• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آنکھ کا رنگ کاسنی سے ہلکا گلابی ہو چکا اور دماغ سوتے جاگتے کی ننداسی کیفیت میں ہے۔ اسے تاریخ کا جبر ہی کہنا چاہئے کہ قافلہ عمر کا سفر دو صدیوں میں بٹ گیا۔ بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں پیدا ہونے والوں نے ابھی اچھے وقتوں کے خواب اور ناانصافی کی بدنما حقیقت سے پوری طرح نمٹنا بھی نہیں سیکھا تھا کہ اکیسویں صدی آن لگی۔ خواب دیکھنے والوں کی ایک اور سوختہ نصیب نسل پیدا ہو چکی ہے جسے ناگزیر طور پر اپنی اچھائی کی سزا کو پہنچنا ہے۔ دولت، اختیار، فریب اور جرم کے ہتھیاروں سے محبت کا گھروندا مسمار کرنے والا قبیلہ بدستور زمیں کے سینے پر مونگ دل رہا ہے۔ 1975میں اقوام متحدہ نے آٹھ مارچ کو عورتوں کا عالمی دن قرار دیا تھا۔ آدھی صدی گزر گئی۔ 2021کے مارچ کی خبریں کچھ اس طرح ہیں۔ 22فروری کو شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں بے سہارا خواتین کو ہنر سکھانے والی چار تعلیم یافتہ خواتین کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ اگلے روز آئی ایس پی آر نے اعلان کیا کہ خواتین پر حملے میں ملوث دہشت گرد تنظیم حافظ گل بہادر گروپ کے رہنما حسن عرف سجنا کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ دونوں خبروں میں زمانی ترتیب بہت کچھ کہے دیتی ہے۔

دو مارچ کو افغان صوبے ننگرہار میں نامعلوم مسلح افراد نے ٹیلی وژن کی تین خواتین صحافیوں کو قتل کر دیا۔ کچھ عرصہ قبل اسی ٹی وی چینل کی خاتون کارکن ملالہ میوند کو قتل کیا گیا تھا۔ منگل کے واقعے سے ایک روز بعد جلال آباد میں ایک خاتون ڈاکٹر کو قتل کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ امریکا میں نئی حکومت آنے کے بعد سے دوحہ معاہدہ خدشات کی زد میں ہے اور کم از کم ایک فریق تشدد بالخصوص عورتوں کے حقوق سے عناد کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی شہرت رکھتا ہے۔ بھارت میں راجستھان کی 23 سالہ عائشہ مکرانی نے جہیز کے مطالبے، جسمانی تشدد اور ازدواجی اذیت سے تنگ آ کر احمد آباد کی سابرمتی ندی میں کود کر جان دے دی۔ خود کشی سے قبل ریکارڈ کی گئی وڈیو نے دل دہلا دیے ہیں۔ یہ رہی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں صنفی امتیاز کی مکروہ صورت۔ دسمبر 2020 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کورونا انفیکشن کے دوران تقریباً ڈیڑھ کروڑ خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوئی ہیں۔

اب کچھ ذکر انتخابی دھاندلی سے شہرت پانے والے قصبے ڈسکہ کا ہو جائے۔ گزشتہ برس ڈسکہ کے ایک شہری احمد فاروق ساہی نے لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں آگہی پیدا کرنے کی غرض سے اسسٹنٹ کمشنر (تب) آصف حسین کی مدد سے پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر ڈسکہ میں لڑکوں کے ڈگری کالج کے سامنے ایک مجسمہ تعمیر کروایا تھا۔ اس قدِ آدم مجسمے میں ایک بچی کتابوں کے ڈھیر پر اپنا ہاتھ رکھے تھی اور قریب کھڑے استاد کا ہاتھ اس کے سر پر رکھا تھا۔ چند روز قبل نامعلوم افراد نے مجسمے کی توڑ پھوڑ کرتے ہوئے بچی کا سر اور استاد کا بازو کاٹ دیا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ مجسمے کی اس تخریب سے ایک روز قبل انتخابی قضیے میں اسسٹنٹ کمشنر آصف حسین کو ان کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کیا گیا تھا۔ گویا کوئی تھا جو رخت شب میں اندھیرا بڑھانے کی تاک میں تھا۔ احمد فاروق ساہی کے مطابق پولیس نے مجسمہ توڑنے والے شخص کو موقع ہی پر گرفتار کر لیا تھا لیکن اب پولیس ایسی کسی گرفتاری سے انکار کر رہی ہے۔ اس چوک میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں چنانچہ مجرم کی نشاندہی میں مشکل پیش نہیں آنی چاہئے۔ اڑچن یہ ہے کہ وزیرستان کی تحصیل وزیر علی سے ڈسکہ تک ایک ہی سوچ کارفرما ہے۔ بچیوں کی معصومیت، کتاب کی روشنی، صنفی مساوات کی کشادگی اور مجسمے کی لطافت سے بیر رکھنے والوں سے یہ توقع کیسے رکھی جائے کہ وہ شفاف جمہوریت کی روشنی کے متحمل ہو سکتے ہیں۔

اسلام آباد کے سیاسی منظر میں تبدیلی کی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں۔ آج وزیر اعظم اعتماد کا ووٹ لینا چاہتے ہیں۔ دو ہفتے بعد چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے سیاسی صف بندی مزید واضح ہو گی۔ درویش البتہ خبردار کئے دے رہا ہے کہ یہ ہنگامہ حقیقی تمثیل کا ذیلی منظر ہے۔ حفیظ شیخ عالمی سرمائے کے فرستادہ نمائندے ہیں۔ ان کی شکست کی لرزش واشنگٹن اور پیرس تک پہنچے گی۔ ہماری معیشت رہن رکھی جا چکی ہے اور خارجہ محاذ پر ہم سمندری طوفان اور سنگین چٹان کے تنگ درے سے گزر رہے ہیں۔ آئینی اور ریاستی اداروں کی داخلی صورت حال ہرگز خوشگوار نہیں۔ سیاسی منظر کو ابھی مزید گدلا ہونا ہے۔ آپ تو جانتے ہیں کہ مسولینی اور ہٹلر نے پہلی عالمی جنگ کے بعد کی بحرانی کیفیت سے جنم لیا تھا۔ ایک طرف انقلابی تبدیلیوں کے خواب نیم روز میں چلنے والے ناپختہ سیاسی نوجوانوں کا ہجوم تھا اور دوسری طرف پیوستہ مفادات سے آلودہ کہنہ اشرافیہ۔ آج کا پاکستان اسی کشمکش سے دوچار ہے۔

1924 میں نوبل انعام یافتہ جرمن مصنف تھامس مان نے جادوئی پہاڑ (Magic Mountain) کے عنوان سے ایک ناول لکھا تھا۔ تخلیقی آنکھ وقت کے بیج میں رکھے شجر کو دیکھ لیتی ہے۔ تھامس مان کے طویل ناول میں دو قابل ذکر کردار ملتے ہیں۔ اٹلی کا روشن خیال، انسان دوست، چرچ مخالف نوجوان لڈویخو سٹیمبرینی ہے۔ دوسری طرف ادھیڑ عمر نیفٹا ہے، کٹر مذہبی، منتقم مزاج اور خونی انقلاب میں نجات ڈھونڈنے والا۔ نیفٹا کا ایک مکالمہ دیکھیے، ’آزادی اور فرد کی ترقی میں کچھ نہیں رکھا۔ ہمارے حالات ان ٹوٹکوں سے درست نہیں ہوں گے۔ ہمیں دہشت کی ضرورت ہے۔‘ تھامس مان نے لکھا کہ دہشت (Terror) کا لفظ ادا کرتے ہوئے نیفٹا کی آنکھ میں ایک سرد چمک نمودار ہوئی۔ دہشت پھیلانے کیلئے غریب عورتوں، معصوم بچیوں، کتابوں اور مجسموں سے بہتر شکار کہاں مل سکتا ہے؟

تازہ ترین