یہ سوال اس عہد کا سماجی، تہذیبی، اخلاقی تناظر اور انسانی صورتِ حال اُسے پیش کرتے ہیں۔ اِسی سوال کے تحت اُس عہد کے ادب کا مزاج متعین ہوتا ہے اور اس کے رویے تشکیل پاتے ہیں۔ اکیس ویں صدی کی دوسری دہائی اختتامی مرحلے میں ہے۔ کیا ہم جانتے ہیں کہ اِس دور میں ہمارے ادب کو درپیش بنیادی سوال کیا ہے؟ چوںکہ ہم آزاد قوم اور زندہ معاشرہ ہیں، ایک تہذیب کے پاس دار اور اس کی اخلاقی قدروں کے نگہ دار بھی— اس لیے ہونا تو یہی چاہیے کہ ہمارے، معاشرے کے وہ لوگ جو ادب سے دل چسپی رکھتے ہیں، کسی نہ کسی سطح پر اس سوال سے آگاہ ہوں۔ اچھا فرض کیجیے، اگر عام آدمی اس سے واقف نہیں ہے تو کم سے کم ادیب شاعر لوگ تو ضرور ہوں۔ اس لیے کہ اس نئی صدی کی دو دہائیوں کا عرصہ اس نوع کے کسی بھی مسئلے کے تعین کے لیے ہمیں بہرحال وافر وقت مہیا کرچکا ہے۔
اس نکتے پر سوچنے اور اپنے دائیں بائیں ادبی برادری کے لوگوں سے سن گن لینے کے بعد ہم تعجب اور افسوس کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ہمارے سامنے کوئی واضح رائے موجود نہیں ہے۔ کیوں نہیں ہے صاحب؟ کیا ہمارے یہاں اس وقت اس سے بڑے کسی اور مسئلے کی تفتیش چل رہی ہے؟ نہیں، ایسا بھی نہیں ہے۔ تو پھر کیا وجہ؟ مرحلہ تو وہی، آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر، والا ہے، کیوںکہ اس سچائی سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں کہ ہم نے اس سوال کو درخورِ اعتنا ہی نہیں جانا، توجہ ہی نہیں دی اس پر۔ اس اعتراف پر بھی بات ختم نہیں ہوتی۔
چلیے ٹھیک ہے، دوچار، دس بیس، سو دو سو ادیبوں شاعروں نے اہمیت نہیں دی، کیا سب کے سب، چھوٹے بڑے، نئے پرانے لکھنے والوں میں سے کسی کو بھی اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی؟ ایسا نہیں ہوسکتا۔ زیادہ نہ سہی، لیکن چند ایک لوگ تو بہرحال ایسے ہوں گے جو اپنی تہذیب، معاشرے اور ادب کے حوالے سے سوچیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو انھوں نے اس سوال پر غور کیوں نہیں کیا— اور اگر کیا ہے تو پھر کس نتیجے پر پہنچے اور جس پر پہنچے اُس کا اظہار کیوں نہیں کیا؟
واقعہ یہ ہے کہ معدودے چند ہی سہی، لیکن سوچنے والے لوگ اب بھی اس معاشرے میں ہیں۔ ظاہر ہے، جب وہ سوچتے ہیں تو کوئی نہ کوئی رائے بھی قائم کرتے ہیں، اور اس رائے کا اظہار بھی کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی صورت میں ہوتا ہے، لیکن اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے کی اکثریت کی طرح ہم بیشتر ادیب شاعر لوگ بھی اوّل تو اپنے اپنے جزیروں پر جی رہے ہیں اور ثانیاً یہ کہ اگر کسی سبب سے کہیں ایک جگہ اکٹھے بھی ہوتے ہیں تو اپنے اپنے الگ مقاصد اور الگ اہداف کے ساتھ۔
یہی نہیں، بلکہ اپنے اپنے تحفظات، تعصبات اور ترجیحات کے سخت حفاظتی انتظام کے ساتھ، جو دراصل ہمارے لیے ایئر ٹائٹ کمپارٹمنٹس کا کام کرتے ہیں۔ وہ کسی رائے کی ہوا، کسی خیال کی آواز اور کسی سوچ کی خوش بو ہم تک نہیں پہنچنے دیتے۔ اس لیے سچ یہ ہے کہ اب ہم لوگ آپس میں ملتے ہوئے بھی نہیں مل پاتے۔ ادھر قصہ یہ ہے کہ تہذیب کا کوئی مرکزی مسئلہ اور ادب کا کوئی بنیادی سوال کسی انفرادی کوشش سے متعین نہیں ہوتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سماج کا اجتماعی شعور بروے کار آئے اور اجتماعی ضمیر آواز کے سانچے میں ڈھل کر ابھرے۔ اب بتائیے، بھلا ایسے میں ہمارے یہاں اس عہد کا بنیادی سوال طے ہو تو آخر کیسے؟
ایک زمانہ تھا، ہمارے یہاں پورے معاشرے کی طرف سے سوچنے اور غور کرنے کا کام ادیبوں نے اپنے ذمے لے رکھا تھا۔ ادیب سوچتے تھے، کسی جگہ اکٹھے ہوتے اور اپنے خیالات و آرا کا اظہار کرتے، بات چیت میں گرماگرمی بھی ہوتی۔ ناگفتہ باتیں بھی ہوجاتیں، یہاں تک کہ الزامات بھی دھر دیے جاتے۔ خوب بک بک جھک جھک بھی ہوتی، لیکن اس کے دو بڑے فائدے تھے۔ ایک تو یہ کہ فرضِ کفایہ ادا تو گنے چنے افراد کرتے تھے، لیکن پورا معاشرہ ایک بڑے وبال سے بچا ہوا تھا، وہ وبال تھا لاتعلقی اور بے حسی کا۔ دوسرے یہ کہ ادب اور ادیب چوںکہ اپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے، ایک دوسرے کے خیالات کو جانتے اور ان کا سامنا کرتے تھے، اس لیے خیالات کے ٹکراؤ سے نئے تصورات سامنے آنے کا بھی ایک عمل چلتا رہتا تھا۔
اس صورتِ حال کا اثر معاشرہ بھی قبول کرتا تھا۔ چناںچہ ایک تو اُس کا اپنے عہد کے ادب اور ادیبوں سے رشتہ قائم رہتا اور دوسرے ادب کی طرح معاشرے میں بھی ایک سے زائدہ آرا، تصورات اور خیالات کا راستہ کھلا ہوا تھا۔ اب جو یہ سلسلہ ادب میں ختم ہوا ہے تو اس کا اثر معاشرے پر بھی واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ آج اس معاشرے کے افراد کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ جو اُس کی رائے ہے، بس وہی پورے معاشرے کی رائے ہے یا ہونی چاہیے۔ اس سوچ نے معاشرے میں عدم برداشت کے رویے کو اس حد تک بڑھا دیا ہے کہ اگر کوئی شخص معمولات کی عام ڈگر سے ہٹ کر کسی اور رائے کا یا اپنے اختلاف کا اظہار کرنا بھی چاہتا ہے تو خوف کی وجہ سے نہیں کرتا۔ منہ بند رکھنے میں عافیت محسوس کرتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ پورا معاشرہ گھٹن کا شکار ہے۔
پوچھا جانا چاہیے کہ آخر ہمارے ادیبوں نے بات کرنی کیوں چھوڑ دی؟ اس کے مختلف جوابات ہوسکتے ہیں، یہ کہ پہلے ان کے پاس وقت اور پلیٹ فارم دونوں ہوا کرتے تھے جو کہ اب نہیں ہیں۔ پہلے مختلف نظریات اور تصورات موجود تھے، سو اُن کے تحت ادیبوں کے ذہنی رویے مرتب ہوتے، ان سے اتفاق و اختلاف کے پہلو سامنے آتے اور گفتگو کے نئے موضوعات نکلتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ یہ کہ پہلے معاشرہ ادب اور ادیب کو وقعت دیتا تھا اور اس کی بات سنی جاتی تھی، اس لیے وہ اپنی رائے کے اظہار کا کام شوق اور ذمے داری سے کرتا تھا۔
آج معاشرے کو ادیب کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی، سو ادیب بھی اب ایسی کسی فکر میں مبتلا نہیں ہے۔ اس نوع کے کچھ اور جوابات بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ان میں سے کسی بات کو دو ٹوک انداز میں رد بھی نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کہ یہ اپنی اپنی جگہ حقیقتِ حال کا اظہار کرنے والے مسائل کو بیان کررہی ہیں۔ چلیے مانے لیتے ہیں کہ ایسا ہی ہے، لیکن یہ سب آرا پوری سچائی کا اظہار نہیں کررہیں، بلکہ جزوی صداقت پر مبنی ہیں۔ ان کے ساتھ کچھ اور حقائق کے بغیر پورا منظرنامہ سامنے نہیں آسکتا۔
وہ حقائق یہ ہیں کہ ہمارے ادیب نے خود کو وقت اور حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا ہے۔ اس نے اپنے کام اور مقام کو فراموش کرکے کچھ اور چیزوں کو توجہ کا مرکز بنالیا ہے۔ ادب ہر تخلیق کار سے طلبِ دنیا کے معاملے میں ایک سطح کی بے نیازی اور درویشی کا تقاضا کرتا ہے جسے ہمارا ادیب ماننے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس میں بھی کچھ سیاست دانوں اور بیوروکریٹس جیسے خیالات پیدا ہوگئے ہیں، وہ دنیا میں اپنا حصہ وافر مقدار میں چاہتا ہے، بلکہ کہنا چاہیے کہ دنیا کو اپنے حصے سے زیادہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔
سوالات اور خیالات تو غیر مادّی ہوتے ہیں، وہ اُن سے زیادہ اب مادّی اشیا پر توجہ دیتا ہے۔ پہلے اس کا کام اس کے لیے خوشی اور تسکین کا مرکز تھا، لیکن اب یہ مرکز بدل گیا ہے۔ پہلے اُس کے لیے عزتِ نفس یا انا بڑی قیمتی شے ہوا کرتی تھی، لیکن اب وہ اُسے گردانتا ہی نہیں، اس لیے کہ انا تو اس کی ترقی کے راستے کی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ پہلے وہ اپنی آواز، اپنے خیال اور کردار کی طاقت پر زندہ رہنا چاہتا تھا، لیکن اب اسے زندگی کا دوسرا سامان درکار ہے۔ پہلے سمجھوتا کرنا اس کے لیے موت کے مترادف تھا، لیکن اب وہ ایسا نہیں سمجھتا۔
اس صورتِ حال میں ظاہر ہے، اصل کام اور اصل شے تو کہیں پیچھے رہ جاتی ہے اور آدمی کہیں کا کہیں جانکلتا ہے۔ بس یہی کچھ ہوا ہے ہمارے ادیب کے ساتھ۔ اس لیے ہمارے عہد میں ادب کو کس بنیادی سوال کا سامنا ہے، یہ طے ہی نہیں ہوپارہا۔