچ کر ایک مضافاتی علاقے میں انتہائی تگ و دو کے بعدمجھے یہ چھوٹا سا کمرا ملا تھا۔
اسی دن سخت سردی کے باوجود میں اُس شخص کے پاس گیا، جس کا چلتے وقت دوست کےوالد نے نمبر دیا تھا، اس نے مجھے رات 9 بجے اپنے گھر بلایا تھا،کہ میں اپنی سی وی وغیرہ اسے دے جاؤں۔ اس نے دروازے سےسی وی کا لفافہ لے کر مجھے خدا حافظ کہہ دیا۔ کم وبیش دو گھنٹے سرد رات کے اس پر اسرار ماحول کا مقابلہ کرنے کے بعد میں اس گلی میں پہنچا، جہاںوہ چھوٹا ساکمرامیرا عارضی ٹھکانہ تھا، کمرے کا دروازہ باہر گلی کی جانب کھلتا تھا۔ مالک مکان کی آمد و رفت بڑے گیٹ سےتھی۔
کمرے کا تالا موبائل ٹارچ کی روشنی میں کھولا، کمرے میں اندھیرے کا راج تھا، لوڈشیڈنگ کا جن ٹارچ کی مدھم روشنی اور سردی کے باعث پیش آنے والی میری حالت زار پرقہقہ ہلگا رہا تھا۔ اس صورت حال کے پیش نظر میں نے کمرے کو دوبارہ تالا لگایا اور باہر آگیا۔ میرا رخ گلی کے نکڑ پر قائم اس کیبن کی جانب تھا ،جہاں سے میں روز انہ چائے پی رہا تھا۔
گرم گرم چائے کی پیالی سے پہلے میں نے اپنی ہتھیلیوں کو گرم کیا۔ چائے کی چسکی لیتے ہوئے سوچنے لگا ، اگر مزید چنددنوں تک ملازمت نہیں ملی تو واپس گھر جانا پڑے گا ،کیوں کہ اگلے ماہ کا کرایہ ادا کرنے کےلئے رقم ناکافی تھی۔ سرکاری دفاتر اور پرائیویٹ کمپنیوں کے چکر کاٹنا،ڈگریوں وغیرہ کی فوٹو کاپیاں جمع کروانا تاحال بے سود ثابت ہوا تھا۔ یہ سوچتے ہوئے چائے کا آخری گھونٹ حلق میں انڈیل کر خالی پیالی میز پر رکھی،پیسے ادا کرکے کیبن سے باہرنکل آیا۔
لائٹ نے ابھی تک لوڈشیڈنگ کا لبادہ نہیں اتارا تھا، پوری گلی اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی، سردی کی شدت کے باعث محلے والے اپنے اپنے گھروں میں دبکےہوئے تھے۔ میں نےکمرے کا تالا کھولا ہی تھا کہ پورا کمرا روشنی سے جگمگا اٹھا۔ فوراََکپڑے تبدیل کیے اور بستر میں دبک گیا۔ کمبل کی گرمائش نے ابھی پوری طرح مجھے اپنی آغوش میں لیا بھی نہ تھا کہ گلی میں چور چور کی آوازوں اور شور شربے کے باعث میری نیند ہرن ہوگئی۔ وقت دیکھا رات کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔
میں نے فوراً بستر سے نکل کر شال اوڑھی اور دروازہ کھول کرباہر کےمنظر پر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ کمرے سے تھوڑے فاصلے پر لوگ جمع تھے،جبکہ دو تین لڑکے ایک نوجوان کوجس نے پلاسٹک کا بیگ مضبوطی سے تھاماہوا تھا، لاتوں اور گھونسوں سے ماررہے تھے اور کہتے جا رہے تھےچوری کرتا ہے، بیگ چوری کر کے جارہاہے۔
اسے میری بیوقوفی سمجھیںیا رحم دلی میں خود پر قابو نہ پاسکا اور اس نوجوان کو جسے سب چور سمجھ رہے تھے، چھڑانے کے لیے کود پڑا، اس دوران چند مکے اور تھپڑ مجھے بھی پڑے، تاہم میں اس نوجوان کو ان کے چنگل سے نکالنے میں کامیاب ہو گیا۔ میں نے لوگوں سے درخواست کی کہ پہلے اس کے بیگ کی تلاشی لیں اگر کوئی مشکوک چیز برآمد ہوتی ہے تو اسے پولیس کے حوالے کردیں۔
محلے کے معتبرر شخصیات نے میری تجویز مانتے ہوئے اس نوجوان کے بیگ کی تلاشی لی، دوران تلاشی اس کے بیگ میں سادہ پیپرز، ماسٹر کی ڈگری، این آئی سی کی فوٹو کاپیاں اور سی وی وغیرہ تھی۔ جیبوں کو کھنگالا ایک عدد والٹ جس میں کچھ سو روپے اور موبائل فون تھا۔ میں نے موبائل فون جیسے ہی ہاتھ میں لیا اس کی بیل بج اٹھی اسکرین پر نظر ڈالی تو"Ammi" کے الفاظ اس پر نمایاں تھے، میں نے اسپیکر آن کرکے اسے خوفزدہ نوجوان کی جانب بڑھا دیا’’ہیلو! احسان کیا تم خالہ کے گھر پہنچ گئے؟‘‘۔
’’ نہیں امی ابھی میں اسلام آباد پہنچا ہوں، تھوڑی دیر بعد کال کروں گا۔‘‘ اس دوران چوری کا الزام لگانے والے لڑکے ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ میں نے اور مالک مکان نے اسے کچھ دیر آرام کرنے اور چائے وغیرہ کی پیشکش کی جسے اس نے شکریہ کے ساتھ منع کردیا۔ کہنے لگا,’’اس گلی گے اختتام پر میری خالہ کاگھر ہے۔
نوجوان کو رخصت کرکے میں اپنے کمرے میں آگیا۔ پچھلے ایک ڈیڑھ گھنٹے کی کاروائی کے دوران مجھے سردی کا احساس تک نہ ہوا تھا، بستر میں جانے کے بعد بھی کافی دیر تک کروٹیں بدلتا رہا، میرے ذہین میں وہ ڈگری ہولڈر نوجوان چھایا رہا جو نوکری کی تلاش میں آیا تھا اور چور ہونے کے شبہ میں ان اوباش لڑکوں کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔ چند دنوں بعد میرے کمرے کے کرائے کی مدت ختم ہونے والی تھی، اس سے قبل کہ میں کمرے کی چابی مالک مکان کے حوالے کرتا، سوچا کہ اس شخص سے رابطہ کیا جائے ،جسے میں نے اس سرد رات کو سی وی دی تھی، تاہم اس کی جانب سے بھی کوئی حوصلہ افزا جواب نہ ملا۔
آخر کار میں نے اس دعا کے ساتھ اسلام آباد سے اپنا رخت سفر باندھا کہ یا الٰہی! مجھے تو ان چار پانچ ہفتوں کے دوران انتہائی کوششوں کے باوجود ملازمت نہ مل سکی، تاہم اس احسان نامی نوجوان پر اپنا خصوصی کرم و احسان فرما اور نہ کردہ گناہ کی یہ سزا اس کے لیے کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہو!!!
تعلیم یافتہ نوجوان، قلم اُٹھائیں اور لکھیں درج ذیل عنوان پر:
زندگی، تجربات کا دوسرا نام ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، جن سے کچھ سیکھ لیتے ہیں، کچھ ٹھوکر کھا کر آگے چل پڑتے ہیں، پچھتاتے اُس وقت ہیں، جب کسی مسئلے سے دوچار ہوجاتے ہیں، مگر حل سمجھ نہیں آتا۔ دکھ سکھ، ہنسی خوشی، یہ سب زندگی کے رنگ ہیں، جن سے کھیلا جائے تو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ، آج کا نوجوان زندگی سے مایوس ہوتا جا رہا ہے۔ ایک تجربے کے بعد دوسرا تجربہ کرتا ہے، جب پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن زندگی کے تجربات بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ ہم نے آپ کے لیے ایک سلسلہ بعنوان،’’ہنر مند نوجوان‘‘ شروع کیا ہے، اگر آپ تعلیم یافتہ ہنر مند نوجوان ہیں تو اپنے بارے میں لکھ کر ہمیں ارسال کریں، ساتھ ایک عدد پاسپورٹ سائز تصویر اور کام کے حوالے سے تصویر بھیجنا نہ بھولیں۔ اس کے علاوہ ایک اور سلسلہ ’’میری زندگی کا تجربہ‘‘کے نام سے بھی شروع کیا ہے، جس میںآپ اپنےتلخ وشیریں تجربات ہمیں بتا سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کے تجربات یا تجربے سے دیگر نوجوان کچھ سیکھ لیں۔
ہمارا پتا ہے:
’’صفحہ نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،
اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔