• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیاز فتح پوری کا بطور ایڈیٹر دبدبہ صرف اِس لیے تھا کہ وہ ایک عالم فاضل اور نہایت ہی قابل شخص تھے۔ اِسی طرح ادبی دنیا میں ’’ شب خون‘‘ کو ایک خاص اہمیت اِسی لیے حاصل رہی کہ اس کے ایڈیٹر، شمس الرحمٰن فاروقی جیسے دانش وَر اور نقّاد تھے۔ فاروقی صاحب کی علمیت و قابلیت اُن کی ہر تحریر سے جھانکتی، چاہے وہ اداریے ہوں یا کسی اور نوعیت کے مضامین۔ 

ادبی دنیا میں اُن کا رُعب، قابلیت کی دھاک کچھ اِس طرح بیٹھی ہوئی تھی کہ کسی عام شاعر، ادیب اور نقّاد کا تو اُن کے’’ دربار‘‘ میں گزر تک نہیں ہوتا تھا۔ اُن کے سامنے کسی کو منہ کھولنے کی ہمّت نہ ہوتی کہ اُن کی ادبی موضوعات پر گہری عالمانہ نظر تھی۔ وہ کئی زبانوں پر عبور رکھتے اور اُن کا مطالعہ اِتنا وسیع تھا کہ باریک سے باریک اور نازک سے نازک معاملات میں بھی ایسی عالمانہ بحث کرتے کہ گویا اُس موضوع پر برسوں تحقیق کی ہو۔’’ شب خون‘‘ میں چند کالم ایسے بھی ہوتے، جو دیگر ادبی رسائل میں نظر نہیں آتے تھے، مثلاً سوانحی گوشوں کا انتخاب اور کسی بھی شعری یا ادبی موضوع پر اُن کے مدلّل جوابات، جو وہ مکتوبات کے کالم میں دیتے تھے۔

ان جوابات کو پڑھ کر بڑے بڑے نقّاد، شاعر اور ادیب اُن کی قابلیت کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیتے۔ اگر کسی نے کسی شعر پر غلطی سے کوئی اعتراض کردیا، تو فاروقی صاحب اُس کے جواب میں سو، دو سو سال پرانے شعراء کے درجنوں اشعار سند کے طور پر پیش کردیتے۔ جہاں ایک طرف شمس الرحمٰن فاروقی کی تحریروں نے’’شب خون‘‘ کو اعلیٰ معیار بخشا، وہیں اُس میں خشک مضامین، نظمیں، غزلیں اور افسانے چھاپ کر قاری کو بھی الجھن میں مبتلا کردیا تھا، اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ’’ یہ رسالہ پڑھے لکھے شعراء، ادیبوں ہی کے لیے ہی وجود میں آیا تھا۔‘‘ ویسے بھی کئی ناقدین نے ادب کو مخصوص اور پڑھے لکھے لوگوں ہی کے لیے قرار دیا ہے۔ 

شمس الرحمٰن فاروقی اسی نظریے کے حامی تھے۔ اُن کے نزدیک ادب سے دل چسپی رکھنے والوں کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے اور’’ شب خون‘‘ اس کی زندہ مثال تھا۔’’ شب خون‘‘ میں سب سے زیادہ وہ کالم پڑھا جاتا، جس میں فاروقی صاحب سوالات کے جواب دیا کرتے تھے۔ سوانحی گوشہ بھی خاصّے کی چیز ہوتا، جس میں عظیم ہستیوں کی شخصیت کے کچھ خاص پہلو اُجاگر کیے جاتے۔نیز، اس کے اداریوں کو بھی ادبی دنیا میں بہت اہمیت دی جاتی کہ اُن میں علم کی ایک دنیا سمٹ آتی تھی۔مثلاً شمارہ نمبر 215کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔ ’’(علامت)= ’’بشری علوم کے میدان میں علامت ایک ایسی اصطلاح ہے، جس پر معنی اور معنویت کے بہت سے بوجھ لاد دیئے گئے ہیں۔ اگر وسیع ترین مفہوم میں دیکھا جائے، تو علامت یعنی’’ Symbol‘‘اور نشان یعنی’’ Sign‘‘میں کوئی فرق نہیں۔ 

اس مشکل کے باوجود کہ علامت کی اصطلاح بذاتِ خود ایک مبہم اصطلاح ہے، لیکن اس کی جو تعریفیں باریکی کے ساتھ بیان کی گئی ہیں، اُنھیں تین شقوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ اول تو یہ کہ علامت رسومیاتی قسم کا نشان ہے۔ دوسرے یہ کہ علامت تصویری قسم کا نشان ہے اور تیسری شق یہ کہ علامت معنی خیز اور معنی کی طرف اشارہ کرنے والا نشان ہے۔ آخری دو تعریفوں کی روشنی میں علامت کو جمالیات اور ثقافتی مطالعات کے میدانوں میں کلیدی تصوّر کی حیثیت حاصل ہے۔ اِن میدانوں میں علامت کا مفہوم کچھ اور معنی پر بھی محیط ہے۔ 

مثلاً لفظی نشان کے طور پر علامت یا علامتی نشان کے طور پر علامت (مثلاً 0 علامت ہے عدم کی) یا ٹریڈ مارک کے طور پر علامت (کوئیLogo) ہے۔ جھنڈے (Banner) اور مُہر (Signet) کے طور پر علامت اور پھر آیت (Emblem) کے طور پر علامت۔ یعنی علامت اس تصویر کو بھی کہیں گے، جس سے کوئی مخصوص معنی مستفاد ہوسکتے ہیں۔ (مثال کے طور پر اگر کسی تصویر میں ہڈیوں کا ڈھانچا ہاتھ میں ہنسیا لیے ہوئے دِکھایا گیا ہے، تو یہ موت یا موت کے فرشتے کی علامت ہے)۔ علامت کی ایک اور شق تمثیل (Allegory) بھی ہے۔‘‘

اِس اقتباس کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ فاروقی صاحب اپنے’’ شب خون‘‘ کے لیے کیسا قاری چاہتے تھے۔اُن کے اسی نظریے سے بہت سے کم پڑھے لکھے لوگوں کو تکلیف ہوتی اور وہ مخالفت پر اُتر آتے، لیکن فاروقی صاحب سے مقابلہ کرنے کے لیے جس قابلیت کی ضرورت تھی، اُس سے وہ محروم تھے۔ اِسی لیے وہ عاجز ہوکر گھٹیا ہتھکنڈوں پر اُتر آتے۔ تاہم، ان باتوں سے اُن کی شخصیت پر کوئی اثر نہ پڑتا، ویسے بھی وہ ہر کس وناکس کا نوٹس نہیں لیتے تھے اور نہ ہر کسی کو جواب دیتے، یہی اُن کی علمیت، قابلیت کی نمایاں پہچان تھی۔البتہ، حسبِ ضرورت’’ شب خون‘‘ میں اس طرح کے خطوط کے جواب میں ایک، دو سطروں میں ہی اِتنا کچھ کہہ دیتے کہ پھر کسی کو مزید لکھنے کی ہمّت نہ ہو پاتی۔

’’ شب خون‘‘ کے شمارہ نمبر 217 میں مشہور نقّاد، گیان چند جین کا خط شائع ہوا’’ فروری 1998ء کے’’ شب خون‘‘ میں آپ نے مجھ صغرالشعرا کی غزل کو سب سے پہلے جگہ دے کر نوازا بھی اور محجوب بھی کیا، مَیں اس مقام کے لائق نہیں۔ غزل میں کتابت کے چند سہو در آئے ہیں۔ ساتویں شعر میں ’’مغلوب‘‘ دراصل ’’مفلوج‘‘ اور آخری شعر میں ’’زمن‘‘ کی جگہ ’’چمن‘‘ ہونا چاہیے۔ آپ نے عنوان دیا ہے ’’جنّت سے جنّت تک‘‘، ’’قیامت سے قیامت تک‘‘ کی یاد آگئی۔ میرے نزدیک نہ ہندوستان جنّت ہے، نہ امریکا۔ مَیں نے اس غزل کا ایک مصرع اصلاً یوں کہا تھا؎’’ہوئی ہے جنّتِ ارضی بھی میرے واسطے دوزخ‘‘، لیکن نئے مستقر کو دوزخ کہنا ناشُکرا پن معلوم ہوا۔ اسے بدل کر ’’بے رَس‘‘ کردیا۔

بریں وجوہ یہ عنوان میرے عندیے کا عکّاس نہیں۔ ‘‘ اِس خط میں گیان چند جین نے ایک چھوٹے سے عنوان سے متعلق صرف اِتنا لکھا تھا کہ’’ آپ نے جنّت سے جنّت تک کا عنوان کیوں لگایا، جب کہ یہ عنوان میرا لکھا ہوا نہیں ہے‘‘، لیکن شمس الرحمٰن فاروقی نے بہت خُوب صُورت طریقے سے اِس عنوان کی اہمیت سمجھائی۔ وہ لکھتے ہیں’’عنوان ہمارا لگایا ہوا تھا، اُسے ہم نے ایک طرح سے شاعر کی طرف سے طنزیہ اشار ہ بتایا تھا، ہندوستان کو جنّت نشان کہتے ہی تھے اور امریکا خاص طور پر کیلیفورنیا کو دنیا میں جنّت کہا جاتا ہے۔‘‘’’ شب خون‘‘ میں عالمی ادب سے متعلق مضامین اور دیگر تحریریں شائع ہوتی رہتی تھیں، نیز، فاروقی صاحب کے اداریے، اُن کے مضامین اور مخصوص شخصیات پر گوشوں کی اشاعت سے بھی اُن کی عالمی ادب پر گہری نظر کا اندازہ ہوتا تھا۔ 

ایک بار اُنھوں نے لکھا’’ انگریزی ادب میں جس طرح کتابوں پر تبصرے آتے ہیں، اگر اس طرح کے تبصرے ہندوستانی ادیبوں اور شاعروں کی کتابوں پر آنے لگیں، تو لوگ تبصروں کے لیے کتابیں پہنچانا ہی بند کردیں، اِس لیے کہ اُن میں سچ برداشت کرنے کی ہمّت ہی نہیں ہے۔ ہر مصنّف، شاعر، ادیب اپنی کتاب پر صرف اپنی تعریف پڑھ کر خوش ہوتا ہے، حالاں کہ یہ خوشی کتنی عارضی ہوتی ہے، اِس بات کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔‘‘ اِسی طرح وہ سوانحی گوشوں کے کالم میں سیکڑوں برس پرانے انگریزی، عربی، فارسی، فرانسیسی اور دیگر زبانوں کے ادیبوں اور شعراء کے حوالے رقم کرتے۔’’ شب خون‘‘ کے شمارہ نمبر 217 میں جیمس جوائس اور سیموئل بیکٹ کا ایک مختصر واقعہ شائع ہوا، ملاحظہ ہو’’جیمس جوائس جن دنوں پیرس میں مقیم تھا اور اپنے ناول’’ Finnegans wake ‘‘پر کام کررہا تھا، سیموئل بیکٹ وہاں پہلے سے موجود تھا اور بیکٹ کا اس سے ربط ضبط کسی عقیدت مند شاگرد اور حاضر باش کی طرح کا تھا۔ جوائس کی آنکھیں اُس وقت بہت خراب ہوچُکی تھیں اور وہ اپنا ناول روزانہ بیکٹ کو املا کرواتا تھا۔ 

ایک دن املا کے دَوران کسی نے دروازے پر دستک دی۔ بیکٹ اپنے انہماک کے باعث دستک نہ سُن سکا، لیکن جواب میں جب جوائس نے اسی عام املائی لہجے میں کہا ’’آجائو‘‘ (Come in) تو بیکٹ نے گمان کیا کہ یہ بھی املا کا حصّہ ہے اور اس نے وہ فقرہ یعنی’’ Come in‘‘بھی ویسے ہی لکھ دیا۔ بعد میں جب جوائس نے املا کیے ہوئے اوراق سُنے اور بیکٹ نے’’ Come in‘‘ پڑھا، تو جوائس نے چونک کر پوچھا ’’یہ کیا ہے؟‘‘ بیکٹ نے جواب دیا’’ آپ ہی نے لکھوایا تھا۔‘‘ جوائس کچھ دیر تک چپ چاپ غور کرتا رہا، پھر بولا ’’ٹھیک ہے، اسے رہنے دو۔‘‘ لکھنے کو تو یہ ایک معمولی واقعہ ہے کہ ایک لفظ بے خودی میں لکھا گیا، لیکن اس کی تہہ میں کتنی معنویت اور کتنی گہرائی چُھپی ہوئی ہے، اس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی بادشاہ کو ایک اچھے منشی کی ضرورت پیش آئی، تو اُس نے اپنی پڑوسی ریاست سے ایک منشی کو بلوانے کے لیے نمونے کے طور پر اُس کی تحریر منگوائی۔ 

اتفاق سے جس منشی کو بلوایا گیا، وہ اِتنا تنگ دست تھا کہ نمونے کی تحریر میں بھی لکھ گیا کہ’’ گھر میں آٹا نہیں ہے۔‘‘ تحریر لکھتے وقت اُس کے گھر میں فاقہ تھا اور بچّے اُس سے یہی کہہ رہے تھے۔ یہ تحریر پڑھ کر بادشاہ نے لکھا’’ جب تمہارا منشی ہی خوش حال نہیں ہے، تو تمہاری رعایا پر کیا گزرتی ہوگی؟‘‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ایک جملہ’’آٹا نہیں ہے‘‘ اور لفظ’’ Come in‘‘ آگے چل کر ایک تاریخ بن گیا، اسی طرح شمس الرحمٰن فاروقی کے اداریوں، سوانحی گوشوں اور خطوط کے جوابات میں لکھے گئے الفاظ مستند تسلیم کیے گئے۔ آج فاروقی صاحب ہمارے بیچ نہیں رہے، مگر وہ ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ اُن کے جانے سے اردو دنیا میں جو خلا پیدا ہوا ہے، اسے پُر کیا جانا ممکن نہیں۔

تازہ ترین