پاکستان میں کھلاڑیوں کی کپتانوں اور کوچز کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی کہانیاں نئی نہیں ۔1996میں جاوید میاں داد نے روتے ہوئے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کی اور ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا۔اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی مداخلت پر میاں داد نے ریٹائرمنٹ واپس لی اور انہیں ورلڈ کپ کی ٹیم میں شامل کیا گیا۔محمد یوسف اور شاہد آفریدی بھی احتجاجا ریٹائرمنٹ لے چکے ہیں اور پھر دونوں کرکٹ کی دنیا میں واپس آئے۔
عین اس وقت جب نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ٹی ٹوئینٹی شروع ہونے میں چند گھنٹے باقی تھے محمد عامر نے مصباح الحق اور وقار یونس پر سنجیدہ نوعیت کے الزامات لگا کر مشروط ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا۔محمد عامر کی ریٹائرمنٹ کو دلچسپ پہلو یہ تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی کہہ دیا کہ مستقبل میں ان کی ٹیم میں شمولیت پر غور نہیں کیا جائے گا۔محمد عامر کا کرکٹ کیئریئر بظاہر شدید ترین خطرات سے دوچار ہے ۔محمد عامر کا الزام بھی آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
محمد عامر کا کہنا ہے کہ جس طرح کا ماحول بن چکا ہے اس میں نہیں لگتا کہ وہ موجودہ ٹیم انتظامیہ کے ساتھ کرکٹ کھیل سکیں، مجھے ذہنی طور پر ٹارچر کیا جارہا ہے اور وہ اب مزید برداشت نہیں کرسکتے۔کم عمر میں ملک کے لئے نہ کھیلنا یقینی طور پر ان کے لئے بڑا دھچکہ ہوگا۔دنیا میں پاکستان واحد ملک نہیں ہیں جہاں اس قسم کی مثالیں موجود ہیں۔ویسٹ انڈیز کرکٹ بورڈ سے اختلافات کے بعد ڈیرن سیمی کئی سال کے بعد بھی ٹیم میں نہیں آسکے ہیں۔کرس گیل بھی کئی سال قومی ٹیم سے باہر رہے۔ محمد عامر کا کیس کچھ منفرد ہے۔2010کے بدنام زمانہ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کے بعد محمد عامر کو پاکستان کرکٹ بورڈ نے معاف کرکے قومی ٹیم میں شامل کیا۔
عامر نے اپنے ملک سے وفا نہیں کی اور بلیک میلنگ والے انداز میںپریشر بڑھاتے ہوئےکرکٹ کو خیر باد کہہ گئے ۔ محمد عامر کی حالیہ کارکردگی ایسی نہیں تھی جس پر پی سی بی ان کے ہاتھ پاوں جوڑتا۔ انٹرنیشنل ڈیبیو سے اب تک محمد عامر کی کہانی میں کئی نشیب و فراز آئے ہیں۔لیکن انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان وہ اینٹی کلائمیکس ہے کہ جو خود کہانی لکھنے والے کے بھی علم میں نہ تھا۔
محمد عامر نے اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا ہے، وہ ریٹائرمنٹ سے زیادہ انسانی ہمدردی کی اپیل دکھائی دے رہے ہیں۔اسپاٹ فکسنگ میں سزا یافتہ پاکستانی فاسٹ بولر محمد عامر نے ٹیم انتظامیہ ،ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بولنگ کوچ وقار یونس کے رویے سے دلبرداشتہ ہوکر انٹر نیشنل کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ انہوں نے ماضی میں بورڈ کی سپورٹ کا بھی لحاظ نہیں کیا۔محمد عامرنے الزام عائد کیا ہے کہ انہیں ذہنی اذیت دی جا رہی ہے اس لیے وہ کرکٹ چھوڑ رہے ہیں۔ اس سے قبل محمد عامر ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر منٹ لے چکے ہیں۔واضع رہے کہ محمد عامر سے قبل سابق کپتان یونس خان اور محمد حفیظ بھی ماضی میں سلیکشن سے خوش نہیں تھے۔
انہوں نے بورڈ پر پریشر ڈال کر ٹیم میں جگہ بنائی جبکہ حالیہ دنوں میں سمیع اسلم بورڈ کی سلیکشن کے رویے سے احتجاجا امریکا منتقل ہوگئے ہیں۔ عامر کا کہنا ہے کہ موجودہ بورڈ مینجمنٹ میں کرکٹ نہیں کھیل سکتا، فی الحال اس مینجمنٹ کی وجہ سے کرکٹ چھوڑ رہا ہوں۔محمد عامر نے آخری 32 ٹی ٹوئینٹی انٹر نیشنل میں36وکٹیں حاصل کی ہیں۔محمد عامرکا کیئریئر اتار چڑھاو کا شکار رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سےاگست میں انہوں نے آخری ٹی ٹوئینٹی انگلینڈ میں کھیلا تھا۔زمبابوے کی ہوم سیریز میں بھی وہ ٹیم کا حصہ نہیں تھے۔
محمد عامر نے پاکستان کی جانب سےٹیسٹ میچوں میں 119ون ڈے میں81اور ٹی ٹوئینٹی میں59اور مجموعی طور پر259انٹر نیشنل وکٹیں حاصل کی ہیں۔سابق فاسٹ بولرشعیب اختر نے محمد عامر کی طرف سے انٹرنیشنل کرکٹ چھوڑنے کے بیان کے بعد ایک ٹویٹ میں کہا کہ انھیں ضائع نہ کیا جائے۔محمد عامر کو میرے حوالے کریں پھر دیکھیں وہ میدان میں کیا چمتکار کرتا ہے۔ نہ ضائع کریں اس کو۔‘ اس ٹویٹ کوسوشل میڈیا پر پذیرائی ملی ہے۔واضح رہے کہ تیرہ دسمبر کو قومی کرکٹ ٹیم کے بولنگ کوچ وقاریونس نے کہا تھا کہ محمد عامر ورک لوڈ کےباعث ٹیم سے باہر نہیں ہوئے بلکہ وہ پرائیوٹ لیگ بھی تو کھیل رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عامر کا ٹیسٹ کرکٹ نہ کھیلنا ان کا ذاتی فیصلہ ہے۔چند دن پہلے اس تنازع کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک صحافی نے ٹوئٹر پر عامر سے ٹیسٹ کرکٹ چھوڑنے سے متعلق سوال کیا تھا فاسٹ بولر نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وجہ تو وقار یونس ہی بتا سکتے ہیں، وقار یونس کے بیان پر محمد عامر نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اللہ ہدایت دے جو ایسی سوچ رکھتے ہیں۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے ویڈیو بیان کے چند گھنٹے بعد سخت ردعمل میں کہا کہ محمد عامر مزید بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کی خواہش نہیں رکھتے، لہٰذا آئندہ کسی بھی انٹرنیشنل میچ کے لیے ان کے نام پر غور نہیں ہو گا۔
پی سی بی اعلامیے کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو وسیم خان نے محمد عامر سے رابطہ کیا۔اس دوران 29 سالہ فاسٹ بولر نے چیف ایگزیکٹو پی سی بی کو تصدیق کی ہے کہ وہ مزید بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کی خواہش نہیں رکھتے، لہٰذا آئندہ کسی بھی انٹرنیشنل میچ کے لیے ان کے نام پر غور نہ کیا جائے ۔پی سی بی کا کہنا ہے کہ یہ محمد عامر کا ذاتی فیصلہ ہے اور پی سی بی اس کا احترام کرتا ہے، لہٰذا اس معاملے پر مزید کوئی تبصرہ نہیں کیا جائے گا۔
عامر کا کہنا ہے کہ 35 کھلاڑیوں میں نام نہ آنا میرے لیے پیغام تھا، مجھے سائیڈ لائن کیا جارہا ہے، 5 سال کی سزا کاٹنے کے بعد واپس آیا اور پھر بھی کہا جا رہا ہے کہ بورڈ نے مجھ پر بہت انویسٹ کیا، مجھے صرف دو لوگوں نے سپورٹ کیا اور وہ سابق پی سی بی چیئرمین نجم سیٹھی اور شاہد آفریدی تھے جس پر دونوں کا شکرگزار ہوں۔
محمد عامر کا کہنا تھا کہ پانچ سال سزا کاٹ کر اذیت کاٹی اور پھر کرکٹ میں واپسی کے بعد بھی بار بار باتیں کرکے ذہنی اذیت دی جارہی ہے، میں کرکٹ سے دور نہیں جارہا مگر مجھے سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے، جس طرح کا ماحول بن گیا ہے تو مجھے اس وقت مجھے خطرے کی گھنٹی مل گئی تھی جب یہ پتہ چلا کہ میں 35 کھلاڑیوں میں بھی نہیں آسکتا محمد عامر نے حال ہی میں لنکا پر یمیئر لیگ میں گال گلیڈی ایٹرز کو فائنل میں پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
جبکہ پاکستان کی جانب سے آخری پانچ میچوں میں ان کی ایک وکٹ تھی عامر کو نیوزی لینڈ کے دورے کے لئے ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ محمد عامرنے کہا کہ ‘ایک دو دن میں پاکستان پہنچ کر باقاعدہ بیان جاری کریں گے ،کون کون لوگ میرے فیصلے کی وجہ بنے ان کاذکر بھی بیان میں کروں گا، ان لوگوں کا بھی ذکر کروں گا جنہوں نے مجھے مشکل وقت میں سپورٹ کیا ۔پاکستانی کرکٹ ٹیم نے گذشتہ سال جب آسٹریلیا کا دورہ کیا تو اس سے قبل محمد عامر اور وہاب ریاض ٹیسٹ کرکٹ نہ کھیلنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔
اس فیصلے کو ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بولنگ کوچ وقار یونس نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ مصباح الحق کا کہنا تھا کہ جب آپ کرکٹرز پر سب کچھ خرچ کرتے ہیں تو پھر ان کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ملک کو کچھ واپس کریں۔
پانچ سال کی سزا مکمل ہونے کے بعد محمد عامر کی انٹرنیشنل کرکٹ میں کارکردگی ملی جلی رہی ہے۔2017کی چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں ان کے بھارت کے خلاف خطرناک ا سپیل نے پاکستان کی جیت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔گذشتہ سال انگلینڈ میں ہونے والے ورلڈ کپ میں انھوں نے سترہ وکٹیں حاصل کی تھیں۔
محمد عامر نے گذشتہ سال ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اب محدود اوورز کی کرکٹ پر زیادہ توجہ دینا چاہتے ہیں۔پی سی بی محمد عامر کیس کو ٹیسٹ کیس بناکر ٹیم انتظامیہ کی کارکردگی پر بھی نظر رکھے تاکہ مستقبل میں کوئی اور محمد عامر صدائے احتجاج بلند نہ کرے۔
پاکستان سیریز ہار گیا، بھارت میں کہرام
نیوزی لینڈ کی سرزمین پر پاکستانی کرکٹ ٹیم میزبان کے ہاتھوں دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں 9 وکٹوں کی باآسانی شکست کے بعد 3میچوں کی سیریز ہار گئی، تجربے کار بیٹسمین اور کپتان بابر اعظم کی سیریز میں شدت سے کمی محسوس ہوئی جو ان فٹ ہونے کی وجہ سے سیریز سے باہر ہوگئے تھے، ان کی جگہ شاداب خان نے کپتانی کے فرائض انجام دئیے،ان کا سیریز سے باہر ہونا پاکستان کو خاصا مہنگا پڑا، پہلے میچ کے بعد دوسرے میچ میں پاکستان کے بیٹسمین ناکام رہے۔
پہلے میچ میں شاداب خان اور فہیم اشرف نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا،دوسرے میچ میں محمد حفیظ کی 99 رنز کی شاندار اننگز کی بدولت پاکستان نے نیوزی لینڈ کو جیت کے لیے 164 رنز کا ہدف دیاتھا جو اس نے ایک وکٹ پر پورا کرلیا، آؤٹ ہونے والے کھلاڑی مارٹن گپٹل تھے جو 21 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے، ٹم سیفرٹ نے 84 اور کیوی کپتان کین ولیمسن نے 57 رنز کی اننگز کھیلی۔
دوسری جانب آ سٹریلیا کے ہاتھوں36رنز پر بھارت کا آ وٹ ہونا پچھلے ہفتے عالمی میڈیا میں سر فہرست خبر رہی، بھارت میں اس پر خاصا کہرام مچا ہوا ہے۔