تاریخ کی کتابوں میں گم ہوجانے والے شہروں کو ماہرین آثار قدیمہ زمین کا سینہ چاک کرکے برآمد کرتے ہیں اور دنیا کو قدیم تہذیب و تمدن سے متعلق منفرد، حیرت انگیز، دل چسپ معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ایسی ہی سندھ میں دریافت ہونے والی قدیم ترین تہذیب موئن جودڑو بھی ہے، جس کی تاریخ کے گم شدہ اوراق کی تلاش ہنوز جاری ہے۔
محققین موئن جو دڑو کی کی تاریخ کا سلسلہ 5ہزار سال قبل سے جوڑ کر خاموش ہوجاتےہیں۔ لیکن یہ بات بھی ابھی تحقیق کی متقاضی ہے کہ ’’اس شہر کا اصل نام کیا تھا؟‘‘مؤرخین بتاتے ہیں کہ موئن جو دڑو کے لوگوں کا جین مت، ہندودھرم اور بدھ مذہب سے تعلق ہونے کے باوجود اس شہر میں کہیں بھی ان کی کوئی مذہبی عبادت گاہ نہیں ملی، البتہ یہاں سے 3منہ والی ایک مورتی ملی ہے ، جس کے گرد مختلف جانوروں کی اشکال منقش ہیں۔ یہ دراصل قدیم مملکتوں کے علامتی نشان ہیں۔ محققین کے مطابق ان جانوروں میں گینڈا، روم، چیتا میسو پوٹیمیا، ریچھ قدیم فارس اور بھینسا سندھ کی سلطنت کے نشان کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔
دنیا کی قدیم ترین تہذیب کے آثار سندھ کے بالائی علاقے لاڑکانہ سے 31کلومیٹر اور دریائے سندھ سے محض 5کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہیں۔شہرکی کھدائی کے دوران ملنے والی لاشوں کے سبب اسے ’’مردوں کا ٹیلہ یعنی موئن جودڑو‘‘ کہا گیا۔ سرجان مارشل اپنی کتاب ’’موئن جودڑو اور تہذیب ہند‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’موئن جودڑو کے 6مقامات پر مجموعی طور پر 38لاشیں ملی ہیں جن میں سے 5جگہوں پر اجتماعی ڈھانچے برآمد ہوئے، ایک گھر سے 14انسانی ڈھانچے ملے، جن میں 13مرد، ایک عورت اور ایک بچہ شامل ہے۔ ان میں کسی نے کنگن پہنے ہوئے تھے، کسی نے انگوٹھیاں اور کسی نے منکوں کے ہار‘‘ ۔اس بات کا علم ایک ہندو انجینئر راکھیل داس بینرجی کو پہلی بار 1922ء میں اس وقت ہوا جب وہ اس علاقے میں ریلوے لائن بچھانے کےمنصوبے پر کام کررہاتھا۔ اس دوران اسے اس مقام پر دھنسی ہوئی زمین سے پرانے سکے، برتن و دیگر اشیاء ملیں۔
یہاں دور دور تک پھیلی پختہ اینٹوں کو اکٹھا کرکے لوگوں نے اپنے گھر تعمیر کئے ہوئے تھے۔ بعدازاں پہلی بار چارلس مین اور پھر دیارام شاہانی نے اس شہر کی کھدائی کی۔ سرجان مارشل کو تقریباً 500ایکڑرقبے پر کھدائی کے بعد اس شہر کا محض ایک گم شدہ ورق ملا، جب کہ ایک تہائی حصہ مزید کھدائی کا منتظر ہے۔ آثار قدیمہ کے ماہرین بھی وقتاً فوقتاً اس شہر سے متعلق اپنے اپنے نظریات پیش کرتے رہے۔ اس ضمن میں پہلا نظریہ یہ پیش کیا گیا کہ ’’آریائوں نے اس شہر پر حملہ کرکے اسے نیست و نابود کردیا تھا۔‘‘
دوسرے نظریئے میں بتایا گیا کہ ’’یہ شہر کسی حملے کے سبب نہیں بلکہ موسمی تغیرات اور بارشوں کے نہ ہونے کی کی وجہ سے خشک سالی کی بنا پر اجڑا‘‘۔ پھر تیسرا نظریہ یہ پیش کیا گیا کہ ’’یہ شہر دریا میں زبردست سیلاب کے سبب غرقاب ہوا‘‘ لیکن ان تینوں نظریات پر ماہرین باہمی طور پر کسی حتمی رائے پر متفق دکھائی نہیں دیتے۔
بالی وڈ میں بننے والی فلم ’’موئن جودڑو‘‘ میں بھی تاریخ کو توڑ مروڑ کے پیش کیا گیاہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ 18سو قبل مسیح میں کوٹ ڈیجی سے لے کر انڈیا کے گنگن، ہاکڑا، کالی بنگن، حصار، بھیڑا نانک تک پھیلی اس وادی کے دو شہر موئن جودڑو اور ہڑپہ کی تباہی کے اصل محرکات کیا تھے۔ یہاں کے گھر لوگوں کے وجود سے اچانک کیوں خالی ہوگئے، اس بستی کے لوگوں کو زمین نگل گئی یا آسمان کھاگیا؟
موئن جودڑو میں دنیا کی دیگر قدیم تہذیبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ کنویں دریافت ہوئے ہیں، جن کی مجموعی تعداد 7سو بتائی جاتی ہے، اس بناء پر اسے ’’سٹی آف ویلز‘‘ یعنی کنوئوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس ہڑپہ میں محض 8کنویں برآمد ہوئے۔
مورخین اس امر پر بھی متفق ہیں کہ موئن جودڑو کوہ قاف سے آنے والے لوگوں نے آباد کیا، لیکن اس شہر کی تباہی کے دوران یا اس سے پہلے موئن جودوڑ سے ان علاقوں میں نقل مکانی ہوئی جو آج بھارت میں شامل ہیں جس کے شواہد بھی ملتے ہیں۔ اس شہر سے برآمد ہونے والی تحریروں کو اب تک پڑھا نہیں جاسکا، لیکن یہاں کی مہروں، زیورات، برتن، کپڑے و دیگر اشیاء کو دیکھ کر یہاں کبھی آباد ہونے والے لوگوں کے فن تعمیر، مجسمہ سازی، علم و ہنر، رنگ و طرب سے دل چسپی، شعور و رہن سہن کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور صدیاں گزر جانے کے باوجود جدید دور میں بھی کھدائی کے دوران برآمد ہونے والی کانسی کی ناچتی مورتی اپنی جانب دنیا بھر کو متوجہ کئے ہوئے ہے۔موئن جودڑو کا نام آئے اور اس ناچتی مورتی کا تذکرہ نہ ہو ،ممکن نہیں ہے۔ بعض دانش وروںنے اسے اپنی تحریروں میں ’’سمبارا‘‘ قرار دینے اور کسی نے اس مورتی کو محض علامتی فن پارہ کہہ کر پہلو بچانے کی کوشش کی۔
ناچتی مورتی اور کنگ پریسٹ کو سمبارا کا لقب دے کر اس گتھی کو مزید الجھا دیا ہےمگر انگریزوں نے اسے ’’ڈانسنگ گرل آف انڈس ویلی‘‘ یعنی ’’وادی سندھ کی رقاصہ‘‘ کہہ کر ایک نئے نام کا اضافہ کردیا، سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی روایتوں کے مطابق سمبارا ناچتی مورتی ہی کے لئے معروف ہے۔’’شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو کہ برصغیر میں جس طرح ہڑپہ کا نام گندھاراتہذیب رکھا گیا ، اس مورتی کا نام گندھارا سے مماثلت کرتے ہوئے ’’سمبارا ‘‘رکھ دیا گیا، کیوں کہ ان دونوں گم گشتہ شہروں میں بہت سی قدرے مشترک ہیں‘‘۔’’رقاص مورتی سمبارا ‘‘کے نام سے موسوم قدیم موسیقی کے دھنوں پر رقص کرنے والے پاکستان کے معروف کتھک ڈانس ماسٹر محمد معراج المعروف راجو سمراٹ کے شاگردوں نے گزشتہ سال محکمہ ثقافت سندھ کے زیر اہتمام موئن جودڑو میں ہونے والے فیسٹیول میں کتھا پیش کی، جس میں سمبارا کا کردار حیدرآباد کی ایک فن کارہ نے ادا کرتے ہوئے رقص پیش کیا۔
اس رقص میں انہوں نے سمبارا کا غرور، انگ و آہنگ کو اجاگر کیا ہے۔ اس بارے میںماسٹر معراج کے بقول ، ’’سمبارا کے چہرے کے تاثرات سے یوں لگتا ہے کہ جیسے ابھی ابھی اس نے کسی سے جھگڑا کیا ہو، غرور سے سر قدرے اٹھا ہوا، بالوں کی چٹیا سر پر لپیٹی ہوئی، گلے میں موتیوں کا ہار، کامنی سا سیاہ بدن، اوپری حصہ برہنہ، دائیں ہاتھ کی کلائی میں 4کڑے، جب کہ بائیں ہاتھ کی کلائیوں سے بازو تک چوڑا پہنا ہوا ہے، جوآج بھی تھر کی خواتین انتہائی شوق سے پہنتی ہیں۔
ممکن ہے کہ موئن جودڑو سے نقل مکانی کرنے والوں کی کثیر تعداد یہاں آباد ہوگئی ہو اور چوڑے کا استعمال نسل در نسل ہورہا ہو اور یوں بھی تھر کے لوک رقص اور رہن سہن کا جائزہ لیں تو گلے کا ہار، ہاتھوں کے چوڑے، سمبارا اور یہاں کی خواتین کی زیبائش میں خاصی مماثلت ملتی ہے۔ جہاں تک اس رقاصہ کے کھڑے ہونے کاانداز ہے، تو اس رنگ کو بھارت کے نائیم رقص میں اس کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ بالوں کا انداز قدیم افریقی خواتین کا سا ہے، سمبارا کا کردار محض تصوراتی نہیں بلکہ حقیقی لگتاہے لیکن اس پر ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
مورتی کا تاریخ کے تناظر میں جائزہ لیں تو باآسانی ادراک ہوگا کہ اس کی دائیں ہاتھ کی کلائی میں جو 4کڑے ہیں، ان سے 4قدیم تہذیبوں سےاٹوٹ تعلق ظاہر ہوتاہے، جب کہ بائیں ہاتھ کی کلائی میں جو 25چوڑیاں ہے وہ موئن جودڑو کےاطراف کے گائوں کی علامت ہوسکتی ہیں،جہاں تک اس مورتی کی برہنگی کا تعلق ہے تو جب دنیا میں لوگ اپنی ستر پوشی کے لیےدرختوں کی چھال، پتے، جانوروں کی کھالیں استعمال کرتے تھے،اس وقت موئن جودڑو میں لباس کا استعمال ہوتا تھا۔لیکن اس وقت بھی یہاں ہر شخص کواپنے رسوم و رواج کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی تھی۔
اس لئے افریقی دکھائی دینے والی اس ناچتی مورتی کا بدن بھی اپنی قدیم افریقی رسم و رواج کے مطابق فطری لباس میںہے۔لیکن آج یہ مورتی ہمارے پاس نہیں ہے کیوں کہ پاکستانی منتظمین بھارت میں منعقد ہونے والی نمائش میں شرکت کے بعدکنگ پریسٹ اور سمبارا کے مجسمے وہیں بھول کر آگئے۔ بعدمیںمحکمہ قدیم آثار کے ایک سیکرٹری کو ان مجسموں کواپس لانے کے لیے بھیجا گیا، تو بھارت میں ان کے سامنے یہ دونوں مجسمے رکھ دئیے گئے اور کہا گیا کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک مجسمہ آپ لے کر جاسکتے ہیں۔
کنگ پریسٹ کے چہرے داڑھی دیکھ کر سیکرٹری نے اسلامی جذبات سے ملغوب ہوکرسمبارا کی ناچتی مورتی کو وہیں چھوڑدیا اور کنگ پریسٹ کا مجسمہ لےکر آگئے۔ پاکستان آرٹس کونسل کے صدر اور معروف مصور جمال شاہ نے ایک پریس کانفرنس میں بھارتی حکومت سے سمباراکی مورتی کی واپسی کا مطالبہ کردیا۔ جس کی بناء پر پاکستان، انڈیا سمیت دنیا بھر کے ٹی وی چینلز اور اخبارات و جرائد میں ایک بھونچال آگیا۔ لیکن اس مطالبے کے باوجود بھارت اپنی ہٹ دھرمی کی روایات پر برقرار رکھے ہوئے ہے ۔
سندھ یونی ورسٹی جام شورو کے پروفیسر مرزا سلیم بیگ کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ ’’سمبارا پاکستان کی ملکیت ہے، اس لیے انڈیا اسے رکھنے کا مجاز بھی نہیں ہے۔ لیکن وادی سندھ کی قدیم تہذیب موئن جودڑو سے برآمد ہونے والی ڈانسنگ گرل سمبارا حقیقت ہے یا افسانہ! اس کی تحقیق بھی کی جائے‘‘۔