ماسبق دنیا پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس سے پہلے حیاتِ انسانی میں گزرنے والے کم و بیش سارے ہی بڑے واقعات، مثلاً قحط، وبا، آفاتِ سماوی و ارضی اور جنگ وغیرہ سبھی کسی نہ کسی عنوان ادب کا موضوع بنتے رہے ہیں۔ اس لیے کہ ہر وہ موقع جب انسان اور اس کا سماج ابتلا اور آزمائش کے تجربے سے گزرتے ہیں، وہ ادیب شاعر کو سوچنے اور بولنے کی تحریک دیتا ہے۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے ہر تجربے کے زندگی پر اثرات اور انسانی شعور و احساس میں اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے تغیرات اور ان کے نتیجے میں ظاہر ہونے والی دنیا بالواسطہ یا بلاواسطہ ادب کا موضوع بنتی رہی ہے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ کووڈ۔ ۱۹ کے زیرِ اثر آئی ہوئی دنیا، اس کا انسان، اور اس کے سماجی، ثقافتی منظرنامے میں دراڑیں ڈالنے والے حالات اور سب سے بڑھ کر اس دور کے انسان کی داخلی دنیا اور اس کے احساس کا نقشہ بھی کسی نہ کسی عنوان بہرحال ہمارے ادب کا موضوع بنے ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کہ اس باب میں ہمارے ادیب اور شاعر کے سوچنے کی نہج کیا ہوگی؟ کون سے سوالوں پر اس کی توجہ مرتکز ہوگی، کن چیزوں کو اس کا ذہن فوکس کرے گا، اس کا شعور کس طریقے سے اس منظرنامے کا احاطہ کرے گا؟ اس تجربے میں اسے کن چیزوں اور کن سوالوں سے زیادہ دل چسپی ہوگی؟ کیا وہ اس سارے مسئلے کو ایک ارضی آفت کے طور پر دیکھے گا یا پھر ایک حیاتیاتی/ کیمیائی جنگ کا نقشہ اس کے سامنے ہوگا؟ کیا وہ اسے تقدیرِ انسانی سے بھی جوڑ کر دیکھے گا یا محض سائنس کے تجربات کی لپیٹ میں آئے ہوئے زمانے کی کروٹ سمجھے گا، اور اسی زاویے سے اظہار کرے گا۔
ان میں کسی سوال کا فوری اور براہِ راست جواب فی الوقت نہیں دیا جاسکتا۔ اس لیے کہ ویسے تو یوں ہی تخلیقی اظہار کا معاملہ پیچیدہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اسے کسی طے شدہ فارمولے یا پہلے سے متعینہ ضابطے کے مطابق تخلیق کرنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ پھر یہ بھی ہے کہ ایک وقت کے بڑے اذہان اپنے اپنے انداز سے ایسے کسی بڑے تجربے کو سمجھنے اور تخلیقی سطح پر بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ، بعض اوقات شعور و احساس کا رخ ایک ہی زمانے کے مختلف تخلیقی تجربات میں اس طرح سامنے آتا ہی، جیسے ایک دوسرے کو کاٹتی ہوئی اور کبھی متوازی مگر متضاد سمتوں میں جاتی ہوئی لکیریں۔ دوسرے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کووڈ۔۱۹ انسانی زندگی کا ایک ایسا مختلف اور گمبھیر تجربہ ہے کہ اس کی تفہیم کے لیے پہلے کے تجربات سے کوئی روشنی حاصل نہیں کی جاسکتی۔ فی الجملہ کہا جاسکتا ہے کہ اس باب میں سرِ دست قیاس آرائی ممکن نہیں۔
اب تک کی صورتِ حال دیکھتے ہوئے، البتہ یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ حالات کی اس کروٹ نے انسانی احساس میں ایک ایسی لرزش بہرحال پیدا کی ہے، جو اس کے تخلیقی تجربے کو مہمیز کردیتی ہے۔ اس کے شعور کو جھنجھوڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اپنی اس دنیا، اس کے عصری حقائق، سیاسی احوال اور معاشی دوڑ کے بارے میں اس کے اندر کچھ نئے اور سنجیدہ سوالات بھی پیدا کرتی ہے۔ کووڈ۔۱۹ کے اس منظرنامے میں انسان کی حیثیت اور اس کے مستقبل کا سوال سب سے بڑا اور بے حد تشویش ناک ہو کر ابھرتا ہے۔
اس وقت تک کرونا وائرس کے بارے میں جو کچھ بتایا گیا ہے، طبی حوالے سے جو معلومات فراہم کی گئی ہیں اور قید و بند، وحشت و خوف اور اندیشوں کے جن تجربات سے اب تک یہ دنیا گزری ہے، اس کا کچھ تخلیقی ردِعمل بھی آنے لگا ہے۔ اس کی داد سوشل میڈیا کو دی جانی چاہیے کہ اپنی سو خرافات کے ساتھ ساتھ اس نے ان ادبی اظہارات کو بھی فوکس کیا ہے اور انھیں ہم تک پہنچایا ہے۔
زندگی کی بے ثباتی اور ارزانی کا احساس ادب کا ایک دیرینہ موضوع ہے، لیکن اس وقت زندگی کی بے ثباتی کے احساس میں اس کی لایعنیت بھی بہ درجۂ اتم شامل ہوگئی ہے۔ ایک ایسی ایبسرڈٹی کا احساس کہ یہ سب کیا ہے، یہ کیسے حالات ہیں کہ جن میں انسان کو جو کہ اشرف المخلوقات ہے، مچھر اور مکھی کے برابر کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ موسم کی ایک کروٹ جس طرح مچھر اور مکھی کی ایک بڑی تعداد کو آن کی آن میں صفحۂ ہستی سے مٹا کر رکھ دیتی ہے، اسی طرح انسان بھی کرونا وائرس کی اس لہر کے ہاتھوں ایسی ہی ایک بے بسی اور بے حیثیتی کا تماشا بنا ہوا ہے۔
اس زمانے میں جو تخلیقات سامنے آئی ہیں ان میں انسانی تقدیر کے ساتھ مذہبی رجحان کا بھی ایک زاویہ ابھرتا ہے، لیکن اس کا اسلوب منفی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے یہاں تخلیق کار کو مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے کا سوال درپیش تھا، یا اسے اپنی رِندی کے باوصف یہ گمان تھا کہ وہ دامن نچوڑ دے تو فرشتے وضو کریں۔ ان دونوں رویوں میں چاہے زیریں سطح پر ہی سہی، لیکن انسان کے لیے ایک اثباتی قدر کا احساس ملتا ہے۔ اس کے برعکس انسان کی حیثیت اور اس کی وقعت کا احساس اس دور میں نظر نہیں آتا۔ البتہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آج کا تخلیق کار تقدیر اور خدا دونوں سے مغائرت کے رویے کا اظہار کر رہا ہے۔ اس کے یہاں مذہبی رویہ دراصل ایک طنز اور استہزا کا لہجہ لیے ہوئے ہے۔
شاعر کا یہ سوال کہ سینی ٹائزر جیب میں رکھ کر اور منہ پر ماسک لگا کر چرچ میں جانا اور اپنے جیسے اس وبا کی لپیٹ میں آئے ہوئے دوسرے ضرورت مندوں سے محفوظ فاصلہ اختیار کرتے ہوئے بیٹھ کر خدا سے لو لگانی اور اس سے مدد مانگی چاہیے، یعنی اس کی طرف متوجہ ہونا چاہیے یا پھر اپنی حفاظت اور اس پینڈامک کے خاتمے کی ذمہ داری خدا پر چھوڑنے کے بجائے اپنے توانا کاندھوں پر لینی چاہیے۔ اسی طرح ایک اور شاعر اس الجھن میں ہے کہ وہ اپنے گھر میں حفاظتی تدابیر اختیار کیے ہوئے ہے، لیکن بھگوان کرونا وائرس کی تیز ہوائوں کے سامنے نہتا اور غیر محفوظ ہے۔
اسے سینی ٹائزر کون لا کر دے گا۔ اسی طرح ایک سوال ہمارے یہاں ایک شاعر کو بھی درپیش ہے، وہ یہ کہ سینی ٹائزر لگے ہاتھوں کو اگر وہ دعا کے لیے اٹھائے تو کیا اس کی دعا قبول ہوگی۔ غرضے کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس نوع کا تخلیقی تجربہ مذہبی حوالے کے لیے جو انداز اختیار کرتا ہے، اس میں تقدیر کی ناگزیریت یا اختیارِ خداوندی کی بابت استہزا اور تمسخر کا رنگ واضح ہے۔
اس کے علاوہ دوسرے تخلیقی تجربے جو ہمارے سامنے آتے ہیں، ان میں انسان کی گہری اور ہول ناک تنہائی کا احساس نمایاں ہے یا پھر زندگی کی بے قدری اور انسان کی بے دست و پائی کی کیفیت کا اظہار ملتا ہے۔ تاہم اس ضمن میں غور طلب پہلو یہ ہے کہ ہمیں ان تخلیقات میں تنہائی کے تو کئی ایک شیڈز ملتے ہیں، یعنی یہ تنہائی کہیں وجودی ہے، کہیں ذہنی ہے اور کہیں اس میں روحانی عنصر بھی نظر آتا ہے۔ اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ تنہائی کا یہ تجربہ وجودیت کے بعد جدیدیت کے فکری نشانات سے کچھ آگے بڑھتا نظر آتا ہے، لیکن خود زندگی سے متعلق جو کیفیات بیان کی گئی ہیں، ان میں کسی نئے یا گہرے نکتے کا سراغ نہیں ملتا۔ اس موضوع کا انداز و آہنگ نہ صرف وہی پرانا ہے، بلکہ اس کا حالیہ ٹریٹمنٹ بھی بالکل سطحی سا ہے۔
یہ بات قدرے غور طلب ہے کہ اس پوری صورتِ حال نے ابھی تک اس عہد کے انسانی احساس کو اس انداز سے نہیں چھوا ہے کہ اس میں کہیں عشق کا لہجہ ابھرتا سنائی دے۔ تو کیا ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ دمشق کے قحط کے بعد یاروں نے ہمیشہ کے لیے عشق کو فراموش کرکے رکھ دیا ہے؟ یا پھر اس عہد کا انسان جن معاملات کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے، جس طرح کے تجربات اس کے روزمرہ کا حصہ ہیں اور اس کے جینے کا جو پیٹرن اب بن چکا ہے، اس میں عشق جیسے بڑے، ہمہ گیر اور گہرے تجربے کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر ایک اور سوال بھی غور طلب ہے، وہ یہ کہ اس گہرے جذبے نے جس طرح اب تک انسانی تہذیب کی تشکیل اور اس کے ثقافتی رنگوں کی تزئین میں کردار ادا کیا ہے، کیا امروز و فردا کی تہذیب اور سماج اس سے یکسر عاری ہوگا اور کیا اس جذبے کے بغیر ادب، ثقافت اور تہذیب میں انسان کے احساس کی تہ در تہ صورت باقی رہ سکے گی؟
اگر اس سوال کا جواب اثبات میں ہے تو یہ بڑی اندوہ ناک بات ہے۔ اس لیے کہ صرف اسی ایک جذبے نے حیاتِ انسانی میں معنویت کے جو نقوش ابھارے ہیں اور تہذیب و ادب اور فنون کو جس طرح رنگ و آہنگ سے آراستہ کیا ہے، وہ کچھ اسی کا حصہ ہے۔ انسانی زندگی میں اس جذبے کا غیر مؤثر ہوجانا یا پھر انسانی احساس کے لینڈ اسکیپ سے اس کا معدوم ہوجانا، محص ادب و فن ہی کے لیے نہیں، انسانی زندگی، تہذیب اور سماج کے لیے بھی بے حد تشویش ناک ہے۔
کووڈ۔۱۹ کے جس تجربے سے اس وقت دنیا دوچار ہے، تقویمِ ماہ و سال کے اعتبار سے اس کی عمر کم و بیش گیارہ ماہ سے اوپر ہے۔ گویا، کچھ ہی دنوں میں یہ تجربہ سال بھر کا ہو جائے گا۔ گزشتہ تین چار ماہ کے عرصے میں اس کے بارے میں فیک اور فراڈ ہونے کے جو بیانات تھے، وہ اب آنے بند ہوگئے ہیں۔ اس لیے کہ اب ہر ملک اور سماج نے کووڈ۔ ۱۹ کا عملی مشاہدہ جو ایک حد تک تجربے کا درجہ رکھتا ہے، بخوبی کر لیا ہے۔ دنیا کے بیشتر لوگوں نے اپنے گھر میں کسی عزیز کو نہیں تو پڑوس میں یا قریبی اطراف میں کسی نہ کسی کو کرونا وائرس کے زیرِ اثر زندگی ہارتے ہوئے دیکھ لیا ہے۔
لہٰذا، اب اس کے فراڈ ہونے کا خیال باطل ہوچکا ہے۔ اب رہ گئیں دوسری باتیں، یعنی یہ کہ اسے حیاتیاتی جنگ کہا جائے، اس کے ذریعے معاشی اہداف کا سوال، سپر پاور کے کھیل کی رساکشی، اس وائرس کی ویکسین کے ذریعے دنیا کی آبادی کو اپنے کنٹرول میں لینے والے خیالات وغیرہ، ان کا معاملہ ابھی کسی حتمی جواب کی طرف جاتا ہوا نظر نہیں آتا۔
اصل میں سرِ دست یہ وہی صورتِ حال ہے جو صحرا میں رقص کرتے بگولوں کے وقت ہوتی ہے۔ ایسے میں سنگ ہاے میل نصب کرنے سے زیادہ اہمیت سمتِ سفر کے ادراک کی ہوتی ہے۔ اس وقت اگر انسانی سماج صرف اپنے بنیادی انسانی رویوں ہی کو بچانے اور کو باقی رکھنے ہی میں کامیاب رہے تو یہ بھی کوئی چھوٹی کامیابی نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ اس پینڈامک کی ابھرتی ہوئی دوسری لہر بتا رہی ہے کہ یہ ابتلا صرف جانوں کا نذرانہ قبول کرکے ٹلتی نظر نہیں آتی۔ یہ تو ہمارے احساس کے درپے ہے۔ اسے تغیر کے ایک ایسے تجربے سے گزارنے پر مصر ہے کہ جس کے بعد انسانی معاشرے کے خدوخال ہی تبدیل ہوسکتے ہیں۔
آج ہم جسے کرونا کا جبر سمجھ رہے ہیں اور اس کی وجہ سے جس سماجی یا وجودی فاصلے پر مجبور ہیں، وہ حالات کی تبدیلی یا معمول کی طرف واپسی کے بعد بھی جاری رہ سکتا ہے، یعنی اب ایک مستقل طرزِ حیات کا درجہ اختیار کرسکتا ہے۔ اسی طرح خوشی غمی کے موقعے پر ایک دوسرے سے ہماری یہ دوری ہمیں مستقلاً ایک دوسرے سے بے نیاز بھی کرسکتی ہے۔ ان حقائق کی طرف سنجیدگی سے توجہ دینے کے ساتھ ساتھ غور طلب مسئلہ یہ بھی ہے کہ سماج کی نفی اور زندگی کی لایعنیت کے اس منظرنامے میں آگے چل کر مادی زندگی اور وجودی حفاظت کا سوال انسان کے اندر وجود سے برتر کسی شے کا کوئی تصور باقی بھی رہنے دے گا یا نہیں۔ اگر نہیں تو پھر کیا انسان دوبارہ غاروں اور جنگلوں کی طرزِ حیات کی طرف واپس چلا جائے گا؟ کیا ایک ابدی تنہائی اور بے مصرف اور لایعنی زندگی اس کی تقدیر ہوجائے گی۔
یہ سب باتیں اس لیے بھی غور طلب ہیں کہ ایک طرف سائنس کی ہوش ربا ترقی کا منظر ہے، اور دوسری طرف انسان کے اندر اور باہر دونوں جانب مہیب سناٹے کی تیزی سے بڑھتی ہوئی سرحدیں— ان سرحدوں کی وسعت میں صرف احتیاط کے تقاضے ہی کام نہیں کررہے، بلکہ اس وقت تعصب اور تشدد کا بھی بڑا اہم کردار ہے۔ چناںچہ اب سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اس صورتِ حال میں ایک ادیب، شاعر، تخلیق کار، فن کار کیا کر سکتا ہے؟ یہ سوال بظاہر بہت سادہ سا ہے اور پرانا، بلکہ کسی قدر روایتی سا بھی معلوم ہوتا ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ اس وقت انسانی معاشرے میں اعصاب کو منجمد کرتی ہوئی اس صورتِ حال میں اگر کوئی کردار مؤثر ہوسکتا ہے تو وہ ادیب، شاعر اور فن کار کا کردار ہی ہوسکتا ہے۔
اس وقت دنیا میں احساس اور روح کی موت کا تجربہ انسانوں کو درپیش ہے۔ اس عہد کے انسان کی وجودی زندگی کی بقا کی قیمت اسی طرح متعین ہوتی نظر آتی ہے۔ اس صورتِ حال کے خلاف اگر کوئی مزاحم ہوسکتا ہے تو وہ یہی کردار ہے۔ بشرطے کہ وہ خود اس حقیقت کا شعور رکھتا ہو کہ پورا انسان درحقیقت وجود اور روح کے تال میل سے بننے والی اکائی ہے۔ اگر یہ اکائی ٹوٹ جائے تو پھر وجود باقی رہنے کے باوجود انسان باقی نہیں رہ سکتا۔