برصغیر کاخطہ تقسیم ہوا، بھارت اور پاکستان کی صورت میں دو ممالک عالمی نقشے پر وجود میں آئے۔ دونوں ملکوں سے ہجرت ہوئی اور دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کی مٹی کو یادکرنے والے بے شمار ہوئے، انہی میںسے ایک نام’’خوشونت سنگھ‘‘ کا تھا، جنہوں نے پاکستان کے شہر خوشاب کے نزدیک، واقع گائوں’’ہڈالی‘‘ میں آنکھ کھولی، ابتدائی تعلیم بھی اسی گائوں کے اسکول میں حاصل کی، مزید تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور سے حاصل کرنے کے بعد، اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ چلے گئے۔ پوری دنیا کا سفر کیا، لیکن دل اپنے آبائی گائوں میں ہی اٹکا رہا، تمام عمر اپنی جنم بھومی کو یاد کرتے رہے۔
1915 میں پیدا ہونے والے خوشونت سنگھ نے زندگی کی 99 بہاریں دیکھیں۔ 2014 میں ان کی رحلت ہوئی۔ اپنے کیرئیر کی ابتدا وکالت سے کی، لاہور میں پریکٹس کرتے رہے، پھر تقسیم ہند کے بعد دہلی کوچ کرگئے۔ کچھ عرصہ ہندوستانی وزارت خارجہ سے وابستہ رہے اور کئی ممالک میں ان کی تقرری بھی ہوئی، لیکن جلد ہی اس سرکاری نوکری کو خیر باد کہہ دیا، اپنی پوری توجہ صحافت اور تصنیف و تالیف کی طرف کر دی۔ لکھنے کے لیے انگریزی زبان کو وسیلہ بنایا، لیکن اردو اور پنجابی زبانوں سے ان کی محبت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی۔ وہ بھارت کے مشہور جریدے’’السٹریٹڈ ویکلی‘‘ اور مشہور بھارتی اخبار’’ہندوستان ٹائمز‘‘ کے مدیر بھی رہے۔ بطور کالم نویس، ان کی تحریریں، بھارت سمیت کئی ممالک کے انگریزی اخبارات میں باقاعدگی سے شائع ہوتی رہیں۔
وہ ہندوستان میں ہمیشہ پاکستان کے دوست تصور کیے جاتے رہے۔ سقوط ڈھاکہ کے موقع پر ہندوستان سے پاکستانی فوجیوں کی رہائی میں اہم کردار اداکرنے والوں میں سے ایک خوشونت سنگھ بھی تھے۔ پاکستانی کی معروف شخصیات میں مشہور وکیل منظور قادر اور ممتاز شاعر فیض احمد فیض سے بہت قربت تھی۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کی شاعری سے بھی قلبی لگائو تھا، ان کے کلام’’شکوہ جواب شکوہ‘‘ کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا۔
پاکستانی گائوں ہڈالی کے ہائی اسکول، ریلوے اسٹیشن، اس گائوں کے رہائشیوں سمیت وہاں کی ہر یاد کو سینے سے لگا کر زندگی گزارتے رہے۔ ایک بار اپنے اس گائوں کودیکھنے آئے، یہ وہ موسم تھا، جب ان کی آنکھوں سے آنسوئوں کا سیلاب ہوکر گزر گیا۔ انہوںنے اسی گائوں میں دفن ہونے کی خواہش بھی ظاہر کی اور یہ ممکن ہوتامحسوس نہ ہوا تو پھر وصیت کی، میری راکھ میرے گائوں پہنچائی جائے۔ اب اس گائوں کے ریلوے اسٹیشن پر کوئی ٹرین آکر نہیں رکتی اور ہندوستان میں کوئی اس گائوں کی یاد میں آہیں نہیں بھرتا۔
انہوں نے تصنیف و تالیف کے شعبے میں اپنی ابتدا، تحقیقی کاموں سے کی۔ سکھوں کی تاریخ کے تناظر میں دو جلدوں پر مشتمل مستند تحقیق لکھی۔ تقسیم ہند کے تناظر میں بھی کئی ایک موضوعات پر برابر لکھتے رہے۔ فکشن میں ناول، ناولٹ، افسانے کی صورت میں اپنے خیالات کو روپ دیا، جبکہ نان فکشن میں کئی بے باک اور منہ زور کتابیں بھی لکھیں، جن کی بڑی شہرت ہوئی۔
ان کی سوانح عمری’’سچ، محبت اور ذرا سا کینہ‘‘ کو بہت مقبولیت ملی، اس کے علاوہ دلی شہر پر لکھے گئے ناول کو بھی بے حد پسند کیا گیا، لیکن ان کی مشہورزمانہ کتاب، وہ ناولٹ تھا، جس کا نام’’ٹرین ٹو پاکستان‘‘ ہے، اس ناولٹ کو عالمگیر شہرت ملی۔ ان کی کل کتابوں کی تعداد، ایک محتاط اندازے کے مطابق 100 ہے، جبکہ اردو سمیت ہندوستان کی مختلف علاقائی زبانوںاور دنیابھرکی مختلف زبانوں میں، ان کی کتابوں کے تراجم ہوئے۔ ان کی تمام مشہور کتابوں کے پاکستان میں اردو تراجم شائع ہوچکے ہیں۔
خوشونت سنگھ کے مقبول ترین ناولٹ’’ٹرین ٹوپاکستان‘‘ کا ہندوستان میں اردو ترجمہ’’مسعود منور‘‘ نے کیا۔ اس کتاب کے حوالے سے ایک اور معروف ہندوستانی شاعر اور ان کے ہم عصر’’گوپال متل‘‘ نے جامع خلاصہ کیا، لکھتے ہیں۔’’ناول کے مطالعہ کے بعد آپ خوشونت سنگھ کی طرز نگارش کی داد تو دیں گے ہی، لیکن یہ کافی نہیں، بہترین واہ یہ ہوگی کہ ہم اپنے دل کو ٹٹولیں‘‘ اسی طرح روزنامہ جنگ میں ہی ڈاکٹر قمرعباس نے ہندوستانی اردو ترجمہ کے پاکستانی ایڈیشن پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا۔’’وہ غیر معمولی تخلیقی صلاحیتوں کے مالک تھے، جنہوں نے آزادی کی تحریک کو درجہ بہ درجہ آگے بڑھتے دیکھا، تقسیم ہند کے فسادات کو قریب سے محسوس کیا اور یوں اپنے مشاہدات کو ناول کا پیراہن عطا کیا‘‘
اس مقبول ترین ناولٹ’’ٹرین ٹوپاکستان‘‘ کا مرکزی خیال کچھ یوں ہے کہ ایک گائوں ہے، جہاں مسلمان اور سکھ مل جل کر امن کی زندگی بسر کرتے ہیں، جب ہندوستان کی تقسیم کا وقت آتا ہے، تو پورے خطے کی فضا مکدر ہو جاتی ہے، ایسے میں یہ گائوں بھی ان منفی اثرات سے متاثر ہوتا ہے، مسلمان گائوں سے کیمپ منتقل ہوتے ہیں، پھر ان کو ایک ٹرین کے ذریعے پاکستان جانا ہوتا ہے، تو کچھ فسادی یہ طے کرتے ہیں، وہ اس ٹرین پر شب خون ماریں گے، جبکہ جیل سے رہاہونے والے دو سکھ ایسے بھی تھے، جوبظاہر بدنام اورجرائم پیشہ تھے، لیکن وہ اپنی جان کی بازی لگاکر اس قتل عام کی سازش کو ناکام بنادیتے ہیں۔ جذبات میں گندھی ہوئی یہ کہانی تقسیم کے زخم تازہ کر دیتی ہے۔ اس حساس اور دل کو چھولینے والے موضوع پر بھارت میں فلم بھی بنائی گئی۔
اس ناولٹ پر فلم بنانے والی فلم ساز کا نام’’پامیلا روکس‘‘ تھا، جنہوں اس کہانی کو اسکرپٹ کی شکل دے کر فلم کے پردے پر منتقل کیا۔ اس فلم کے اداکاروں میں موہن اگاشی، نرمل پانڈے، رجیت کپور، سمریتی مشرا، دیویا دتا سمیت دیگر فنکاروں نے کام کیا۔ اس کہانی پر عالمی شہرت یافتہ بھارتی فلم ساز’’اسماعیل مرچنٹ‘‘ بھی فلم بنانا چاہتے تھے، اس منصوبے کے تحت فلم کا اسکرپٹ بھی تیار کرلیا گیا تھا، لیکن پھر یہ منصوبہ ادھوراہی رہ گیا۔
فلم ساز’’پامیلا روکس‘‘نے کم عمری میں خوشونت سنگھ کا یہ ناولٹ پڑھا اور اس کی کہانی ان کے دل سے قریب رہی، آخر کار انہوں نے اس کہانی پر دل کش فلم تخلیق کی، جس کو بہت کامیابی بھی ملی۔ فلم کے کلائمکس میں پنجابی زبان کی معروف شاعرہ ـامرتا پریتم‘‘ کی نظم’’اَج آکھاں وارث شاہ نوںـ‘‘ کا استعمال بھی بہت عمدہ انداز میں کیا گیا۔ ناول اور فلم کی کہانی میں معمولی سا فرق رکھا گیا، البتہ مرکزی کردار اور خیال یکساں ہی ہے۔یہ فلم 1998 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی۔
تاریخ کے منظر نامے کو فلم کے کیمرے کی آنکھ سے دیکھ کر ناول کے حروف میں کنندہ، محبت، بھائی چارے، اداسی اور آنسوئوں کا ذائقہ محسوس کرنا چاہتے ہیں اور ان لوگوں کے غم کی تپش کو تاپنا چاہتے ہیں، تو اس ناول کو پڑھیے، اس پر بننے والی فلم کو دیکھیے، کیونکہ ان دونوں میں ہمارے خطے کی تاریخ کا نرماہٹ بھرا سبق بیان کیا گیا ہے، وہ سبق، جو صرف محبت اور بھلائی کا ہے۔