جنوبی افریقا کو ٹیسٹ سیریز میں تاریخی شکست دینے کے بعد میں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی کو مبارک باد کا پیغام بھیجا تو جواب میں احسان مانی نے جذباتی انداز میں طویل پیغام بھیجا۔اس سے لگ رہا تھا کہ وہ بہت خوش ہیں،خوش کیوں نہ ہوتے اس کامیابی کے پیچھے ان کی ڈہائی سال کی محنت شامل ہے جس کے ثمرات اب ملنا شروع ہوگئے۔اس عرصے میں احسان مانی اور ان کی ٹیم کو تنقید بھی برداشت کرنا پڑی ۔ان کی سب سے بڑی کامیابی فیلڈ سے باہر تھی۔
غیر ملکی ٹیموں کی پاکستان آمد اور پاکستانی گراونڈز کو مکمل طور پر آباد کرنا ان کی اور ان کی انتظامیٹیم کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ گذشتہ ڈہائی سال سے پاکستانی کرکٹ اب پاکستانی گراونڈ میں واپس آچکی ہے۔ہر سال متحدہ عرب امارات میں کرکٹ پر کروڑوں روپے اضافی خرچ ہوتے تھےوہ رقم اب کھیل اور کھلاڑی پر خرچ ہورہی ہے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم نے جنوبی افریقا کو ٹیسٹ سیریز میں جس انداز میں دونوںمیچوں میں شکست دی اس انداز کی جیت سے پاکستان کرکٹ کو بڑا فائدہ ہوگا۔
نوجوان یقینی طور پر اس فتح سے متاثر ہوکر اس کھیل کی جانب آئیں گےمستقبل میں پاکستان کو حسن علی جیسے مزید ہیروز ملیں گے۔کاش ان فتوحات کو دیکھنے کے لئے تماشائی بھی گراونڈ میں ہوتےمصباح الحق کے حوالے سے خدشات بھی ختم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ہیڈکوچ کو تین سال کا وقت دے کر احتساب کیا جائے تو بہتر ہے بار بار تبدیلی سے مسلہ حل نہیں ہوتا ہے۔29 سال میں صرف ایک بار ایسا ہوا ہےکہ پاکستان جنوبی افریقامیں کوئی سیریز جیتنے میں کامیاب ہوا۔ وہ بھی کوئی ٹیسٹ سیریز نہیں تھی بلکہ تین میچز کی ون ڈے سیریز تھی جو پاکستان مصباح الحق کی قیادت میں 2-1 سے جیتا۔ جنوبی افریقی سرزمین پہ کوئی ٹیسٹ سیریز جیتنا ابھی تک پاکستان کے لیے خواب ہی ہے۔
حتیٰ کہ اپنی ہوم کنڈیشنز میں بھی پاکستان صرف ایک بار جنوبی افریقاکو زیر کر پایا اور وہ بھی کوئی اٹھارہ سال پہلے جب دو ٹیسٹ میچز کی سیریز میں اسے ایک صفر سے کامیابی حاصل ہوئی تھی۔کوئنٹن ڈی کوک کی یہ ٹیم شاید جنوبی افریقی تاریخ کی کمزور ترین ٹیسٹ ٹیم تھی مگر یہ امر بھی ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے کہ بابر اعظم کی قیادت میں پاکستانی ٹیم بھی بہت تجربہ کار نہیں تھی۔ لیکن پھر بھی جنوبی افریقا جیسی بڑی ٹیم کو کلین سویپ کر کے عالمی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پہ آ گئی اور یہ 2017 کے بعد اب تک پاکستان کی بہترین رینکنگ ہے۔
ٹیسٹ سیریز کے پہلے میچ میں بھی پاکستان کی فتح اسپنرز کی ہی مرہونِ منت رہی اور توقع یہی تھی کہ راولپنڈی ٹیسٹ میں بھی وکٹ کو جس قدرڈرائی کر ڈالا گیا تھا، ا سپنرز ہی بساط پلٹیں گے مگر ایسا نہ ہوا۔کوئی بھی میزبان ٹیم کبھی اپنا ہوم ایڈاوانٹیج اٹھا کر کسی کی جھولی میں نہیں ڈال دیتی۔ پاکستان کی بھی کوشش یہی تھی کہ راولپنڈی کی تیز وکٹ کہیں مہمان پیسرز کے حق میں نہ جھک جائے، اسی لیے میچ سے دو روز پہلے وکٹ کو خوب دھوپ لگوا کر خشک کرنے کی کوشش کی گئی۔ تیسرے دن شام کے سیشن کے سوا یہ وکٹ کبھیبھی اسپنرز کی جنت ثابت نہ ہوئی۔ پنڈی ٹیسٹ دوسری اننگز میں بھی حسن علی کے ہمراہ شاہین آفریدی میلہ لوٹ گئے۔
پاکستان کے لیے فاسٹ بولرز کی ایسی فارم نہایت حوصلہ افزا ہے۔جنوبی افریقا کے فاسٹ بولر اس پچ سے مدد نہ لے سکےلیکن حسن علی نے دس وکٹیں لیں اور شاہین نے دوسری اننگز میں چار وکٹیں لے کر جنوبی افریقا جیسی بڑی ٹیم کو شکست دے دی۔دوسرے کرکٹ ٹیسٹ میچ میں جنوبی افریقہ کو 95 رنز سے شکست دے کر ٹیسٹ سیریز دو صفر سے جیت لی ہے۔مہمان کی ٹیم 370 رنز کے ہدف کے تعاقب میں دوسرے سیشن میں 274 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی۔جنوبی افریقاکی آخری سات وکٹیں سکور میں صرف 33 رنز کا اضافے کے دوران گریں۔
دوسرے ٹیسٹ میں دس وکٹیں حاصل کر کے حسن علی نے ایک بار پھر شائقین کے دلوں میں جگہ بنالی ہے لیکن ساتھ ہی ان کا ایک نیا انداز بھی سب کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔بابر اعظم نے کپتان کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوالیا۔امید ہے کہ اس جیت کو آگے بڑھایا جائے گا اور یہاں سے ریورس گیئر لگانے کے بجائے آگے جانے کی ضرورت ہے ملک سے باہر بھی ایسی فتوحات کو شدت سے انتظار رہے گا۔