بلوچستان میں ہارس ٹریڈنگ ، بعض امیدواروں پر ووٹوں کی خریداری کی کوششوں کے الزامات و تردید اور پیراشوٹرز کی اصطلاح کے سائے میں آخر کار ملک بھر کی طرح سینیٹ انتخابات مکمل ہوگئے،توقعات کے مطابق صوبے سے سینیٹ کی 12 خالی نشستوں میں سے 8 نشستوں پر صوبائی حکمران اتحاد نے کامیابی کے ساتھ میدان مارلیا ، اپوزیشن اتحاد نے 4 نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی،انتخابات میں7جنرل نشستوں پربلوچستان عوامی پارٹی کے پرنس عمر احمد زئی، میر سرفراز بگٹی، منظور احمد کاکڑ، جمعیت علما اسلام کے مولانا عبدالغفور حیدری ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے محمد قاسم رونجھہ اور عوامی نیشنل پارٹی کے نوابزادہ ارباب عمر فاروق کاسی ایک نشست پر حکومتی حمایت یافتہ آزاد امیدوار محمد عبدالقادر نے کامیابی حاصل کی۔
ٹیکنوکریٹس کی دو مخصوص نشستوں پر بلوچستان عوامی پارٹی کے سعید احمد ہاشمی،جمعیت علما اسلام کے کامران مرتضٰی ایڈوکیٹ،خواتین کی دو مخصوص نشستوں پر بلوچستان عوامی پارٹی کی ثمینہ ممتاز اور اپوزیشن اتحاد کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار نسیمہ احسان اور اقلیت کی ایک مخصوص نشست پر بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار رکن صوبائی اسمبلی دنیش کمار نے کامیابی حاصل کی، سینیٹ انتخابات میں بلوچستان اسمبلی میں حکومتی اتحاد کو 42جبکہ اپوزیشن اتحاد کو 23ارکان کی حمایت حاصل تھی۔
سینیٹ انتخابات کے نتیجے میں صوبے میں حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی مزید 6نشستیں حاصل کرنے کے بعد سینیٹ میں 12نشستوں کے ساتھ صوبے سے ایوان بالا کی سب سے بڑی جبکہ مجموعی طور پر سینیٹ چوتھی بڑی جماعت بن گئی،جمعیت علما اسلام کے تین،نیشنل پارٹی، پشتونخوا میپ ،بلوچستان نیشنل پارٹی کے دو دو،عوامی نیشنل پارٹی کے ایک رکن سینیٹ میں صوبے کی نمائندگی کریں گے۔
یہاں یہ بات یقینی طور پر قابل زکر ہے کہ سینیٹ انتخابات کے نتائج کے بعد بلوچستان ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں سے ملک کی تینوں بڑی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایوان بالا میں کوئی نمائندگی نہیں تھی تاہم محمد عبدالقادر کی کامیابی کے بعد وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت سے اب پی ٹی آئی کی بلوچستان سے ایکی نشست ہوگئی ہے ۔ یاد رہے کہ محمد عبدالقادر جن کو سینیٹ انتخابات کے لئے پہلے پاکستان تحریک انصاف نے ٹکٹ جاری کیا تھا مگر پی ٹی آئی بلوچستان کی جانب سے پارٹی کی مرکزی قیادت کے فیصلے پر سخت احتجاج اور تحفظات کے بعد وزیراعظم عمران خان نے محمد عبدالقادر سے سینیٹ کا ٹکٹ واپس لیکر پی ٹی آئی کے ایک پرانے رہنما سید ظہور آغا کو پارٹی ٹکٹ جاری کیا تھا اس پر بھی پی ٹی آئی بلوچستان کی جانب سے ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔
ایک حلقے نے ٹکٹ جاری کرنے پر اطمنان کا اظہارکیا تو دوسرے حلقے نے ایک بار پھر تحفظات کا اظہار کیا تھا جبکہ محمد عبدالقادر نے پارٹی ٹکٹ واپس لیے جانے پر اگلے روز آزاد امیدوار کی حیثیت سے کاغذات نامزدگی داخل کرائے ان کے تجویز اور تائید کندہ ارکان کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے تھا، اپوزیشن اتحاد میں شامل جمعیت علما اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے سینیٹ انتخابات میں دو دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی،حیرت انگیز طور پر بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے خواتین کی مخصوص نشست پر رکن صوبائی اسمبلی و بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) کے مرکزی رہنما سید احسان شاہ کی اہلیہ نسیمہ احسان نے کامیابی حاصل کی جنہوں نے سینیٹ انتخابات سے صرف ایک روز قبل بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں پارٹی میں شامل ہونے کا اعلان کیا تھا۔
قبل ازیں بلوچستان نیشنل پارٹی نے خواتین نشست پر پروفیسر طاہرہ احساس جتک اور شمائلہ اسماعیل کو پارٹی ٹکٹ جاری کیا تھا انتخابات میں بی این پی کے ساجد ترین ایڈووکیٹ کی شکست بھی غیر متوقع رہی، جو انتخابات میں ایک مضبوط امیدوار تصور کیے جارہے تھے ، سینیٹ انتخابات سے قبل بلوچستان میں جوڑ توڑ کا سلسلہ عروج پر رہا وزیر اعلیٰ جام کمال خان اور چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی نے حکومتی اتحاد کی کامیابی میں نہائت فعال اور اہم کردار ادا کیا حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے ساتھ اپوزیشن کے ساتھ بھی ان کے رابطے رہے جن میں انہوں نے اپوزیشن کو پنجاب کی طرز پر تمام سینیٹروں کے مقابلہ انتخاب اور اس سلسلے میں اپوزیشن کو چار نشستیں دینے کی پیش کش کی اس پیش کش کے تحت حکومتی اتحاد کو 8 نشستیں ملنی تھیں تاہم اپوزیشن اتحاد کی جانب سے یہ بات سامنے آئی کہ آدھی آدھی نشستیں برابر تقسیم کرنے پر بات ہوسکتی ہے جس کے بعد حکومت کی جانب سےمزید بات نہ ہوسکی،حکومتی اتحاد کو پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند کے صاحبزادئے سردار زادہ میر سردار خان رند کو پولنگ سے صرف ایک روز قبل انتخابات سے دستبردار کرانے کے باعث انتخابات میں زیادہ کامیابی ملی۔
سیاسی حلقوں کی رائے ہے کہ اگر سردار زادہ میر سردار خان رند انتخابات سے دستبردار نہ ہوتے تو حکومتی اتحاد کو بڑی حد تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا، وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے سردار خان رند کے سینیٹ انتخابات سے دستبردار ہونے کے فیصلے پر کہا کہ انہوں نے صوبے کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے سیاسی،انفرادی تعلق اور صوبے میں اتحادی حکومت کو مضبوط اور آگئے بڑھانے کیلئے قدم اٹھایا۔پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی پارلیمانی لیڈر و صوبائی ویزر تعلیم سردار یار محمد رند نے کہا کہ سردار خان رند کو سینیٹ الیکشن سے دستبردار کرنا میرے لیے ایک مشکل فیصلہ تھا۔
مگر ساتھیوں سے مشاورت کے بعد ان کو دستبردار کرانے کا فیصلہ کیا کیوں کہ اگر سردار خان رند الیکشن میں کھڑے رہتے تو شائد ہماری اتحادی جماعتوں کو نقصان پہنچتا جس سے اپوزیشن کو فائدہ پہنچتا اس لیے اپنی پارٹی،بی اے پی اور اتحادی جماعتوں کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے میر سردار خان رند کو دستبردار کرانے کا فیصلہ کیا،دوسری جانب انتخابات سے صرف ایک روز قبل حکومتی اتحاد ایک اور امیدوار ستارہ ایاز کو بھی دستبردار کرانے میں کامیاب ہوئی،ستارہ ایاز اور محمد عبدالقادر کو پارٹی ٹکٹس ملنے پر سیاسی حلقوں کی جانب سے چہ مگوئیاں بھی ہوتی رہیں اور خاص طور پر پیرا شوٹرز کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی رہی،سینیٹ انتخابات کے نتائج اگرچہ قریب قریب توقعات کے عین مطابق آئے تاہم انتخابات سے ایک روز قبل سردار اختر مینگل کی جانب سے انتخابات میں سرپرائز دینے اور بڑا دھماکہ کرنے کا عندیہ دیا گیا۔