محمد ریاض
کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے اچھے استاد کی بہترین تربیت کار فرما ہوتی ہے ۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں اچھے استاد میسر آجاتے ہیں ۔ بچے سے لے کر ایک کامیاب فرد تک سارا سفر اساتذہ کا مرہون منت ہوتا ہے ۔ وہ ایک طالب علم میں جس طرح کا رنگ بھرنا چاہیں بھر سکتے ہیں۔اساتذہ د قوموں کی تعمیر میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں ایک قابل معلم ہی مستقبل کی نسل کا سرپرست، قوم کا معمار اور مرکزی شخصیت کا حامل ہوتا ہے، جس پر نسل انسانی کا انحصار ہوتا ہے اور اسی وجہ سے جیسا معلم ویسا شاگرد ہوتا ہے۔
روبہ زوال انسانی سماج کی آخری امید کی کرن اساتذہ ہیں۔ وقت اور حالات کے ساتھ بہت سی چیزیں بدل جانے کے باوجود طلبا اور اساتذہ کا نہ تو رشتہ بدلا ہے اور نہ ہی طلبا کی زندگی میں اساتذہ کا اہم کردار ادا کرنے کی حقیقت بدلی ہے، ایسے میں جو استاد اپنے طالب علم کی جتنی فکر کرے ، ان کے جتنا کام آئے اور ان کی رہنمائی کا فریضہ جتنے بہتر طور پر ادا کرتےہیں،حقیقت میں وہ طلباءکو اتنا ہی زیادہ متاثر کرتےہیں، جس کے نتیجے میں طالبِ علم کے دل میں استاد اور شاگرد کا تعلق اسکول اور کالج تک محدود نہیں رہ جاتابلکہ دائمی بن جاتا ہے۔وہ صرف طلبا کو کتابی اسباق پڑھا کر د ست بردار نہیں ہو جاتےبلکہ طلبا کی ہمہ جہت ترقی کا ضامن بھی ہوتے ہیں۔
اگر ہم بہترین نوعیت کی قوم بننا چاہتے ہیں تو معلم کو بھی بہترین نوعیت کا ہونا چاہیے۔علم کا خزانہ اسی پر کھلتا ہے جو دل و جان سے اس کی تلاش میں رہتا ہے۔ایک طالب علم اور استاد کا رشتہ ایک دوست اور راز دار کا بھی ہونا چاہیے، تاکہ اُن میں بلا جھجھک علم کا تبادلہ ہوتا رہے۔
ایک طالب علم کی ذمہ داری اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس نے جو علم اپنے اساتذہ سے حاصل کیا ہے اسے دنیا میں پھیلانا ہے اور ان کے بتائے گئے راستوں کو دنیا کے سامنے واضح کرنا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ استاد کا مقام کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ کسی بھی قوم کامستقبل اس قوم کے استاد کے ہاتھ میں ہو تا ہے، استاد ہی قوم کو تربیت دیتا ہے، وہی اسے بتاتا ہے کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے۔ گویا کسی بھی قو م کو کوئی حکومت تربیت نہیںدیتی بلکہ ایک استاد تربیت دیتا ہے۔
استاد کی عظمت میں ،عظمت ہے زمانے کی
تعظیم ملے اس کو ،آداب سکھانے کی
دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ ، جن کی گردن ہمہ وقت اکڑی رہتی تھی لیکن، اپنے اساتذہ کے سامنے اُن کا سر جھکا رہتا تھا۔’’ سکندرِ اعظم ‘‘ نے آدھی سے زیادہ دنیا اپنی تلوار کی دھار پر فتح کی ،’’ ارسطو ‘‘جیسے معلم اول کا شاگرد تھا۔ یہ مجلسِ یونان ہو، یا ایوانِ قیصرو کسریٰ، یہ خلافتِ بنو عباس ہو یا محمود غزنوی کا دربار، یہ اندلس کا الحمراء ہو یا ہندوستان کا شہنشاہ’’ جلال الدین محمد اکبر‘‘… تاریخ شاہد ہے کہ استاد کی عظمت سے اس قدربلند پایہ اولولعزم حکمران بھی واقف تھے۔
آج اگر اہلِ مغرب ہم سے اس قدر آگے نکل گئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ استاد کا اصل مقام جانتے ہیں۔ اگر پبلک ٹرانسپورٹ میں کوئی سیٹ خالی نہ ہو، پھر بھی لوگ قوم کے استاد کے لیے سیٹ خالی کردیتے ہیں۔ عدالت میں استاد کی گواہی کو زیادہ مستند سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ میں رواج ہے کہ جب کوئی طالب علم کامیابی حاصل کرتا ہے تو وہ اپنے استاد کو سلیوٹ کرتا ہے ، بالکل ویسے جیسے ایک سپاہی اپنے افسر کو سلیوٹ کرتاہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب ہندوستان کی انگریز حکومت نے حضرت علامہ اقبال ؒ کو سر کا خطاب دینے کا ارادہ کیا تو اقبال ؒ کو وقت کے گورنر نے اپنےدفتر آنے کی دعوت دی۔ اقبال نےیہ خطاب لینے سے انکار کردیا۔ جس پر گورنر بے حد حیران ہوا۔ وجہ دریافت کی تو اقبالؒ نے فرمایا:’’میں صرف ایک صورت میں یہ خطاب وصول کرسکتا ہوں کہ پہلے میرے استاد مولوی میرحسنؒ کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دیا جائے‘‘۔
یہ سن کر انگریز گورنر نے کہا:’’ڈاکٹر صاحب! آپ کو تو’’سر‘‘کا خطاب اس لیے دیا جا رہا ہے کہ آپ بہت بڑے شاعر ہیں۔ آپ نے کتابیں تخلیق کی ہیں، بڑے بڑے مقالات تخلیق کیے ہیں۔ بڑے بڑے نظریات تخلیق کیے ہیں۔ لیکن آپ کے استاد مولوی میر حسن نے کیا تخلیق کیا ہے…؟‘‘
یہ سن کر حضرت علامہ اقبالؒ نے جواب دیا کہ،’’مولوی میر حسن نے اقبال تخلیق کیا ہے‘‘۔
یہ سن کر انگریز گورنر نے مولوی میر حسن کو’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دینے کا فیصلہ کرلیا۔ اس پر مستزاد علامہ صاحب نے مزید کہا کہ:’’میرے استاد مولوی میر حسن کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دینے کے لیے یہاں سرکاری دفاتر میں نہ بلایا جائے، بلکہ اْن کو یہ خطاب دینے کے لیے سرکاری تقریب کو سیالکوٹ میں منعقد کیا جائے ، یعنی میرے استاد کے گھر‘‘۔اور پھر ایسا ہی کیا گیا۔
الغرض استاد کا مقام اور عظمت ہر شئے سے بلند ہے۔ استاد کی توجہ اور تربیت کے بغیر کوئی بھی کام یابی کے سفر پر گام زن نہیں ہوسکتا۔ اس لیے جوطلباء جس قدر اساتذہ کا ادب کر یںگےا وہ اتنی جلد کام یابی کی شاہراہ پر گام زن ہوںگے۔اساتذہ ہی قوم کا معمار ہوتے ہیںان ہی کے دم سے ہم، تم صاحب دستار ہوتے ہیں۔
استاد بادشاہ تو نہیں ہوتا لیکن وہ بادشاہ گَر ضرور ہوتا ہے۔ استاد کی عزت کیوں نہ کی جائے استاد کی محنت کی وجہ سے انسان بلندیوں تک پہنچتا ہے اور حکمرانی کی گدی پر جلوہ نشین ہوتا ہے استاد ہی کی محنت کی وجہ سے وہ آسمانوں کی سیر کرتا ہے۔ بغیر استاد کے انسان اس اندھے کی مانند ہے جو بغیر سہارے کے سفر میں نکل جاتا ہے۔سو پیارے طالب علموں اپنے اساتذہ کا احترام کریں