• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
منتخب حکومت حلف اٹھانے کے ایک ہفتے کے اندر 8فیصد خسارے کے ساتھ بجٹ پیش کرے گی اور عوام امید لگائے بیٹھے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف کی حکومت بجلی کے بحران کو اس قدر حل کر دے گی کہ سبھی کو کچھ دیر کے لئے سکون کی نیند میسر آجائے اورصبح اٹھیں تو روز گار شکم کے لئے اسی بجلی کے ذریعے رزق کا سامان کر سکیں۔ ابھی انہیں بلٹ ٹرین چاہیے نہ کوئی ایٹم بم بے روز گار نوجوان لاکھوں کی تعداد میں بقائے حیات کی تگ و دو میں مصروف ہیں اگر انہیں روزگار نہ ملا تو یہ ایٹم بم سے زیادہ خطر ناک ہو سکتے ہیں۔ یہ ستم ظریفی بھی دیکھئے کہ یہ ملک ”فوڈ پاور“ بننے کی بدرجہ اتم صلاحیتیں رکھتا ہے لیکن قرضوں میں جکڑی ہوئی معیشت اور خام مال برآمد کرنے والا ملک سائنسی دنیا سے دور اپنے قدرتی وسائل اور انسانی سرمائے پر اعتماد نہیں کرتا۔ سامراج کا حاشیہ بردار بن کر حکمراں طبقہ اپنی عیاشیوں کو باہر کے بنکوں میں قید رکھنے میں خوش ہے ادھر چھوٹے کاشت کار کی یہ حالت ہے کہ ان کی نقدی کی ضرورت اور قرضوں میں اضافہ ہو رہا ہے انہیں ہر فصل کے موقع پر اپنی پیداوار کو کم قیمت پر فروخت کرنا پڑتا ہے اورپھر انہیں سال کے آخر تک منڈی سے اناج مہنگے داموں خریدنا پڑتا ہے یہ درمیان میں کون ساہوکار ہیں جو عرصہ دراز سے چھوٹے کاشت کاروں کو لوٹ رہے ہیں۔ زمین کی غیر مساوی تقسیم اور ٹیکنالوجی کے متعارف ہونے سے سماجی تناؤ بڑھ رہا ہے اور فی کس پیداوار بڑھنے سے قاصر ہے جب کہ ویتنام جیسا ملک آگے بڑھ رہا ہے امید ہے کہ صنعت کار وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف زراعت کی طرف بھی توجہ دیں گے اور زرعی اصلاحات کا منصوبہ بھی زیر غور لائیں گے جس کے بغیر حقیقی معیشت میں یہ ملک آگے نہیں بڑھ سکتا جسے خدا نے ہر نعمت سے نواز ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں سود کی شرح اور افراط زر کے تناسب کو واحد ہندسے تک لانا اسٹیٹ بینک کا کام ہے اگرحکومت وقت ساتھ دے تاکہ مقامی سرمایہ کاری میں اضافہ اور مہنگائی میں کمی ہو۔ پانچ برس تک اسٹیٹ بنک کمرشل بنک ٹی بلز کی خرید و فروخت پرکھیلتے رہے، اسپریڈ بڑھاتے رہے، اسٹاک مارکیٹ میں شیئر کی قیمت میں اضافہ کرتے رہے اس طرح وہ کبھی خسارے میں نہیں رہے یہ شماریاتی معاشیات کے جعلی اشاریئے ہیں جو حقیقی ترقی میں حائل ہیں امید ہے کہ منتخب حکومت جعلی اقدامات سے اجتناب کرے گی۔ منتخب حکومت کو بجٹ کے خسارے کا سامنا ہے اور انرجی بحران ختم کرنا ہے جس کیلئے 500 ارب روپے کی شدید ضرورت ہے بدقسمتی یہ بھی دیکھئے کہ ایف بی آر نے گزشتہ بجٹ میں ریونیو کاجو ہدف مقررکیا گیا تھا اس سے 790 ارب ٹیکس کم وصول کیا ہے اور ایک ہزار ایک سو ارب کا خسارہ پہلے سے گزشتہ بجٹ کا موجود ہے اس لئے منتخب حکومت کو جس کا سارا دارومدار زرمبادلہ پر ہے درآمدات کو کم اور برآمدات کو بڑھانا ہو گا کیونکہ اس سے توازن ادائیگیوں میں شدید بحران جو اس وقت موجود ہے، اس میں کمی آئے گی۔ برآمد کنندگان اور کسٹم حکام کی ملی بھگت سے انڈرانوائسنگ اور انوائسنگ پر قابو پانا ہوگا کیونکہ اس سے بیرونی ادائیگیوں کا توازن انتہائی عدم توازن کا شکار ہے نتیجتا ًقومی وسائل محنت کے حاصلات اور خام وسائل غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی میں خرچ ہو جاتے ہیں گزشتہ بجٹ میں 926 ارب روپے کا سود ادا کیا گیا نہ جانے اب کتنا ادا کرنا ہوگا اسی لئے تشکیل سرمایہ کا قومی عمل جڑ نہیں پکڑ سکتا اور قومی کرنسی کی قدر گرتی رہتی ہے جب انسانی معیار اور زندگی کا ہر شعبہ ڈالروں کے حصول کی تگ و تاز میں لگا رہتا ہو، توسیاست پر سیاست دانوں کا کنٹرول ختم ہو جاتا ہے اورملک عالمی سامراج کا متحاج ہوکر اپاہج ہوجاتا ہے ظاہر ہے مانگے تانگے کا اقتدار عوام کی ضرورتیں پوری کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ دہشت گردی کے بھنور میں پھنس کر پاکستان پروکسی جنگ لڑ رہا ہے جس پر 12 ارب ڈالر سالانہ اخراجات اٹھتے ہیں اس مد میں امریکہ 1.2 ارب ڈالر سالانہ امداد دیتا ہے جب کہ افغانستان میں نیٹو افواج کا یہ پانچ دن کا خرچ ہے ، قرضوں کی وجہ سے پیداواری عمل اوربرآمدات عالمی اجارہ داروں کے قبضے میں ہے ۔ عوام لسانی، فرقہ وارانہ اور نسلی تضادات کے نتیجے میں ایک دوسرے سے متصادم رہتے ہیں اور موجودہ انتخاب بھی اسی ڈگر سے کرائے ہیں تاکہ ہر صوبہ دوسرے سے اجنبی رہے۔ اس کے لئے میں نے تین مصرعے کہے ہیں ملاحظہ کیجئے۔
صوبائی بن کے ملک کی سرحد میں ہم رہیں
قبروں کی طرح دوستو اک حد میں ہم رہیں
شیشوں کے گھر میں تم رہو اور زد میں ہم رہیں
ملک اس وقت انتہائی نازک صورتحال سے دوچار ہے اور منتخب حکومت کوخساروں کا بجٹ پیش کرنا ہے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو غالباً بے اختیار حکومت سے تنگ آکر 1996 میں منعقدہ ایک سیمینار میں کہتی ہیں ”مغربی منڈیاں جواپنی ترقی کے نتیجے میں فاضل پیداوار کرتی ہیں اگر ان ممالک کا مالیاتی اور صنعتی سرمایہ کھپت کیلئے منڈیوں پر قبضہ نہیں کرتا تو مغربی معیار زندگی جس لوٹ مار پر قائم ہے تنزلی کا شکار ہو جاتاہے۔ بیرونی منڈیوں کے قبضے ہی کے لئے مغربی سرمائے نے عالمی تجارت کوعالمی محصولات اورکسٹم کی پابندیوں سے آزاد کر دیا ہے اب یہ بلا روکے ٹوکے اوربغیر محصول کے درآمد ہو رہا ہے جس سے پاکستانی معیشت قرضوں میں پھنس کر رہ گئی ہے عالمی مقابلے میں ہم پس ماندہ رہ گئے ہیں۔ تجارتی خسارے بڑھ رہے ہیں جس کیلئے قرضے لینے پڑتے ہیں ان پر بھاری سود ادا کرنا پڑتا ہے جو خساروں کو بڑھاتے ہیں اورہم مزید قرضوں کیلئے مجبور ہو جاتے ہیں“ شہید بے نظیر بھٹو نے تجزیہ تو بے نظیر ہی کیا تھا لیکن ان کے معاشی مشیروں نے اس کا کوئی انڈجنیس حل نہیں پیش کیا۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں میاں نواز شریف جو مذکورہ بندھنوں میں بندھے ہوئے ملک کیلئے انرجی کے بحران اور دہشت گردی کی فضا میں بجٹ پیش کرنے والے ہیں جس میں بجٹ کا خسارہ آٹھ فی صد تک پہنچ گیا ہے کیونکہ ایف بی آر نے ریونیوکی مد میں 790 ارب ٹیکس کی وصولیابی ہدف سے کم کی ہے۔ اور گیارہ سو ارب روپے کا پہلے سے پچھلے بجٹ کا خسارہ موجود ہے ۔ پاکستان کو زرمبادلہ کی ضرورت ہے اورروپے کی قدر درآمدات زیادہ اور برآمدات کم ہونے کی وجہ سے مسلسل گھٹ رہی ہے اس لئے مناسب ایڈجسٹمنٹ کر کے منتخب حکومت روپے کے مقابلے میں ڈالر کو ”کیپ“ کرنا ہوگا۔ تاکہ کرنسی سٹہ بازوں کو بھی لگام دی جا سکے۔ مزید برآں انکم ٹیکس چورں اورکالے دھندے کے افراد سے اثاثوں کی شفاف جانچ پڑتال کر کے انکم ٹیکس نیٹ وسیع کرنا پڑے گا تاکہ بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ عوام پرکم پڑے۔
بیرون ملک سے جو ترسیلات گزشتہ برس 12.5 ارب ڈالر موصول ہوئی ہیں ان کی مختلف اقدامات کے ذریعے سے 115 ارب ڈالر وصولیوں کو یقینی بنانا ہوگا شہری اور دیہی اشرافیہ سے آمدنی پر ٹیکس وصول کرنے کیلئے سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ تھوک اور پرچون والے جی ڈی پی کا ایک فی صد ٹیکس دیتے ہیں اس کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ وہ خطیر آمدنی پرکم ٹیکس کیوں ادا کرتے ہیں۔
ٹیکس چوری 66 فیصد ہے اور ٹیکس جی ڈی پی کا تناسب 9 فیصد ہے جو دنیا میں سب سے کم ہے اسے بڑھا کر 15 فیصد تک لانا پڑے گا۔ ٹرانسپورٹر اور پروفیشنل بہت کم ٹیکس ادا کرتے ہیں ان کی آمدنیوں کا درست تخمینہ لگا کر ان پر ٹیکس کا نفاذ بہت ضروری ہے۔ درآمدات اور غیر پیداواری اخراجات میں کمی کے اقدامات بجٹ میں پیش کئے جائیں تو بجٹ اتنا ہی بہتر ہوگا کنزیومر ازم کی بجائے کفایت شعاری سے کام لیا جائے، بڑے طبقات جو بلیک منی اور گرے منی اور ٹیکس چور ہیں ان کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ میاں نواز شریف کے مطابق سرکاری اخراجات میں 30 فیصد کٹوتی کی جائے۔ نوٹ چھپانے کی روایت کو محدود کیا جائے۔ براہ راست ٹیکسوں اور بالواسطہ ٹیکسوں کا تناسب بالترتیب 49.51 کر دیا جائے۔ قدرتی وسائل کو بروئے کار لایا جائے۔ انسانی سرمائے کو ویلیوایڈیڈ بنایاجائے۔ لائیو اسٹاک اور ڈیری فارمنگ کو ترقی دی جائے۔ حوالے پر قابو پایا جائے توملک پانچ سال میں پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔ منتخب حکومت ایسا بجٹ تدوین کر سکتی ہے جس سے ترقی کی سمت مقرر ہو اور لوگوں کو کچھ ریلیف ملے۔
تازہ ترین