• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان جنوبی ایشیا کا وہ خوش قسمت ترین ملک ہے، جسے قدرت نے حسین وادیوں، اونچے کُہساروں، سمندر، بندرگاہوں، ریگستانوں اور وسیع و عریض میدانی خطّوں سے نوازا ہے، لیکن یہ بھی المیہ ہے کہ ہمارا ملک بدترین ماحولیاتی آلودگی کا شکار ہے، جس سے نہ صرف معیشت بلکہ شہریوں کی صحت بھی بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ عالمی ادارئہ صحت کے مطابق، پاکستان کا شمار ایشیا کے آلودہ ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ اس پر طرّہ یہ کہ ملک میں ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے بہت کم لوگ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ 

بلاشبہ، انسان نے جب اپنے آرام و سکون کی خاطر قدرت کے خُوب صُورت نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال شروع کیا، تو فطرت نے ردّعمل ظاہر کیا اور ماحولیاتی آلودگی نے اپنا اثر دکھانا شروع کردیا۔ ایک بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان اپنے جغرافیائی محلِ و قوع اور آبادی میں اضافے کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی سے متاثر ہونے والے پہلے 10 ممالک میں شامل ہے۔ اس کی بڑھتی ہوئی آبادی انتہائی تشویش ناک ہے۔ 

گزشتہ 40 سال کا جائزہ لیا جائے، تو آبادی میں لگ بھگ 4 گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے جہاں ایک طرف شہر اس قدر بے ہنگم طریقے سے بڑھے کہ اپنی حدود و قیود سے نکل گئے، تو دوسری طرف کارخانے، بھٹّے اور ٹریفک کی بھرمارنے بھی ماحول پراگندہ کردیا۔ تین دہائی قبل تک شہروں میں موٹر گاڑیوں کی تعداد انتہائی کم تھی۔ تاہم، آج ہردوسرے گھر میں کئی کئی گاڑیاں ہیں، جو نہ صرف ٹریفک اور ماحولیاتی شور میں اضافے کا سبب ہیں، بلکہ ان سے نکلنے والا دھواں ماحول کو بے پناہ آلودہ بھی کررہا ہے۔ 

پھر گاڑیوں میں نصب ائرکنڈیشنرز سے نکلنے والی گرم ہوا اور فضا میں زہریلی گیسوں کی مقدار میں تیزی سے اضافہ بھی آلودگی کا سبب بن رہا ہے۔ خصوصاً ملک کے بڑے صنعتی شہروں کی فضا کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، ڈائی آکسن، ہائیڈروجن پرآکسائیڈ، پولی کلوری نیٹڈ ہائیڈرو کاربن، ایلڈی ہائیڈ، کیٹون، بینزین کے کمپاؤنڈز، اَیروسول اورفری ریڈیکلز جیسی کثافتوں سے بھری پڑی ہے، جو بنی نوع انسان کے علاوہ کرئہ ارض پر موجود ہر قسم کے جان داروں کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہے۔ 

پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان، خصوصاً پنجاب کی فضا میں اسموگ کی آمیزش کا مسئلہ تو بہت ہی سنگین ہوگیا ہے اور ان علاقوں میں رہائش پذیر افراد سانس اور جِلدی امراض کا شکار تو ہورہے ہیں، ان کے پھیپھڑے بھی اس آلودگی سے بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ نیز، ملک کے دیگر شہروں، خصوصاً کراچی، لاہور، گوجرانوالہ، گجرات، سیال کوٹ، فیصل آباد، ملتان، کوئٹہ اور پشاور میں بھی فضائی آلودگی کی مقدار بین الاقوامی معیار سے کہیں زیادہ ہے۔

دوسری طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو کھپانے کے لیے دھرتی کے سینے سے ہَرے بَھرے درختوں کا قتلِ عام بھی جاری و ساری ہے۔ حالاں کہ درخت کائنات کے پھیپھڑوں کی مانند ہیں، جو مہلک کثافتوں کو اپنے پتّوں میں جذب کرکے جان داروں کی بقا کے لیے آکسیجن مہیّا کرتے ہیں۔ درختوں کے پتّے، پھول اور پھل غذا کے ساتھ مختلف امراض کے علاج میں استعمال ہوتے ہیں، لیکن سخت افسوس ناک امر ہے کہ ملک میں جنگلات 5فی صد سے بھی کم ہونے کے باوجود جگہ جگہ ہَرے بَھرے درخت بے دردی سے کاٹے جارہے ہیں۔ حالاں کہ جنگلات زمین کا حُسن ہی نہیں، بلکہ یہ انواع و اقسام کے پرندوں اور حشرات کا مَسکن بھی ہیں۔ 

پھر فضائی آلودگی سے بھی فصلوں، درختوں پر انتہائی بُرے اثرات مُرتب ہورہے ہیں۔ اسی سبب پیداوار میں 20سے 40فی صد تک کمی واقع ہوجاتی ہے۔آج صورتِ حال یہ ہے کہ زرعی اور قابلِ کاشت زمینوں کا خاتمہ کرکے وہاں دھڑا دھڑ رہائشی کالونیاں یا عمارتیں تعمیرکی جارہی ہیں۔ اس پر حکومت کو سخت اور فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ ملتان شہر رسیلے، خوشبو دار آموں کی وجہ سے مشہور ہے، مگر بدقسمتی سے شہر کے اردگرد بننے والی کالونیوں کی وجہ سے ہزاروں ایکٹر رقبے پر آموں کے باغات کا بھی قتلِ عام کیا جارہا ہے۔ علاوہ ازیں، شہری آبادیوں کے قریب قائم اینٹوں کے بھٹّے بھی ہوائی آلودگی میں اضافے کا باعث ہیں، خصوصاً اُن سے نکلنے والی ہائیڈروجن فلورائیڈ گیس انسانی زندگی کے لیے مہلک ثابت ہورہی ہے۔

پاکستان کے بڑے شہروں پر نظر ڈالیں، تو جا بہ جا گندگی، غلاظت، کوڑے کرکٹ کے اَنبار نظر آتے ہیں۔ پولیتھین بیگز سیوریج لائن بلاک کرنے کا سبب بنتے ہیں، جس کی وجہ سے گٹروں کا پانی سڑکوں پر پھیل جاتا ہے اور اُن پر بیٹھنے والی مکّھیاں اور دیگر حشرات بیماریاں پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔ پھر ملک میں ماحولیاتی آلودگی کا ایک بڑا سبب کارخانے بھی ہیں، جن پر کوئی محکمہ ایکشن نہیں لیتا۔ 

یاد رہے، پاکستان کے صنعتی شہروں میں ٹیکسٹائل، چمڑے کھاد، سیمنٹ، غذائی مصنوعات، تیل، گھی، کاغذ، گتّے، رنگ و روغن، پولیسٹر، فائبر اور انڈسٹریل کیمیکلز وغیرہ کے لاتعداد کارخانے موجود ہیں، لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان میں سے اکثر میں ماحولیات کے تجویز کردہ اُصولوں پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ 

کارخانہ دارمافیا کے طاقت ور ہونے کی وجہ سے محکمۂ ماحولیات بھی ان کے خلاف کارروائی سے گریز کرتا ہے۔ نیز،شہروں کے گردونواح میں دھاتیں (لوہا، تانبا وغیرہ) پگھلانے کی لاتعداد بھٹّیاں اور کارخانے بھی قائم ہیں، جن سے خطرناک گیسز ہوا میں شامل ہوجاتی ہیں، جب کہ اکثر چھوٹی صنعتوں کو چلانے کے لیے ٹائرز، پلاسٹک کی اشیاء یا استعمال شدہ انجن آئل جلایا جاتا ہے، جس سے انتہائی مہلک گیس ڈائی آکسن اور پولی کلوری نیٹڈ ہائیڈرو کاربنز پیدا ہوتے ہیں، جو سانس کی شدید بیماریوں اور جِلد کی اَلرجی کا باعث بنتے ہیں۔ 

اسی طرح تانبے، چاندی کے حصول کے لیے بڑی تعداد میں خراب اور ناقابلِ استعمال کمپیوٹرز کے ہارڈ ویئرز، کِٹس اورالیکٹرانکس کا دیگر سامان جلا کر بھی خاصا منافع کمایا جاتا ہے، مگر اس عمل سے بھی زہریلی گیسز پیدا ہوتی ہیں، جو ماحول کو برُی طرح آلودہ کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ نواحی علاقوں میں شہروں کا سیوریج کا پانی سبزیاں اُگانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اس سے سبزیاں اچھی نَشوونُما پاتی ہیں، مگر ان میں زہریلے اورمُضرِصحت اجزاء جذب ہوجانے کی وجہ سے ان کے استعمال سے معدے، جگر اور گُردوں کی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں۔ 

جب کہ فصلوں، سبزیوں اور پھلوں پر زرعی ادویہ کے استعمال سے جہاں نقصان دہ حشرات ختم ہوتے ہیں، وہیں اِن فصلوں کو فائدہ پہنچانے والے حشرات کا بھی خاتمہ ہوجاتا ہے۔ مثلاً شہد کی مکّھیاں ان زہریلی ادویہ کے اسپرے سے مرجاتی ہیں۔ لہٰذا ضرر رساں کیڑوں کو تلف کرنے لیے کسانوں کو ”حیاتیاتی پھندے“ استعمال کرنے کی ہدایت کی جانی چاہیے۔

شہروں میں اسپتالوں کا خون آلودہ فُضلہ، کٹے پھٹے انسانی اعضاء، استعمال شدہ سرنجز اور طبّی سامان محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کا کوئی انتظام نظر نہیں آتا۔ پلاسٹک کا استعمال شدہ طبّی سامان دوبارہ استعمال میں لاکر شاپنگ بیگز اور کھانے کے برتن وغیرہ بھی بنائے جاتے ہیں، جو صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔ اسی طرح چمڑا رنگنے اور کیمیکل بنانے کے کارخانے اکثر آلودہ پانی تالابوں اور نہروں میں ڈال دیتے ہیں، جس سے مچھلیاں اور دیگر آبی حیات ختم ہوتی جارہی ہے۔ پھرفیکٹریز کا آلودہ پانی زمین کے نیچے گرائونڈ واٹر میں شامل ہوکر بھی بیماریاں پیدا کرتا ہے۔ 

اسی طرح برتن بنانے والی فیکٹریز، چمڑا رنگنے کی انڈسٹریز اور بیٹریاں بنانے والی انڈسٹریز سے لیڈ، کرومیم، کیڈمیم کا اخراج کینسر جیسی خطرناک بیماری پیدا کررہا ہے۔ قصور شہر اس طرح کی آلودگی کے اثرات کی واضح مثال ہے۔ کراچی کا سمندر بھی تیزی سے آلودہ ہوتا جارہا ہے۔ اس کے ساحلوں پر گندگی، پلاسٹک اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر بدترین انسانی رویّوں ہی کی مثال ہیں۔ کئی دفعہ سمندری جہازوں سے رِسنے والا خام تیل بھی آبی مخلوقات کے خاتمے کا باعث بنتا ہے۔ اکثر ترقی یافتہ ممالک بھی سمندر میں انتہائی مہلک تاب کاری مادّہ پھینک دیتے ہیں، جس کی وجہ سے انواع و اقسام کے جان داروں کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔

دوسری جانب ہوش رُباٹریفک، کارخانے اور تعمیراتی کام کی وجہ سے شور کی آلودگی نے شہریوں کاجینا دوبھر کردیا ہے۔ یہ آلودگی انسانوں میں بلڈپریشر، سماعت کی خرابی اور کام کی رفتار سُست کرنے کا سبب بنتی ہے۔ سڑکوں، گلیوں میں جابجا بجتے ہارن ماحولیاتی آلودگی سے ہماری ناواقفیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، حالاں کہ تہذیب یافتہ معاشروں میں شور کی آلودگی کو انتہائی برا سمجھا جاتا ہے، وہاں اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کے قریب ہارن بجانے کی قطعاً ممانعت ہے۔

پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے وسیع پیمانے پر اثرات سے زرعی پیداوار میں کمی، پانی کی عدم دست یابی، ساحلی کٹاؤ اور آب و ہوا کی شدّت میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اگرچہ عوام النّاس کی اکثریت ملک میں بدترین ماحولیاتی آلودگی سے بے خبر ہے۔ تاہم، حکومت اس صورتِ حال سے آگاہ ہے۔ تب ہی موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کم کرنے کے لیے مختلف قسم کی پالیسیز مرتّب کی جارہی ہیں۔ جیسا کہ ماحول پر گاڑیوں کے کاربن اخراج کے اثرات کو کم کرنے کے لیے قومی الیکٹرک وہیکل پالیسی کی منظوری دی گئی ہے۔ ملک کے20 شہروں میں ایک ’’کلین گرین اسٹیٹس انڈیکس‘‘ کا آغاز کیا گیا ہے۔ 

پلاسٹک کے شاپنگ بیگز پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔ چوں کہ پاکستان کی جی ڈی پی میں جنگلات کا حصّہ صرف 0.4فی صد تک ہے، تو حکومت نے جنگلات کا رقبہ بڑھانے کے لیے ”دس ارب درخت سونامی‘‘ پروگرام شروع کیا ہے۔ جسے چھتری پراجیکٹ کا نام دیا گیا ہے۔ اس پروگرام کا مقصد گلوبل وارمنگ کے منفی اثرات کا مقابلہ کرنا ہے، جس میں آزاد کشمیر اور گلگت، بلتستان سمیت تمام صوبوں کو شامل کیا گیا ہے اور اس منصوبے میں عوام النّاس کی شمولیت یقینی بنانے کے لیے ملک گیر ’’پلانٹ فار پاکستان ڈے‘‘ مہم بھی شروع کی گئی ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان کے شمالی حصّے میں اوسط درجۂ حرارت میں تبدیلی کی شرح جنوبی پاکستان کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ ماہرین نے ایک نئی رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہمالیہ اور ہندوکش میں واقع گلیشیئرز کو لاحق خطرات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اگر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج پر قابو نہ پایا گیا، تو ان گلیشیئرز کا دو تہائی حصّہ ختم ہوسکتا ہے، جب کہ زراعت اور خوراک پر بھی آب و ہوا کی تبدیلی کا منفی اثر ہوسکتا ہے۔ یاد رہے، ہماری زراعت، جو معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔ 

نہ صرف خوراک کی دست یابی میں خلل آیا ہے، خوراک تک رسائی بھی کم ہوئی ہے۔نیز، غذائی اجناس کا معیار بھی متاثر ہوا ہے۔ رواں مالی سال کے دوران، چولستان گیم ریزرو، ضلع رحیم یار خان اور بہاول پور کا ایک سروے بھی کیا گیا، جس کا مقصد جنگلی حیات کاریکارڈ اور ان کی رہائش گاہوں کو لاحق خطرات کی نشان دہی کرنا تھا۔بہرحال، پاکستان، موسمیاتی تبدیلیوں سے مستقل طور پر متاثرہ ممالک میں شامل ہےاور ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے کام کرنے والے عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ ان موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے خطرات کو کم کرنا بہت بڑا چیلنج ہے۔ 

نیز، کرئہ ارض کو ماحولیاتی آلودگی سے پاک کرنے کے لیے مربوط کوششیں ازحد ضروری ہیں تاکہ آئندہ نسلوں کو ناقابلِ تلافی تباہی سے بچایا جاسکے۔تب ہی آج دنیا بھر کے پالیسی ساز، سائنس دان، ڈیولپرزاور انجینئرز اس پیچیدہ صورتِ حال کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے انفارمیشن سسٹم ٹیکنالوجی کے ذریعے آبادی کو منظّم اور تعلیم یافتہ بنانے کی بات کررہے ہیں۔ اگرچہ حکومتیں ان مسائل سے نمٹنے کے لیے بھرپور کوششیں کررہی ہیں۔ تاہم،عوام کو بھی چاہیےکہ وہ ان کوششوں میں حکومتوں کا ساتھ دیں کہ ماحولیاتی آلودگی کسی ایک کا نہیں، ہم سب کا مسئلہ ہے۔

(مضمون نگار، بہاءالدین زکریا یونی ورسٹی (ملتان) میں شعبہ ماحولیاتی سائنس کےبانی سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں)

تازہ ترین