قوموں کی پہچان ان کی تہذیب و تمدن، ثقافت اور اقدار سے ہوتی ہے۔ ہمارری نوجوان نسل کو اپنی تہذیب اور اپنی روایات کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے ۔موجودہ عہد حاضر میں نوجوان اپنی تہذیب اور اقدار کے بنیادی اہم اصولوں سے غافل نظر آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہماری تہذیب اور اقدار تنزلی کا شکار ہے اگر ہم ذیل میں درج چند اہم اصولی نکات کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تو ہم جدید دور کا حصہ بن سکتے ہیں۔
اسلاف کی قدر :
ہر قوم کی تہذیب و تمدن میں خاندان کے بزرگوں کا اہم کردار ہوتا ہے وہ اپنے ادوار کے معاشرتی ،سماجی معاشی مسائل اور رسم و رواج کے حساب سے زندگی کے تمام رموز کو دیکھتے ،پرکھتے ہیں، اپنے مشاہدات اور تجربات کی روشنی میں نئی نسل کو آگہی دیتے ہیں لیکن آج کے اس جدید دور میں نوجوانوں کے پاس والدین اور گھر کے بزرگوں کےلئے وقت نہیں ہوتا۔بس ہیلو، ہائے، اور ہائے بائے تک کا رشتہ ہے۔
نوجوانوں خواہ کسی بھی طبقہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں انہیں اپنے والدین اور دیگر بزرگوں کے ساتھ احترام اور تعظیم کے ساتھ پیش آنا چاہئے۔ ان کے اچھے اور مخلص مشوروں پر عمل بھی کرنا چاہئے ، تاکہ صحیح سمت کی طرف گامزن ہو سکیں۔اپنےبزرگوں کی قدر کرنےاور ان کی باتوں پر عمل پیرا ہو کر نہ صرف معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا بلکہ خاندان کی بھی عزت افزائی ہوگی۔
انداز گفتگو :
آج کل کے نوجوانوں میں خودسری ،ضد، اَناپسندی، طنزیہ گفتگو، اور تلخ لہجہ جیسے رویئے نظر آتے ہیں، انہوں نے اپنی ذات پر ایسا خول چڑھایا ہوا ہوتا ہے کہ صرف ’’میں‘‘ کی گرد ان ان کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔ دوسرے کیا کہتے ہیں اس کی انہیں پرواہ نہیں ۔ چھوٹے تو چھوٹے بڑوں کو بھی کسی کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ان کا انداز تکلم بہت زیادہ پست ہوتا جا رہا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھنا بگڑنا اور لڑنا شروع کر دیتے ہیں، گھر سے باہر ان کا جو انداز گفتگو ہوتا ہے وہ کسی لحاظ سے مہذب نہیں ہوتا۔
کسی کو اگر قائل کرنا ہے تو دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کریں ،ناکہ چیخ چلا کر گالم گلوچ کر کے، ایسے میںمخاطب کی بات سمجھ میں آئے گی نہ وہ آپ کی بات سمجھ سکے گا۔ والدین اور بزرگوں کے ساتھ ان کے مرتبے اور رتبے کے لحاظ سے گفتگو کرنی چاہیے ۔ انداز اور الفاظ ایسے ہونے چاہیے کہ دل آزاری نہ ہوکیونکہ انداز گفتگو ہی ہمارے معاشرے میں تہذیب اور اقدار کی پہلی سیڑھی ہے۔
وقت کی قدر :
نوجوان نسل کو وقت کی اہمیت کا بالکل احساس نہیں، اسی لئے ان کی زندگی میںتوازن نظر نہیں آتا۔ ہر کام میں بے قاعدگی ،کوئی کام وقت پر نہیں کرتے جبکہ وہ نوجوان جو وقت کو اپنی گرفت میں رکھتے ہیں اور اپنی معمولاتِ زندگی میں نظم وضبط کے ساتھ ہر چیز کا تعین کرتے ہیں وہ زندگی میں ترقی کرتے ہیں۔
ماضی کے نوجوان جو آج کامیاب زندگی گزار رہے ہیں، انہوں نے اپنے بزرگوں اور اساتذہ سے وقت کی اہمیت کو سمجھا اور اس کے مطابق اپنے اصول واضح کئے لیکن آج کا نوجوان اپنی مرضی کے مطابق اپنی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔
رات کو دیر سے سوتے اور دیر سے اُٹھتے ہیں۔خاندان کے بڑوں اور والدین کی دخل اندازی انہیں برداشت نہیں۔ اس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب زندگی میں کوئی ٹھوکر لگے، لہٰذا ابھی بھی وقت ہے۔نوجوان نسل اپنی زندگی میں نظم وضبط پیدا کریں، وقت کی قدر کریں،۔ گیا وقت ہاتھ نہیں آتا۔
علم کی قدر:
دنیا کی تمام تہذیبوں،ثقافت اور اقدار میں علم کی آمیزش اور عکس نمایاں نظر آتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے نوجوانوں نے علم کی سچائی کو سمجھا اور اپنے اپنی زندگی کا حاصل بنایا۔ لیکن ہمارے ملک کی ترقی کی رفتار سے ظاہر ہورہا ہے کہ ہم دوسرے ممالک سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ نوجوان نسل کو علم کی اہمیت ،اس کی حرمت کی پہچان نہیں۔جب طلبا امتحانی مراکز سے باہر آتے اور فاتحانہ، فخریہ انداز میں نقل کے پھروں کو جیبوں سے نکال کر فضا میں اڑاتے ہیں تو ہماری قوم کی تعلیم کی قدر بکھری بکھری نظر آتی ہے۔
یہی نوجوان کتابوں کے صفحات کو جو وہ نقل کرنے کے لیے لائے تھے اپنے پائوں ،موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں سے روندتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔
جب معاشرے میں علم کی یہ قدر ہو تو قومیں خود بخود تباہی کی جانب بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں، لہٰذا ہماری قوم کے نوجوانوں کو علم کی اہمیت اور اس کی افادیت کو سمجھنا چاہئے۔’ یاد رکھیے’علم کی جتنی عزت کریں گے آپ کو بھی اتنی ہی عزت ملے گی‘‘کیونکہ یہ آپ کی تہذیب ،ثقافت اور اقدار کا اک ایسا ستون ہے جسے آپ ہی اس کی بنیادوں کو مضبوط اور
قوی کر سکتے ہیں۔ نوجوانوں کو اپنی سوچ بدلنا ہو گی، ہمیں دنیا میں اپنی پہچان اور شناخت کو زندہ جاوید رکھنا ہے اور اپنی تہذیب و اقدار سے دوسروں کو متاثر کرنا ہے۔