نواب شاہ سے سکھر جاتے ہوئے مہران ہائی وے پر9کلومیٹر کے فاصلے پر بالو جا قباء کے مقام پر کئی ایکڑرقبے پر محیط قبرستان کے بیچوں بیچ ،کچی اور پختہ قبروں کے درمیان بلاول زرداری عرف بالو فقیر کا مزار واقع ہے۔ بلاول فقیر کے متعلق روایتوں میں مذکور ہے کہ زرداری خاندان کے مورث اعلیٰ سردار خان جو کہ زردار خان کے نام سے معروف تھے،ان کے مرشد میاں محمد نصیر کے بارے میں تواریخ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سردار خان عرف زردار خان اپنے مرشدکے انتہائی چہیتے مرید اور اپنی دریا دلی کے باعث مشہور تھے۔وہ اپنے مرشد کی سالانہ آمد کے موقع پر ایسی دعوت کرتے تھے کہ اس میں نہ صرف خواص اور مریدین بلکہ پورے سندھ کے عوام کو ڈھول بجا کر دعوت دی جاتی تھی۔
اس زمانے کے علاوہ آج بھی سندھ میں یہ رواج عام ہے کہ اگرلنگر عام کی دعوت دی جاتی ہے یا مرشد کے اعزاز میں دعوت کی جاتی ہے تو اس میں شرکت کے لئے صرف زبانی پیغام ہی کافی سمجھا جاتا ہے اور راہ چلتے لوگ بھی لنگر کا کھانا، چاہے وہ کتنے ہی مالدار کیوں نہ ہوں، قیمتی گاڑیوں سے اتر کر چند نوالے کھانا ثواب سمجھتے ہیں۔ مشہور محقق پروفیسر ڈاکٹر محمد لائق زرداری مرحوم نے سردار خان عرف زردار خان سے متعلق اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے کہ ان کی دریا دلی اس قدر مشہور ہوئی کہ ان کے مرشد میاں نصیر نے انہیں ’’زردار خان‘‘ یعنی ’’دل کا دولت مند‘‘ کا لقب دے دیا اور یہ نام اس قدر مشہور ہوا کہ اس کے بعد سردار خان کی اولاد نے اپنے مرشد کے دئیے ہوئے لقب سے اپنی شناخت بنائی اور زردار خان کی نسبت سے زرداری کہلائی۔ آج بھی زرداری قبیلہ اس نام پر اپنی شناخت رکھے ہوئے ہے ۔
محقق محمد لائق زرداری کے مطابق زردارخان کے پڑ پوتے بلاول فقیر (1705-1754) عیسوی نے جو کہ میاں نور محمد کلہوڑو کے خاص فقیر اور جنگی حکمت عملی کےماہر تھے، انہوں نے سندھ میں کلہوڑا خاندان کی حکمرانی میں اپنے مرشد کا بھرپور ساتھ دیا تھا اور افغانستان کے بادشاہ نادر شاہ نے جب سندھ پر حملہ کیا تو یہاں کے حکمراں میاں نور محمد کلہوڑا اپنے لشکر کے ساتھ ان کے مقابلے کے لیے آئے۔ بوچھیری کے قریب بالو جا قبا کے مقام پر نادر شاہ کی فوج نے بلاول فقیر کو گرفتار کرلیا۔ بلاول فقیر جو کہ نور محمد کلہوڑا کے خصوصی معاون اور ان کے فقیر تھے ۔ ان کے توسط سے نادر شاہ نے سندھ کے حکم راں میاں نور محمد کلہوڑا کو مذاکرات کی دعوت دی اور جنگ کے بجائے صلح کرنے پر راضی کیا۔
اس بارے میں محقق پروفیسر ڈاکٹر محمد لائق زرداری نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ سندھ کے حکمران میاں نور محمد کلہوڑا کی صحبت میں رہ کر اور ان کا دست بازور بن کر جنگی حکمت عملی کے ذریعے انہوں نے متعدد بارمخالفین کو شکست دی تھی۔ ان تمام باتوں کا نادر شاہ کو اپنے مخبروں کے ذریعے علم تھا، اس لیے اس نے ان کے ذریعے میاں نور محمد کلہوڑا کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ نادر شاہ کی حکمرانی کو تسلیم کریں گے۔ اس کے علاوہ بطور تاوان جنگ ایک کروڑ روپے اور سالانہ بیس لاکھ روپے نادر شاہ حکومت کو ادا کرنے ہوں گے۔
اس معاہدے کی ضمانت کے طور نور محمد کلہوڑوکے دو صاحبزادوں میاں محمد مرادیاب اور میاں غلام شاہ کو نادر شاہ کی تحویل میں دینے کا فیصلہ ہوا ۔نور محمد کلہوڑو نے اپنے دونوں شہزادوں کے ہمراہ نندو تالپور اور بلاول فقیر کو بھی روانہ کیا تاکہ معاہدے کی ضمانت کے طور پرنادر شاہ کی قید کے دوران دونوں شہزادے تنہائی محسوس نہ کریں۔معاہدے کی رو سے نادر شاہ نے سندھ کا نظم میاں غلام شاہ کلہوڑا کے حوالے کیا۔
نادر شاہ کے قتل کے بعد جب شہزداوں کو رہائی نصیب ملی تو میاں غلام شاہ کلہوڑا سندھ کےمطلق العنان حکمران بنے اور انہوں نے بلاول فقیر کو اپنا مشیر خاص مقرر کیا۔ بلاول فقیر زرداری نے جنہیں عرف عام میں بالو فقیر کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے 1754ء میں وفات فرمائی۔ جنگی حرب اور سیاسی بصیرت کے مالک بلاول فقیر نے بعد ازاں درویشی اختیار کی اور محققین کے مطابق آخری عمر میں وہ بالو جاقبا کے قدیمی قبرستان میں دنیاداری سے علیحدہ ہوکر بیٹھ گئے اور علاقے کے لوگ ان سے دعا کرانے کے لئے آنے لگے۔اسی نسبت سے ان کا نام بلاول فقیر معروف ہوا۔
بلاول فقیر کی زندگی مختصر لیکن بھرپور رہی اور اللہ کی یاد اور توحید نے ان کی زندگی کو نکھار دیا ۔ ان کی قبر پر آج بھی لوگ عقیدت سے آکر فاتحہ خوانی کرتے ہیں جب کہ ان کے مزار پر سالانہ میلہ بھی لگتا ہے، تاہم اب وہاں چاند کی 14ویںشب کو اجتماع ہوتا ہے جس میں روایتی میلے ٹھیلے کے بجائے مریدین آکر مزار پر فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔
بلاول فقیر سے نسبت کے حوالے سے یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے والد مرحوم حاکم علی زرداری نے اپنی رہائش گاہ ہ(جس کے اب صرف نشانات بچے ہیں) ، ’’کاشانہ آصف" کے نام سے وہیں تعمیر کرائی اور برسوں وہاں مقیم رہے، بعد ازاں نواب شاہ کے علاقے مسجد روڈ پر منتقل ہوگئے ۔بلاول فقیر سے نسبت اور عقیدت کے تناظر میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور سابق صدر آصف علی زرداری کے یہاں پہلی اولاد ہوئی جو اولاد نرینہ تھی ،تو اس کا نام بلاول فقیر کی نسبت سے’’بلاول‘‘ رکھا گیا تھا۔
بالو فقیر سےخاندانی نسبت اور عقیدت کی بناء پر سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے والد حاکم علی زرداری کی وصیت پر بالو جا قباء کےاحاطے میںاپنے والد اوروالدہ بلقیس بیگم کے مقابر بنوائے۔ بلاول فقیر کا مقبرہ جو محکمہ آثار قدیمہ کی عدم توجہی کی وجہ سے انتہائی مخدوش ہوگیا تھا ، آصف زرداری نے اپنے دور صدارت میں اس کی مرمت اورتزئین و آرائش کرائی اور مہران ہائی وے سے مقبرے تک ایک کلومیٹر سڑک کی تعمیر تعمیر کرائی۔ بلاول زرداری عرف بالو فقیر جنہیں زرداری قبیلہ مرشد کا درجہ دیتا ہے ان کی پوری تاریخ ان کے مزار کی تختی پر کنندہ ہے اور زرداری خاندان کے علاوہ سندھ کی دیگر شخصیات بھیان کے مزار پر حاضری دیتی ہیں۔