• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

نئے سال میں پاکستان کرکٹ بورڈ کو نئے چیلنجوں کا سامنا

پاکستان کرکٹ 2020میں بھی شہ سرخیوں میں رہی، سری لنکا،بنگلہ دیش اور زمبابوےکی ٹیموں کے علاوہ پاکستان سپر لیگ کے میچ بھی پاکستان میں ہوئے۔دنیا کے صف اول کے کھلاڑیوں،امپائروں اور مبصرین نے پاکستانی میدانوں کو رونق بخش کر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان انٹر نیشنل کرکٹ کے لئے محفوظ جگہ ہے۔نئے سال میں پاکستان کرکٹ بورڈ کو نئے چیلنجوں کا سامنا ہے۔اس برس جنوبی افریقا،انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں کو پاکستان کا دورہ کرنا ہے۔پاکستان آئی سی سی کے ایونٹس کی میزبانی کا بھی امیدوار ہے جس میں ورلڈ کپ بھی شامل ہے۔سال ختم ہوتے ہوتے فواد عالم نے نیوزی لینڈ کے خلاف دھواں دار سنچری بناکر شہ سر خیوں میں جگہ بنالی۔

فواد عالم کو پاکستان ٹیم میں واپسی کے لئے ساڑھے گیارہ سال انتظار کرنا پڑا۔ ساڑھ چھ گھنٹے کریز پر دنیا کے خطرناک بولنگ اٹیک کا سامنا کرکے انہوں نے ثابت کر دیا کہ ان کو ٹیم سے باہر بٹھا کر ناانصافی کی گئی۔انہوں نے کمال مہارت سے اس کا جواب دیا،پی سی بی کے سربراہ احسان مانی کہتے ہیں کہ محمد عامر اور سمیع اسلم کے انٹرنیشنل کرکٹ چھوڑنے کے فیصلے پر افسوس ہے،کاش کہ ان دونوں نے یہ فیصلہ لینے سے پہلے پی سی بی سے بات کی ہوتی،محمد عامر نے دنیا کے نامور فاسٹبولرز کی طرح ہر طرز کی کرکٹ کے لیے اپنی فٹنس برقرار رکھنے کی بجائے پہلے خود کو وائٹ بال کرکٹ تک محدود کیا اور پھر ریٹائرمنٹ لے لی،سمیع اسلم کو فواد عالم کی طرف دیکھنا چاہیے تھا اور کم بیک کے لیے ڈومیسٹک کرکٹ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔

مڈل آرڈر بیٹسمین فواد عالم نے پچھلے گیارہ سال کے صبرکا غصہ ویگنر، ساؤتھی، بولٹ اور جیمیسن پر اتارا۔ٹیسٹ کرکٹ نام ہی صبر آزمارائی کا ہے اور فواد عالم اس صبر کے امتحان میں پورا اُترے۔ وکٹ کیسی بھی ہو، اس کیوی اٹیک کے سامنے ساڑھے چھ گھنٹے سے زائد مزاحمت کرنا ہی محیرالعقول کارنامہ ہے۔ پچھلے دو تین سالوں میں یہ مزاحمت پاکستانی ٹیسٹ ٹیم سے عنقا ہوتی جا رہی تھی۔اگر فواد عالم کے ساتھ ٹاپ آرڈر کا کوئی ایک بیٹسمین بھی اپنا حصہ ڈال جاتا تو پاکستان یہ ہدف حاصل بھی کر سکتا تھا۔پاکستان کے لیے دوسرا خوش کن پہلو محمد رضوان کی قائدانہ کارکردگی ہے۔ 

ان کی فیصلہ سازی میں بھی قائدانہ کردار بخوبی نظر آیا۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے فواد عالم کی ( نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں 102 رنز کی اننگز) کو سال کی بہترین انفرادی کارکردگی کا ایوارڈ دیا۔حالانکہ اسی فہرست میںمحمد حفیظ(انگلینڈ کے خلاف تیسرے ٹی ٹونٹی میچ میں 86 ناٹ آؤٹ رنز کی اننگز)کے علاوہ، نسیم شاہ (بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ کرکٹ میں ہیٹ ٹرک) ، شان مسعود (انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں 156 رنز کی اننگز) شامل تھیں۔

فواد عالم کی عمر اس وقت35سال ہے اور وہ مزید چند سال پاکستانی بیٹنگ میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ،نئے سال میں فواد عالم کی کارکردگی پاکستان ٹیم کے لئے اہم ہوگی ،پاکستانی کرکٹ ٹیم نے 2020میںپانچ ٹیسٹ، تین ایک روزہ اور بارہ ٹی ٹونٹی میچز کھیلے، خواتین کرکٹ ٹیم نے رواں سال آئی سی سی ویمنز ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں شرکت کی، قومی انڈر 19 کرکٹ ٹیم نے آئی سی سی انڈر 19 کرکٹ ورلڈ کپ میں شرکت کی، پہلی مرتبہ پی ایس ایل کے تمام میچز پاکستان میں کھیلے گئے، تیس ستمبر سے اب تک ڈومیسٹک سیزن 2020-21 کے 186 میچز مکمل ہوچکے اور جس وقت آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے قائد اعظم ٹرافی کا فائنل سینٹرل پنجاب اور کے پی کے کی ٹیموں کے درمیان ختم ہوچکا ہوگا۔

ایک ایسے موقع پر کہ جب کوویڈ 19 کی وجہ سے دنیا بھر میں کھیلوں کی سرگرمیاں تعطل کا شکار تھیں، تو اس وقت پی سی بی نہ صرف اپنے ڈومیسٹک کرکٹ سیزن کا ستر فیصد مکمل طور پر انعقاد کرچکا ہے بلکہ اس عرصے میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے انگلینڈ اور نیوزی کا دورہ بھی کیا، اس دوران زمبابوے کرکٹ ٹیم بھی پاکستان آئی۔میدان سے باہر، پی سی بی نے نیشنل ہائی پرفارمنس سنٹر میں بہتری لانے کی غرض سے انتہائی معزز اور تجربہ کار کوچز کی تعیناتی کی تاکہ وہ نئے اور باصلاحیت کھلاڑیوں کی نشاندہی کرسکیں۔

پی سی بی نے آئی سی سی اور دیگر کرکٹ بورڈز کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین اور کامیاب ڈومیسٹک سیزن کا انعقاد کیا، جس کی وجہ سے جنوبی افریقااور انگلینڈ نے بالترتیب جنوری اور اکتوبر میں دورہ پاکستان کی تصدیق کی. کرکٹ ساؤتھ افریقانے پاکستان ویمنز نیشنل کرکٹ ٹیم کی میزبانی کے لیے رضامندی بھی ظاہر کی۔

 دونوں ممالک کی خواتین کرکٹ ٹیموں کے مابین تین ایک روزہ اور تین ٹی ٹونٹی میچز کھیلے جائیں گے جو کہ آئی سی سی ویمنز کرکٹ ورلڈ کپ کوالیفائرز کی تیاریوں کے لیے معاون ثابت ہوں گے۔اس کے علاوہ پی سی بی کے بورڈ آف گورنرز میں پہلی مرتبہ کسی خاتون کو بطور آزاد رکن شامل کیا گیا، پہلی مرتبہ ہے کہ پی سی بی کی بی او جی میں چار آزاد اراکین شامل ہیں۔چیئرمین پی سی بی احسان مانی نے کہا ہے کہ کھلاڑیوں اور میچ آفیشلز کی صحت اور حفاظت کی بات کی جائے تو یقیناً سال دوہزار بیس کرکٹ کے لیے ایک انتہائی مشکل سال تھا تاہم انہیں خوشی ہے کہ اس عرصے میں کرکٹ سرگرمیوں کی بحالی میں پی سی بی سب سے آگے رہا، اس دوران ہم نے پی ایس ایل 2020 کو مکمل کیا، انگلینڈ کا دورہ کیا اور ڈومیسٹک سیزن کا اعلان کیا۔

احسان مانی نے کہا کہ ہم نے اپنے اقدامات سے دنیا کو واضح کیا کہ اگر کھلاڑیوں اور آفیشلز سمیت تمام اسٹیک ہولڈر کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے تو کوویڈ 19 اور کرکٹ ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ ہم نے نہ صرف زمبابوے کی میزبانی کی بلکہ ہم اب تک اپنے ڈومیسٹک سیزن کے 186 میچز مکمل کر چکے ہیں۔چیئرمین پی سی بی کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں اور میچ آفیشلز کے تعاون کے بغیر ہمارے لیے یہ سب کرنا ناممکن تھا، انہوں نے اپنے اہلخانہ اور دوستوں سے بڑھ کر کھیل اور پاکستان کو فوقیت دی، لہٰذا میں اس موقع پر نہ صرف کھلاڑیوں بلکہ ان کی فیملیز کا بھی بہت مشکور ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں انگلینڈ کے خلاف اولڈ ٹریفورڈ ٹیسٹ میں کامیابی اور نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ کو ڈرا کرنا چاہیے تھا تاہم سال 2020 میں کھیلے گئے پانچوں ٹیسٹ میچوں میں ہمارے ٹیم کی کارکردگی میں نوجوان اور باصلاحیت کھلاڑیوں کی کارکردگی ایک مثبت پہلو بن کر سامنے آئی۔احسان مانی نے کہا کہ سال 2021 میں ہمیں تقریباً دس دو طرفہ سیریز اور ایک گلوبل ایونٹ میں شرکت کرنا ہے، اس دوران ہمیں معیاری اور بہترین کرکٹ کھیلنا ہوگی۔

ہماری ٹیم کی انتظامیہ میں مصباح الحق، وقار یونس اور یونس خان جیسے شاندار اور تجربہ کار کھلاڑی شامل ہیں، امید ہے کہ ان کی موجودگی نوجوان کھلاڑیوں کے لیے بہت مددگار ثابت ہوگی، کسی بھی کوچ کی طرح مصباح الحق بھی صرف دستیاب کھلاڑیوں کے ساتھ ہی کام کرسکتے ہیں، ان کی معاونت کے لیے وقار یونس اور یونس خان بھی موجود ہیں، ثقلین مشتاق اور محمد یوسف کی این ایچ پی سی میں تقرری بھی انہیں مدد فراہم کررہی ہے۔

مصباح الحق پر امید ہیں کہ 2021 میں ہمیں گذرے سال کی غلطیوں کو نہیں دہرانا، ہمیں معیاری مقابلوں کے لیے فٹنس پر خاص توجہ دینا ہوگی، ہمارے پاس باصلاحیت، تجربہ کار اور نوجوان کھلاڑیوں کا ایک بہترین پول دستیاب ہے ، ہم نے ملک میں ٹیسٹ کرکٹ کی واپسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نوجوان اور باصلاحیت کھلاڑیوں کو قومی کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کاموقع دیا، مایوسی ہے کہ ہم بنگلہ دیش اور زمبابوے کے خلاف جیت کا تسلسل دوسرے میچوں میں برقرار نہیں رکھ سکے۔مصباح الحق نے کہا کہ ہم نےبین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کے علاوہ چند باصلاحیت کرکٹرز کو پاکستان شاہینز میں بھی نمائندگی کا موقع دیا ،امید ہے کہ یہ نوجوان کرکٹرز مستقبل قریب میں ہمارا اثاثہ ثابت ہوں گے۔ 

سب سے زیادہ دکھ انگلینڈ کے خلاف اولڈ ٹریفورڈ ٹیسٹ ہارنے پر ہوا، ہم وہ میچ جیت سکتے تھے ، پھر اس کے بعد دوسرے میچ میں بارش ہوگئی اور تیسرے میں ہم ٹیسٹ ڈرا کرنے میں کامیاب رہے۔پی سی بی چیف اور ہیڈ کوچ نئے سال میں نئی امیدوں کے چراغ روشن کئے ہوئے ہیں ۔احسان مانی ستمبر میں تین سال مکمل ہونے کے بعد پی سی بی کو خیرباد کہہ سکتے ہیں جبکہ مصباح الحق کے دو سال مکمل ہوجائیں گے۔دیکھنا یہ ہے کہ نئے سال کے سورج کے ساتھ پاکستان کرکٹ پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ٹیم شکستوں کے بھنور سے نکل سکتی ہے یا نہیں؟

تازہ ترین
تازہ ترین