کچھ زیادہ دن نہیں گزرے میری ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ میرے پاس اُن کے لیے گاڑی میں عذرا عباس کی نظموں کا مجموعہ تھا اورہم اتفاق سے گلستان کالونی کے پاس سے گزر رہے تھے۔ جی چاہا مجموعہ ڈاکٹر رشید امجد کے ہاں ڈراپ کردوں جو اسی کالونی میں رہتے تھے۔ میری ساتھ بیگم اور بچے تھے۔ بیگم نے خوش ہو کر کہا: ’’ٹھیک ہے بھابی سے بھی ملاقات ہو جائے گی۔‘‘ جب ہم اُن کے گھر کے باہر پہنچے تو میں اکیلا گاڑی سے نکلا کہ پہلے سے ڈاکٹر صاحب کو اطلاع نہیں دی تھی ۔ سوچا، اگر اُن کی کوئی اور مصروفیت ہوئی تو کتاب تھما کرواپس ہو لوں گا۔ وہ گھر پر ہی تھے ۔ آمنا سامنا ہوا۔ ملے تو بہت گھبرائے ہوئے۔ کہنے لگے ’’یار، بہت برا ہوا۔‘‘
میں بھی پریشان ہو گیا۔’’ کیوں؟ کیا ہوا، ڈاکٹر صاحب؟‘‘
’’رخسانہ کو کووڈ پازیٹو ہے۔ وہ قرنطینہ کے لیے کمرے میں بند ہے۔ بھابی اور بچوں کو اندر نہیں بلا سکتے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کے دونوں بیٹے ملک سے باہر تھے۔ بیٹی شہر میں تھی، اور وہ بھی اپنے گھرمیں قرنطینہ میں تھی۔ انہوں بتایا تھاکہ بیٹی اور داماد کو بھی کووڈ پازیٹو آگیا تھا۔ یوں وہ گھر میں اکیلے تھے اور حددرجہ پریشاں۔ میں نے کتاب دِی اور کھڑے کھڑے لوٹ آیا۔ یہ ہماری آخری ملاقات تھی۔
گھر پہنچا تو اُن کا فون آگیا تادیر اس پراظہار تاسف کرتے رہے کہ اتنے مہینوں بعد ملے تھے اور بیٹھ کر کوئی بات نہ ہو سکی تھی۔ انہوں نے کچھ دِن بعد فون پر ہی اطلاع دی تھی کہ ان کی بیوی، بیٹی اور داماد کورونا سے نکل آئے تھے اوراب سب خیریت سے تھے۔۳ مارچ کو ان کی موت کی خبر آگئی۔ مجھے ڈاکٹر رشید امجد کی موت کا اس لیے یقین نہیں آرہا تھا کہ میری اُن سے فون پر محض چند روز قبل بات ہوئی تھی۔ اور انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ جلد ملاقات کا اہتمام کرتے ہیں۔ جب مجھے صلاح الدین درویش سے رشید امجد کی موت کی خبر ملی تو ڈاکٹر صاحب کی وہ باتیں سماعت میں گونجنے لگیں جوآخری بار فون پر ان سے رہیں۔
میں نے ڈاکٹر صاحب کے گھر کا نمبر ملا یا تو ان کی بیٹی نے بتایاکہ اچانک طبیعت بگڑ گئی تھی، رات ہسپتال میں گزاری مگر نہیں سنبھلے اور اگلے روز چل بسے تھے ۔ وہ جو کسی نے کہا تھا’’قصہ ہوا تمام کہانی ختم ہوئی‘‘۔ جس علامتی اور تجریدی افسانے کی تحریک کے ساتھ اُدھر ہندوستان میں بلراج مین را اور سریندرپرکاش اور ادھرپاکستان میں لاہور سے ڈاکٹر انور سجاد، کراچی سے احمد ہمیش اور راولپنڈی،اسلام آباد سے ڈاکٹررشید امجد اور خالدہ حسین نام جڑا ہوا تھا ،اگرچہ اس کا چرچا مدہم پڑے چار دہائیاں ہو چلی ہیں ،مگر رشید امجد اس نسبت کے ایسے آخری تخلیق کارتھے جنہوں نے وقت کے رواں دھارے کا مزاج سمجھا اور مرتے دم تک قلم رواں رہا تھا۔
ڈاکٹر رشید امجد حقیقی معنوں میں’ سیلف میڈ‘ انسان تھے ۔ اپنی تعلیمی استعداد کو بڑھانے اور ایک عطا کرنے والے استاد کی حیثیت سے احترام پانے کا معاملہ ہو یا ایک تخلیق کار کی حیثیت سے اپنی راہ خود تراش کر نمایاں ترین ہوجانا، اس کے پیچھے ایک طویل جدوجہد اور ’فنافی الادب‘ کاسا جنون صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ افسانہ، تنقید، تحقیق ان کے ادبی علاقے تھے۔وہ اکثر ۱۹۶۰ء کے آغاز کا قصہ سنایا کرتے۔ تب وہ ۵۰۱ ورکشاپ راولپنڈی میں ٹائم کیپر تھے۔ میری اُن سے لگ بھگ تیس برسوں کی رفاقت ہے اور یہ کہانی میں نے ان سے خود کئی بار سنی ہے کہ اپنی عملی زندگی کے ان ایام میں انہیں پڑھنے کی لت لگ چکی تھی ۔دفتری کام سے فراغت ملتی توکوئی نہ کوئی کتاب کھول کر بیٹھ جاتے ۔
ایک بار میں نے ان سے پوچھا تھا کہ تب وہ کیسی کتابیں پڑھا کرتے تھے تو وہ ہنسے اور کہنے لگے؛ جاسوسی ناول ۔ ۵۰۱ ورکشاپ میں ہی ان کی ملاقات افسانہ نگار اعجاز راہی سے ہوئی تھی۔ ان کے دیکھا دیکھی یہ بھی کہانیاں لکھنے لگے۔ رشید اختر نے پہلے پہل اختر رشید ناز کے نام سے کچھ رومانی کہانیاں لکھیں اورادیبوں کی صحبت اختیار کرلی ۔ اسی زمانے میں نثار ناسک، سلیم الظفر، اعجاز راہی اور دوسرے نوجوان ادیبوں کے ساتھ مل کر ’’بزم میر‘‘ کے نام سے ایک ادبی انجمن بنائی۔
بزم میر کے اجلاس راجہ بازار راولپنڈی میں ہوتے تھے، وہاں انہوں نے پہلا افسانہ تنقید کے لیے پیش کیا تھا ۔ رشید امجداپنے استاد غلام رسول طارق کا ذکر بہت محبت سے کیاکرتے تھے۔ غلام رسول طارق ان کے یوں استاد تھے کہ انہوں ان کا نام اختر رشید ناز سے بدل کر رشید امجد کر دیا تھا اور افسانے کے باب میں کئی مفید مشورے دیے تھے۔
یہ مشورے اس افسانے کے بارے میں تھے جو انہوں نے رشید امجد سے بزم میر میں سنا تھا ۔ ان مشوروں کی روشنی میں رشید امجد نے افسانے میں ترمیم کی اور میرزا ادیب کو ’’ادب لطیف‘‘ میں چھپنے کو بھیج دیا۔یہ افسانہ ’’لیمپ پوسٹ‘‘ تھا جو ’’ادب لطیف‘‘ ستمبر ۰ ۱۹۶ء میں شائع ہوا تھا۔یہی پہلا افسانہ انہوں نے ۱۹۶۵ء میں پھر سے لکھا۔ اب یہ علامتی افسانہ تھا ۔ اس بار’’لیمپ پوسٹ‘‘کے نام سے ہی ڈاکٹر وزیر آغا کے جریدے ’’ اوراق‘‘اکتوبر ۶۶۹۱ء میں شائع ہوا تھا۔ رشید امجد اسے اپنا نیا جنم کہتے ہیں۔ جی؛ ایک نئے افسانہ نگار کا جنم۔
ڈاکٹر رشید امجد کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’بے زار آدم کے بیٹے‘‘ ۱۹۷۴ء میں شائع ہوا تھا۔ ’’کاغذ کی فصیل‘‘ ان کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ہے جو ۱۹۹۳ء میں چھپا تاہم ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ اس میں پہلے مجموعے سے بھی ابتدائی زمانے کے افسانے تھے ’’کاغذ کی فصیل‘‘ سے ان کے اسلوب میں اس تبدیلی کو آنکا جاسکتا ہے جو بعد میں ان کی شناخت بنا۔ ’’ریت پر گرفت‘‘ کے افسانوں میں تو وہ تجریدیت کی طرف جاتے محسوس ہوتے ہیں۔ یہ افسانے عام قاری کے لیے نہ تھے ،بہ قول رشید امجد’’ ذہین قاری کے لیے لکھے گئے تھے‘‘۔ ’’سہ پہر کی خزاں‘‘ میں مارشل لا کے زمانے کے پڑتے عکس کو دیکھا جاسکتا ہے ۔
اس کتاب کے افسانوں میں موت ، جنازے اور قبر کے ساتھ ساتھ گٹر جیسی سیاسی فضا کا ذکر ہے ۔ ’’پت جھڑ میں خود کلامی‘‘،’بھاگے ہے بیاباں مجھ سے‘‘ میں وہ علامت کے مفاہیم میں وسعت لاتے ہیں ، موضوعات قدرے فلسفیانہ ہو جاتے ہیںاور یہیں کہیں اُن کے افسانوں میں ایک ماورائی کھڑکی بھی کھلتی ہے۔ اس کھڑکی سے ایک مرشد اُن کی کہانیوں کا کردار ہوآ جاتا ہے جو زندگی کی ایسی مشکلات سے نکلنے کی صورتیں سجھانے لگتا ہے جن سے نکلنا عام حالات میں اور منطقی طور پر ممکن نہیں ہوتا۔ رشید امجد نے آخری برسوں میں داڑھی رکھ لی توجلیل عالی نے کہا تھا’’ مرشدتو رشید امجد کے اندر پہلے سے موجود تھا اب سامنے بھی آگیا ہے‘‘۔
یہ مرشد یوں ہی سامنے نہیں آیا تھا پہلے کئی برسوں سے اُن کی کہانیوں کا کردار ہوا تھا۔ کہیں پوری شباہت کے ساتھ اور کہیں متن کی سطروں کے بیچ سے جھانکتے ہوئے۔وہیں ، جہاں وہ اپنے ’’ہونے‘‘ اور ’’نہ ہونے‘‘ کا ذکر کرتے ہیں اور ہاںجب علامتی افسانے کا شور شرابہ مدہم پڑاتھا ۔ اور علامت نگاروں اور تجرید کاروں کو احساس ہوا کہ ان کا قاری غائب ہو گیا ہے تو ایسے زمانے میں رشید امجد نے ’’ست رنگے پرندے کے تعاقب میں‘‘ اور ’’بگل والا‘‘ جیسے افسانے لکھ کر سب کو متوجہ کر لیاتھا ۔ اب ان کی کہانی میں محض علامت اور تجرید نہیں تھی کہیں تمثیل تھی اور کہیں پیکر تراشی، زبان تو وہ شروع سے بہت عمدہ استعمال کر رہے تھے۔ کچھ کہتے ہیں شعری وسائل کو برتتے ہوئے مگر میں کہیں گا عین فکشن کے اس مزاج کی جس نوع کا فکشن ان کی شناخت ہوا تھا۔
۵ مارچ ۱۹۴۰ کو سری نگر کشمیر میں پیدا ہونے اور تقسیم کے بعد ہجرت کرکے راولپنڈی بس جانے والے رشید امجد اپنی زندگی کے آخری لمحات تک ’ست رنگے پرندے‘ کے تعاقب میں رہے، لکھتے رہے اور زندگی کو معنویت عطا کرتے رہے۔ یوں وہ اردو ادب کا ایسا نام ہو گئے ہیں جن کے تذکرے کے بغیر اس کی تاریخ مکمل نہیں ہو پائے گی۔