• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

مصباح الحق ناقص پلاننگ کی وجہ سے مسلسل تنقید کی زد میں

پاکستانی کرکٹ ٹیم نیوزی لینڈ میں اپنی کارکردگی سے خوشیاں دینے میں ناکام رہی،تاہم ٹیم کے مثبت پہلووں میں ایک پہلو فواد عالم کی کارکردگی تھی۔فواد عالم کو مسلسل محنت اور صبر کا پھل مل گیا۔کراچی کے ایک بیٹسمین نے سنچری بناکر ناقدین کو خاموش کردیا اور اپنے انتخاب کو درست ثابت کر دکھایا۔فواد عالم کی اننگز کا نمایاں پہلو ان کا صبر تھا۔ جو صبر انھوں نے پچھلے دس سال سلیکشن کمیٹی کے دروازے پر دکھایا، ویسا ہی صبر انھوں نے ویگنر، ساؤتھی، بولٹ اور جیمیسن کے مشکل سوالوں کے جواب میں دکھایا۔ٹیسٹ کرکٹ نام ہی صبر آزمائی کا ہے اور فواد عالم اس صبر کے امتحان میں پورا اُترے۔ 

وکٹ کیسی بھی ہو، اس کیوی اٹیک کے سامنے ساڑھے چھ گھنٹے سے زائد مزاحمت کرنا ہی محیرالعقول کارنامہ ہے۔ پچھلے دو تین سالوں میں یہ مزاحمت پاکستانی ٹیسٹ ٹیم سے عنقا ہوتی جا رہی تھی۔پاکستان ٹیسٹ ہار گیا لیکن فواد عالم کی سنچری نے ان کی اننگز کو سال کی بہترین پاکستانی اننگز قرار دے دیا۔مجموعی طور پر نیوزی لینڈ میں پاکستان ٹیم کی کارکردگی حد سے زیادہ مایوس کن رہی۔کرکٹ ٹیم گیم ہے لیکن مصباح الحق ناقص پلاننگ کی وجہ سے مسلسل تنقید کی زد میں ہیں۔مصباح کی کوچنگ میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے 10 ٹیسٹ میچز کھیلے، جہاں 2 میں اسے کامیابی اور 5 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 

ایک روزہ انٹرنیشنل فارمیٹ میں پاکستان نے 5 میچز کھیلے، جن میں سے چار میں اسے کامیابی ملی۔ اس دوران پاکستان نے 17 ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل میچز کھیلے، جس میں سے 7 میں اسے کامیابی اور 8 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔یہ کارکردگی کسی بھی تسلی بخش نہیں ہے۔یہ بڑی پرانی بحث ہے کہ کیا ایک کامیاب کھلاڑی اور کپتان کامیاب کوچ ثابت ہو سکتا ہے یا نہیں۔ فٹبال کی دنیا میں اس کی سب سے بڑی مثال شہرہ آفاق فٹبالر ڈیاگو میراڈونا کی دی جاتی ہے، جبکہ کرکٹ میں بھی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔دوسری جانب کئی ایسے نام بھی موجود ہیں جنھوں نے بین الاقوامی کرکٹ یا تو بالکل نہیں کھیلی یا پھر برائے نام کھیلی لیکن کوچ کی حیثیت سے وہ بے حد کامیاب رہے ان میں گیری اسٹیڈ،مکی آرتھر، مائیک ہیسن، گراہم فورڈ، جان بکانن، ٹریور بیلس اور ڈنکن فلیچر کے نام قابل ذکر ہیں۔

نیوزی لینڈ سے شکست کھانے کے بعد اب پاکستان کی نظریں جنوبی افریقا کے خلاف ہوم سیریز پر مرکوز ہیں جہاں پہلی بار بابر اعظم کپتانی کریں گے۔اس سیریز کی سب سے بڑھ کر اہمیت یہ ہے کہ 14سال بعد جنوبی افریقا کی ٹیم پاکستان آرہی ہے۔جنوبی افریقاکے خلاف ہوم سیریز کے علاوہ سال 2021 میں پاکستان کو جنوبی افریقا، زمبابوے، انگلینڈ، ویسٹ انڈیزاور افغانستان کے خلاف بیرون ملک سیریز کھیلنی ہے جبکہ پاکستان کو نیوزی لینڈ، انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے خلاف ہوم سیریز بھی اسی سال کھیلنی ہے۔ رواں سال پاکستان کو ایشیاکپ ٹی ٹونٹی اور آئی سی سی ٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں بھی شرکت کرنی ہے۔اس لئے پاکستان ٹیم کے لئے نیا سال آسان نہیں ہوگا۔پاکستان سپر لیگ کی تیاریاں بھی جاری ہیں اور مسلسل دوسرے سال پاکستان اس بڑے ٹورنامنٹ کی میزبانی کرے گا۔انگلینڈ خواتین کرکٹ ٹیم اکتوبر میں پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کرے گی۔

مہمان ٹیم کراچی میں دو ٹی ٹونٹی اور تین ایک روزہ انٹرنیشنل میچز کھیلے گی۔ویمنز ورلڈ چیمپئن ٹیم دورے میں شامل دوٹی ٹونٹی میچز 14 اور 15 اکتوبر کو کھیلے گی۔ یہ دونوں ٹی ٹونٹی میچز اسی روز کھیلے جائیں گے کہ جب انگلینڈ کی مردوںکی ٹیم پاکستان کے خلاف ٹی ٹونٹی میچز کھیل رہی ہوگی۔مسلسل دو روز نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں کھیلے جانے والے یہ کُل چاروں میچز( 2 مینز ٹیموں کے اور 2 ویمنز ٹیموں کے)ڈبل ہیڈر کی بنیاد پر ہوں گے۔پاکستان اور انگلینڈ کی خواتین کرکٹ ٹیموں کے مابین تین ایک روزہ انٹرنیشنل میچز 18، 20 اور 22 اکتوبر کو کھیلے جائیں گے۔انگلینڈ مینز کرکٹ ٹیم نے آخری مرتبہ سال 2005 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹو وسیم خان نے کہا کہ خواتین کرکٹ کی عالمی چیمپئن انگلینڈ ویمنز ٹیم کی پہلی مرتبہ پاکستان آمد دنیا بھر خصوصاََ ہمارے خطے میں خواتین کرکٹ کےفروغ کےلیے ایک بڑا اور اہم اعلان ہے۔غیر ملکی ٹیموں کو مرحلہ وار پاکستان لانے اور ان کے اعتماد کو بحال کرنے کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو جاتا ہے۔وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ساوتھ ایشن گیمز کرانے کا اعلان بھی خوش آئندہے۔میرے ملک کے گراونڈ آباد ہورہے ہیں اس سے اچھی خبر کوئی اور نہیں ہوسکتی۔

تازہ ترین
تازہ ترین