• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈھکے چھپے یا صاف لفظوں میں پاک فوج پر ملکی سیاست میں مداخلت کے جو الزامات لگائے جا رہے ہیں، منگل کو فوجی ترجمان کی جانب سے اُن کی سختی سے اور مدلل تردید کے بعد عوام کے ذہنوں میں موجود ابہامات دور ہو جانا چاہئیں۔ اِس طرح کے الزامات تو ماضی کی حکومتوں کے ادوار میں بھی اپوزیشن کی طرف سے لگائے جاتے رہے ہیں مگر موجودہ حکومت کے خلاف اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے اُنہیں سیاسی بیانیے کے طور پر اپنا لیا ہے۔ ملاکنڈ میں جلسۂ عام سے خطاب کے دوران پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ملک میں غیراعلانیہ مارشل لا ہے اِس لئے عمران خان کی حکومت کو چلتا کرنے کے لئے قوم اسلام آباد کی بجائے راولپنڈی کا رخ کرے۔ فوج قابلِ احترام اور ریاست کے لئے ناگزیر ہے لیکن اُسے وضاحت کرنا ہوگی کہ وہ غیرجانبدار ہے۔ اگر وہ عمران خان کے حق میں فریق ہے تو احتجاج ہمارا حق بنتا ہے۔ پی ڈی ایم نے جس لانگ مارچ کا اعلان کررکھا ہے مولانا فضل الرحمٰن راولپنڈی (یعنی جی ایچ کیو) کی طرف اسی کے رخ کی بات کررہے تھے۔ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے منگل کو راولپنڈی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کے لانگ مارچ کی کوئی وجہ نہیں بنتی مگر وہ آگئے تو ہم اُنہیں چائے پانی پلائیں گے اور اچھی طرح دیکھ بھال کریں گے۔ اُن کی پریس کانفرنس کا اصل موضوع تو ملکی سلامتی کو لاحق خطرات، بھارت کے جارحانہ عزائم اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے کئے جانے والے اقدامات تھے مگر میڈیا کے سوالات پر اُنہوں نے ملکی سیاست میں فوج کے کردار کے بارے میں ہونے والی چہ مے گوئیوں پر بھی اظہار خیال کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاک فوج سیاسی معاملات میں مداخلت کرنا چاہتی ہے، نہ ہی اسے اُن میں گھسیٹنا چاہئے۔ حالیہ سیاسی بیان بازی پر فوج میں تشویش ضرور پائی جاتی ہے لیکن ہمارا مورال بلند ہے اور ہم اپنے کام پر فوکس کئے رکھیں گے۔ فوج پر ان الزامات میں کوئی وزن نہیں۔ پاک فوج حکومت کا ذیلی ادارہ ہے اور اِس کے متعلق جو باتیں کی گئیں حکومت نے اُن کا بہتر انداز میں جواب دیا ہے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاک فوج کا کسی سے بیک ڈور رابطہ ہے نہ رابطے کرارہی ہے، وہ سیاست سے دور رہنا چاہتی ہے۔ الیکشن کے وقت فوج سے مدد مانگی گئی جو کی گئی۔ فوج کے ترجمان کا سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا بیان اپوزیشن کے لئے اطمینان کا باعث ہونا چاہئے کیونکہ فوج کا اصل آئینی کردار ملکی سرحدوں کی حفاظت ہے اور وہ یہ فرض پوری مستعدی سے انجام دے رہی ہے۔ یہ سچ ہے کہ ماضی میں بعض طابع آزماؤں نے اقتدار کے لئے فوج کے ادارے کا غلط استعمال کیا لیکن اس میں انہیں جمہوری سوچ سے عاری جاہ پرست سیاستدانوں کی اشیر باد بھی حاصل رہی۔ عوام جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں اور جمہوریت پر یقین رکھنے والی پارٹیوں کو پسند کرتے ہیں۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی کہا ہے کہ اپوزیشن نے کبھی فوج کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنے کی بات نہیں کی۔ ہم سب کچھ آئین اور جمہوری اقدار کے مطابق کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ بھی کہا ہے کہ عسکری قیادت عملاً فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو سیاست سے دور کرے اور آئین کے مطابق اپنا کام کرے۔ اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ تمام اداروں کو اپنی اپنی آئینی حدود میں اپنا کام کرنا چاہئے مگر تشکیک کی جو فضا ملک میں پیدا ہوچکی ہے اسے دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جامع قومی ڈائیلاگ کا اہتمام کیا جائے جس میں مقننہ سمیت تمام اداروں کی رائے سے متفقہ قومی لائحہ عمل مرتب کیا جائے تاکہ مستقبل میں اُن کے درمیان کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو۔ ریاست کے تمام ستون اپنی اپنی جگہ یک سوئی اور مستقل مزاجی سے اپنے فرائض انجام دیتے رہیں۔

تازہ ترین