ڈاکٹر محمد اعظم رضا تبسم
دنیا کےنامور لیڈرز کی صف اول میںقائدِ اعظم محمدعلی جناح بھی شامل تھے۔ ایک مرتبہ ہندو صحافی نے لارڈ ماونٹ بیٹن سے سوال کیا کہ آپ کی پسندیدہ شخصیت کون ہے؟ اس نے کہا ،’’مسلمانوں کا جناح ،کیونکہ وہ منافق نہیں ہے۔‘‘
یہ اُس وقت کی بات ہے جب بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ قیام پاکستان کے بعدگورنر جنرل کی حیثیت سے ملک کا انتظام چلا رہے تھے،ایک دن برطانیہ کے سفیر نے کہا کہ’’ برطانیہ کے بادشاہ کا بھائی آج پاکستان کے ائیرپورٹ پہنچ رہا ہے، آپ انہیں لینے ائرپورٹ چلے جایئے گا ۔‘‘
قائداعظم نے انتہائی دبدبے سے فرمایا،’’آپ کےبادشاہ کے بھائی کو ائرپورٹ لینے چلا جاؤں گا لیکن ایک شرط پر کہ کل جب میرا بھائی برطانیہ جائے گا تو آپ کا بادشاہ جارج اس کو لینے ائرپورٹ آئے گا ‘‘، یہ سن کر سفیر اپنا سا منہ لے کررہ گیا ۔
ایک مرتبہ قائداعظم کے ملازم نے وزیٹنگ کارڈ آپ کے سامنے رکھا اور کہا، صاحب یہ شخص آپ سے ملنا چاہتا ہے۔‘‘ اس کارڈ پر ان کے بھائی کا نام لکھا تھا اور ساتھ میں تعارف میں لکھا تھا برادر آف محمد علی جناح‘‘ ، یہ پڑھتے ہی قائداعظم نے کارڈ پھاڑ کر ناراضی کا اظہار کیا اورکہاکہ ’’اس کو کہہ دوکہ اس طرح کبھی میرے نام کا حوالہ استعمال نہ کرے ‘‘۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ بھی ہے کہ قائداعظم کے دفتر کا فرنیچر آرڈر کیا گیا جو کے سینتیس روپے تھا ، آپ کو خزانے سے ادائیگی کے لیے دستخط کرنے کے لیے بل پیش کیا گیا ۔
آپ نے بل دیکھا تو پوچھا،’’ اس میں یہ سات روپے کی فالتو کرسی کیوں آرڈر کی ہے۔‘‘ سیکرٹری نے کہا، صاحب یہ فاطمہ جناح صاحبہ کے لیے ہے دفتر میںان کے بیٹھنے کے لیے منگوائی ہے ‘‘۔ قائداعظم نے سات روپے کاٹ کر تیس روپے کا بل منظور کرتے ہوئے کہا،’’ کرسی کے سات روپے فاطمہ سے جا کر وصول کرو ، قومی خزانہ سےنہیں دیاجائے گا‘‘۔
میرے پیارے نوجوانوں ! یہ واقعات پڑھ کر آپ کو کچھ سمجھ آیا۔ہم کیوں پوری دنیا میں ڈی ویلیو ہو رہے ہیں کیونکہ ہم نے ،ہمارے حکمرانوں نے اپنی قیمت خود گرائی ہے۔ پہلے واقعہ میں دیکھیں سبق کیا ہے مومن کسی غیر کے آگے نہیں جھکتا شان استغنا اسے کہتے ہیں۔اپنی قدر کروانا اسے کہتے ہیں۔ دوسرے واقعہ میں بھائی کو سبق دیا کہ اپنا نام خود پیدا کرو ،سہارے مت تلاش کرو چاہے بھائی ہی کیوںنا ہو۔
تیسرے واقعہ میں اپنے منصب، اپنےعہدے کی پاسداری کا سبق ملتا ہے اور یہ سبق فقط کسی حکمران کے لیے نہیں بلکہ ہم سب کے لیے ہے ۔آج ہم میں سے ہر آدمی فارن برینڈ اور غیر ملکی لباس کو عزت دیتا ہے۔ صاحب کہہ کر سلیوٹ کرتا ہے۔ ظاہری لباس سے متاثر ہو رہا ہے ۔ہم سب غلام ہیں ریا کاری کے اور یاد رکھنا ریاکاری انسان کا ظاہر سنوارتی ہے حقیقت میں اس کی تعمیر کا عمل رک جاتا ہے۔آج ہمارے بہت سے نوجوان انگریز گوروں( یورپ) سے متاثر نظر آتے ہیں۔
کہتے ہیں،بھائی گورا اصول کا بڑا پکا ہے، گورا سچ بولتا ہے، دھوکہ نہیںدیتا ،یورپ ایماندار ہے .ارے بھائی کیوں خواہ مخواہ متاثر ہو رہے ہو۔متاثر وہ ہوتا ہے جس کے اپنے پاس کچھ نہیں ہوتا اور جس کے پاس ہوتا ہے وہ متاثر نہیں ہوتا، البتہ خوبیوں کو تسلیم کرتا ہے۔ اب یہ بتاؤ ،کیا اسلام نے چودہ سو سال پہلے یہ تمام اصول نہیں بتائے تھے۔ کیا بتایا تھا یا د کرو ذہن پر زور ڈالو ۔ یہی بتایا تھا نہ کہ جھوٹ نہیں بولو،وعدے کی پاسداری کرو،گالی نہیں دینا،دھوکہ نہیں دینا، بھلائی کے کام میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا، مومن خیر کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے. ..ایسی بہت سی احادیث ہیں،جن میں جب جب اصول بتائے ہیں ساتھ مومن کا لفظ استعمال ہوا ہے، ارے مومن ہی تو ہے، دی بیسٹ پرسن ۔ہمارے اسلاف کیوں کامیاب تھے کیونکہ وہ دی بیسٹ تھے ۔قائد اعظم کی زندگی سے مثالیں اس لیے بتائیں کہ لوگ انہیں دنیا کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔
قائد اعظم مومن تھے .اسی لیے دی بیسٹ تھے۔ اللہ نے انہیں ایسا وطن بنانے کا ہنر، سلیقہ، طریقہ انداز بتایا ،جس وطن کی بنیاد خالص لا الہ الا اللہ پر تھی ۔ آپ ڈاکٹر ہو تو دی بیسٹ ڈاکٹر بنوبہت عمدہ اخلاق رکھو مریض کو تسلی دو۔ آپ معلم ہو تو ایسے پڑھاؤ ،سکھاؤ کہ آپ کاپڑھایا سکھایا دنیا میں قابلِ فخر ہو۔ نبی پاکؐ اسوہ ٔحسنہ کا رول ماڈل تھے۔ اسلام ،جب جراثیم کا پتہ نہیں تھا، تب بھی کہتا تھا ہاتھ دھو کے کھاؤ ،جب ٹوت برش نہیں تھا ،تب بھی مسواک تھی۔اپنی قیمت خود بڑھاؤ،تا کہ یورپ اور گورے کے چنگل سے آزاد ہوسکو۔
جس سے کچھ عقل کے اندھے واقف نہیں کہ دی بیسٹ لوگ کسی پر ظلم نہیں کرتے بچوں پر ڈراون اٹیک نہیں کرتے ،کشمیر ،فلسطین برما ،عراق، شام، چیچنیا ،بوسنیا کے معاملات پر امن کے ٹھیکے دار جان بوجھ کر منہ بند نہیں کر لیتے ، جس کی سچائی ایمانداری کی مثالیں دیتے ہو.اگر ایماندار ہوتے تو آج بہت سے فیصلے ہو چکے ہوتے دنیا میں امن ہوتا۔
میرے نوجوانوں اپنی آنکھیں کھولو ، ہمارے پاس وہ سب کچھ ہے جس کی لوگ طلب کرتے ہیں ، سب سے بڑی چیز آزادی ، اس کی قدر کرو اور اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں آگے بڑھو۔دی بیسٹ بنو۔