انیلہ افضال ایڈووکیٹ
کسی بھی نظر یہ حیات کو رائج کرنے یا تحریک چلانے اور اسے کام یابی سے ہم کنار کرنے میں نوجوانوں کا ا ہم کردار ہوتا ہے ۔ان کے عزائم اگر چاند پر کمند ڈالنے کی حد تک بلند ہوں تو وہ کبھی ناکام نہیں ہوتے ۔ ان کے لہو میں ایسی حرارت ہوتی ہے جو انہیں جہد مسلسل اور جفاکشی پر برانگیختہ کرتی رہتی ہے۔ہر حال میں مسائل و مصائب سے نمٹنے کا اگر کسی میں دم خم ہوتا ہے تو وہ نوجوان ہی ہیں، جو اپنی قوم میں نئی زندگی اور انقلاب کی روح پھونکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بیشتر قوموں کی بیداری اور ان کے انقلاب کا سہرا نوجوانوں کے سر جاتا ہے۔دنیا میں نوجوانوں کی سیاست میں دل چسپی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے ، جس کی حالیہ مثال کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈوہیں جو جوانی میں اس منصب تک پہنچے۔ ہمارے ملک کے کئی سیاستدانوں نے بھی اپنی سیاسی زندگی کا آغاز طالب علمی کے دور میں کیا۔ آج کے نوجوانوں نے اپنے حق کا صحیح استعمال کیا توامید ہے کہ ہمارا ملک بہتر راہ پر چل سکے گا۔زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو سیاست میں لاکر اس کی بگڑی شبیہ ٹھیک کی جا سکتی ہے۔لیکن یہاں نہ تو کوئی ایسا اسکول ہے اور نہ ہی کوئی انسٹیٹیوٹ جو سیاست دانوں کی خالی جگہوں کو پر کرنے کے لیے نوجوان سیاست دان تیار کر سکے اور انہیں سیاست کے قوائد و ضوابط بتائے۔
اب تک تو علاقے کے جاگیردار، وڈیرے اور چودھری ہی حکومت کرنے کے اہل ہیں۔ اور جب وہ ناگزیر وجوہات کی بنا پر اپنی جگہ چھوڑ جاتے ہیں تو ان کے بیٹے پوتے اس کرسی پر آبیٹھتے ہیں جنہیں سیاست کی ابجد کا بھی علم نہیں ہوتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر شخص کے مال و متاع اور کمائی کی وارث اس کی اولاد ہی ہوتی ہے، مگر یہ اصول سیاست پر لاگو نہیں ہوتا۔
جس طرح یہ ضروری نہیں کہ ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر ہی بنے اور پائلٹ کا بیٹا پائلٹ ہی ہو،اسی طرح یہ بھی قطعی ضروری نہیں کہ سیاست دان کی اولاد سیاست دان ہی ہو۔ ہمارے ریاستی ادارے نوجوانوں کی بات تو بہت کرتے ہیں اور دعوی یہ کیا جاتا ہے کہ مختلف پالیسیوں کی بنیاد پر ان کو قومی ترقی کے دھارے میں شامل کیا جائے گا۔ لیکن عملی طور پر ہماری حکومتی پالیسیوں کے عملی نتائج میں نوجوان طبقے کے حقیقی مسائل کی عکاسی ایسے نہیں ہوتی جیسے ہونی چاہیے۔
ہماری سیاسی جماعتیں نوجوان طبقہ کو اپنے سیاسی حق میں ایک بڑے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں ،یہی وجہ ہے کہ نوجوان طبقہ سیاسی سطح پر اہل سیاست کے ہاتھوں سیاسی استحصال کا شکار ہوتا رہا ہے۔ یعنی ہمارے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں نوجوان نسل کی تربیت کرنے کے بجائے اس کا استعمال کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ملک کی حقیقی تعمیر وترقی کے لیے کسی نے بھی ان کی کردار سازی نہیں کی۔
ہمارے اہل دانش، ریاست اور حکومت کو بنیادی بات یہ سمجھنی ہوگی کہ سیاسی وسماجی یا مذہبی واعظوں سے کچھ نہیں ہوگا۔ اس کے لیے قومی سطح پر موجود قانون سازی، پالیسی اور حکمت عملی کو نئے سرے سے ترتیب دینا ہوگااور اس میں نوجوانوں کو بنیاد بنا کر کچھ نئی سوچ اور فکر کو نئی جہت دینا ہوگی۔ ریاست کو یہ ماننا پڑے گا کہ ہمارے نوجوانوں کو ایک ایسا نظام درکار ہے جو ان کے بنیادی حقوق کی ضمانت بھی دے سکے اور آگے بڑھنے کے تمام مواقع بھی فراہم کرسکے۔
نوجوانوں کو مستقبل میں مثبت سیاسی کردار ادا کرنے کے لیے قانون سازی اور تعلیمی اداروں میں اصلاحات کی جائیں ،تاکہ طلباء ایک ضابطہ اخلاق کے ساتھ کام کریں، اسی طرح نوجوانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آج کی دنیا علم اور صلاحیت کی دنیا ہے اور اس میں وہی لوگ اپنے لیے جگہ بناسکیں گے جو علم اور اپنی صلاحیت کو بنیاد بنا کر آگے بڑھیں گے اور منزل کو پانے کی کوشش کریں گے۔ محض ڈگری کے حصول کی بنیاد پر ان کو کوئی بڑی کامیابی نہیں مل سکے گی۔ جب تک ذہن و سوچ کا انداز نہیں بدلتا، حالات نہیں بدل سکتے۔
حالات کا فکری تبدیلی کے بغیر بدلنا ناممکن ہے اور اس کے لئے نئی نسل پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ ملک و قوم کی زمام نئی نسل کو سونپنے سے پہلے ان کی اخلاقی اور سیاسی تربیت کرنا ہو گی، مستقبل سازی اور مثبت تعمیری اوصاف ان کی شخصیت میں پیدا کرنا ہوں گے،صلاحیتوں کو درست سمت اور درست رفتار دینا ہوگی، احترام انسانیت کے درس کے ساتھ عزت نفس کے جوہر سے انھیں آراستہ کرنا ہوگا، شخصی مفادات پر اجتماعی مفادات کو ترجیح دینے کی صلاحیت کو پروان چڑھانا ہوگا، ایثار و قربانی کے جذبے سے آراستہ کرناہوگا، صبر و تحمل کا مادہ پیدا کرنا ہوگا، اندھیری گلیوں سے نکال کر اعتماد کی راہوں پر گامزن کرنا ہوگا، ارتقاء ،ترقی اور کامیابی کے حقیقی معنی سے انھیں آگاہ کرنا ہوگا، قوت فیصلہ کی صلاحیت ان میںاجاگر کرنی ہوگی۔
پاکستان میں آج ریاست اور سیاست دونوں کو بچانے کی اشد ضرورت ہے۔ تعمیری عمل میں نوجوانوں کی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔سچے جذبوں کے حامل نوجوان سیاسی کارکنوں کو جذباتی وابستگیوں سے بالا تر ہوکر سامنے آنا ہوگا،اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عوامی سیاست کو زندہ رکھنے اور ایک منظم قومی آواز بننے کے لیے بُزرگ تجربہ کار قیادت اور نوجوان باصلاحیت قیادت ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ ہو کر سیاست کی جدوجہد کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق آگے لے جائیں تو نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور حالات میں بھی بہتری آنے کے امکانات زیادہ ہوں گے۔
تعلیم یافتہ نوجوان، قلم اُٹھائیں اور لکھیں درج ذیل عنوان پر:
زندگی، تجربات کا دوسرا نام ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، جن سے کچھ سیکھ لیتے ہیں، کچھ ٹھوکر کھا کر آگے چل پڑتے ہیں، پچھتاتے اُس وقت ہیں، جب کسی مسئلے سے دوچار ہوجاتے ہیں، مگر حل سمجھ نہیں آتا۔ دکھ سکھ، ہنسی خوشی، یہ سب زندگی کے رنگ ہیں، جن سے کھیلا جائے تو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ، آج کا نوجوان زندگی سے مایوس ہوتا جا رہا ہے۔ ایک تجربے کے بعد دوسرا تجربہ کرتا ہے، جب پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن زندگی کے تجربات بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ ہم نے آپ کے لیے ایک سلسلہ بعنوان،’’ہنر مند نوجوان‘‘ شروع کیا ہے، اگر آپ تعلیم یافتہ ہنر مند نوجوان ہیں تو اپنے بارے میں لکھ کر ہمیں ارسال کریں، ساتھ ایک عدد پاسپورٹ سائز تصویر اور کام کے حوالے سے تصویر بھیجنا نہ بھولیں۔ اس کے علاوہ ایک اور سلسلہ ’’میری زندگی کا تجربہ‘‘کے نام سے بھی شروع کیا ہے، جس میںآپ اپنےتلخ وشیریں تجربات ہمیں بتا سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کے تجربات یا تجربے سے دیگر نوجوان کچھ سیکھ لیں۔
ہمارا پتا ہے:
’’صفحہ نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،
اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔