ہر سال 4فروری کو دنیا بھر میں یونین برائے بین الاقوامی کینسر کنٹرول (یو آئی سی سی) کے زیر اہتمام کینسر سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد انفرادی اور اجتماعی طورپر کینسر جیسے موذی مرض کے اسباب کو جاننا اور اس کے سدباب کے لیے آواز بلند کرنا ہے۔ اس موقع پر لوگوں کو کینسر کی مختلف اقسام، وجوہات، ابتدائی علامات، علاج معالجہ اور اس سے بچاؤ کے متعلق معلومات اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے حوالے سے سیمینارز، واکس اور مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
اس ضمن میں یو آئی سی سی کی جانب سے تین سال (2019ءتا2021ء) کے لیے #IAmAndIWill کے نام سے تھیم پیش کی گئی تھی۔ اس کے مطابق آپ جو کوئی بھی ہوں، آپ کے پاس خود کو، اپنے پیاروں اور دنیا کو اس مہلک اور جان لیوا مرض سے بچانے کا ایک موقع ہے۔ لہٰذا معاشرے سے کینسر کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور اس کے سدباب کے لیے کی جانےوالی سرگرمیوں کو تیز کریں۔ معاشرے کے ہر فرد پر یہ ذمہ دار عائد ہوتی ہے کہ وہ اس حوالے سے آگاہی حاصل کرے اور اپنے اردگرد لوگوں کو اس خطرناک مرض سے بچاؤ کے طریقے اپنانے پر زور دے۔
ماہرین کا کہنا ہےکہ منشیات کااستعمال، سگریٹ نوشی، زہریلا دھواں، زرعی ادویات، فضائی اور آبی آلودگی وغیرہ کینسرکا سبب بنتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کےمطابق کینسر سب سے تیزی سےپھیلنے والا مرض بن چکا ہے، دنیا بھرمیں ہونے والی اموات میں سے ہرآٹھویں کی وجہ کینسر ہے اوریہ تعداد ایڈز، ٹی بی اورملیریا سے ہونے والی مشترکہ اموات سے بھی زیادہ ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں کینسر کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے اور خدشہ ظاہر کیا جارہا کہ 2030ء تک یہ تعداد دگنی ہوجائے گی۔ کینسر جیسے موذی مرض کے ہاتھوں دنیا میں ہر سال لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق غریب اور ترقی پذیر ممالک میں 70فیصد اموات کینسر کے باعث ہوتی ہیں۔
کینسر سے بچائوکے لیے کم آمدنی والے ممالک کے پاس30فیصدسے بھی کم وسائل ہیں۔ ورلڈ کینسر ریسرچ فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 20ہزار سے زائد افراد الکوحل استعمال کرنے کی وجہ سے کینسر کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ کینسر پر تحقیق، علاج و معالجہ اور سہولتوں کی فراہمی کے سلسلے میں دنیا بھر میں سالانہ کروڑوں ڈالر خرچ کیے جاتے ہیں۔
امریکی محققین نےکینسر کی31اقسام کا تجزیہ کیا جن میں سے9اقسام کو موروثی کہا جاسکتا ہے، جو والدین سے منتقل ہوتی ہیں۔ کینسر سے متعلق تحقیق کرنے والی بین الاقوامی ایجنسی IARCکے اندازے کےمطابق دنیا میں 5 میں سے 1شخص کو کینسر ہوتا ہے جبکہ 8 میں سے 1 مَرد اور 11میں سے ایک خاتون اس مرض کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ نئے تخمینے بتاتے ہیں کہ گزشتہ پانچ سال میں 5کروڑ سے زائد افراد کینسر کی تشخیص کے بعد سے اس مرض کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔
عالمی سطح پر عمر رسیدہ افراد کی تعداد اور سماجی و معاشی خطرات اس مرض میں اضافے کی وجہ بن رہے ہیں۔ 2020ء کی بات کریں تو دنیا بھر میں خواتین سب سے زیادہ چھاتی کے کینسر اور مَرد سب سے زیادہ پھیپھڑوں اور پروسٹیٹ کینسر کا شکار ہوئے۔ IARCکے مطابق پاکستان میں گزشتہ سال ایک لاکھ 78ہزار 388نئے افراد کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئے جبکہ اس مہلک مرض کے باعث ایک لاکھ 17ہزار149افراد (60,789مرد اور 56,366خواتین) اپنی جان کی بازی ہارگئے۔ ملک میں مجموعی طور پر چھاتی، منہ اور پھیپھڑوں کا کینسر سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ 2020ء میں خواتین کو چھاتی کا کینسر اور مَردوں میں منہ کا کینسر سب سے زیادہ ہوا۔
کینسر کے متعلق آگاہی، درست معلومات اور علم کے ذریعے کینسر کی ابتدائی علامات پہچاننے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس جان لیوا بیماری کے حوالے سے پائے جانے والے خوف اور غلط فہمیوں کو درست معلومات کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے تمام ممالک میں قومی سطح پر رائج کیے جانے والے صحت کے پروگراموں کو مؤثر اور لوگوںکی دسترس کے قابل بنانا ضروری ہے۔ یہ بات خوش آئند اور حوصلہ افزا ہے کہ کینسر کے مریضوں میں سے ایک تہائی افراد کو بچایا جاسکتاہے۔ اس بات سے ہمیں تقویت ملتی ہے کہ ہم کینسر کے انسداد اور اس کےخطرے کو کم کرنے کے لیے اپنی سی سعی کرتے رہے ہیں۔
کینسر کے علاج پر اُٹھنے والے اخراجات کو برداشت کرنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں، حکومت اور رفاہی اداروں کو چاہیے کہ وہ اس ضمن میں لوگوں کی مالی معاونت کریں تاکہ وہ اپنے پیاروں کا بروقت اور بہتر طریقے سے علاج کرواکے ان کی زندگیاں بچاسکیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ امیر اور غریب کی تفریق کے بغیر کینسر کی بروقت تشخیص اور علاج ہر ایک کے لیے دستیاب ہونا چاہیے۔ کینسر کے مریضوں کی مناسب دیکھ بھال اور بروقت علاج اس موذی مرض سے چھٹکارا پانے کا سب سے بہترین طریقہ ثابت ہوتا ہے۔ کینسر کے مریض کی مناسب دیکھ بھال میں عزتِ نفس، مدد، شفقت اور انسیت بھی شامل ہے کیونکہ جذباتی نقطہ نگاہ سے مریض کے ساتھ عمدہ سلوک کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔
ایک اہم اور بنیادی مسئلہ اس شعبے میں مستند ڈاکٹرز کی قلت بھی ہے، جسے دور کرنے کے لیے میڈیکل کے طلبا کی اس کے متعلق رہنمائی کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہر ڈاکٹرز تک فوری رسائی کینسر کے ایسے مریضوں کو بچاسکتی ہے، جو ابتدائی اسٹیج پر مستند ڈاکٹر تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے اس مہلک مرض کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔
عالمی ادارے، حکومتیں، صحت عامہ کی ایجنسیاں، سول سوسائٹی اور نجی کمپنیوں کو کینسر کے حوالے سے آگاہی دینے اور اس سے متاثرہ مریضوں سے تعاون کرنے کا شعور اُجاگر کرنے کے حوالے سے مشترکہ کوششیں کرنی چاہئیں، اسی طرح عالمی سطح پرکینسر جیسے موذی مرض کو شکست دینے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔