ملتان کے حلقوں میں آج کل یہ سوال بڑی تسلسل کے ساتھ زیرگردش ہے کہ سابق وزیراعظم سیدیوسف رضا گیلانی کی سیاسی وراثت کیا ان کے بیٹوں میں منتقل ہوئی ہے یا وہ اس سیاسی سوجھ بوجھ سے عاری ہیں ،جو ان کے والد اور دادا سید علمدار حسین گیلانی کی میراث ہے، مثلاً اس بار سید یوسف رضا گیلانی کی شخصیت کو سب سے بڑا دھچکا اس وقت لگا ،جب ان کے صاحب زادے علی حیدرگیلانی کی ایک مبینہ وڈیو سامنے آئی، جس میں وہ قومی اسمبلی کے ارکان کو سینیٹ انتخابات میں ووٹ ضائع کرنے کا طریقہ سمجھا تے نظر آئے۔
پھر اس طرفہ تماشا یہ کہ فوراً ہی علی حیدرگیلانی نے پریس کانفرنس کرکے اس ملاقات کو تسلیم کیا اور ساتھ ہی اس بارے میں دلائل بھی دیتے رہے کہ ووٹ کو ڈالنے کا طریقہ بتانا اور ضائع ہونے بارے رائے دینا ،کونسا غلط کام ہے، مگر اس ’’حرکت‘‘ کی وجہ سے سید یوسف رضا گیلانی کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ،وہ سب کے سامنے ہے،نہ صرف یہ بلکہ حکومت کے وزیروں اور مشیروں کو یہ کہنے کا بھرپور موقع ملا کہ پی ڈی ایم ووٹوں کی خرید و فروخت میں ملوث ہے اور خاص طور پرسید یوسف رضا گیلانی سینٹر بننے کےلئے کروڑوں روپے خرچ کررہے ہیں ،ایک طرف اس طرح ان کی ساکھ متاثر ہوئی ،تو دوسری طرف تحریک انصاف نے اس وڈیو کی بنیاد پر ان کو نااہل کرانے کے لئے پے درپے کوششوں کا آغاز کردیا۔
الیکشن کمیشن سے رجوع کیا گیا اور ان کے کاغذات کو مسترد کرانے کی کوشش کی گئی، وہاں سے ناکامی ہوئی، تو حلف اٹھانے سے روکنے کے لئے ایک بار پھر الیکشن کمیشن سے رابطہ کیا گیا، وہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھی ،تو چیئرمین سینیٹ کے لئے کاغذات مسترد کرانے کی کوشش کی گئی ،اس ساری صورتحال میں علی حیدر گیلانی کی وہ وڈیو پیچھا کرتی رہی ،جو انتہائی غیر ذمہ دارانہ طریقہ سے معاملات کو دیکھنے اور ان کی نزاکتوں کو سمجھنے سے ناکامی کی وجہ سے بنی ،آج پی ڈی ایم یہ کہتی ہے کہ علی حیدر گیلانی کو ٹریپ کیا گیا اور تحریک انصاف کے پلانٹڈ ایم این ایز تھے۔
جنہوں نے علی حیدر گیلانی سے گفتگو کی او رخفیہ طورپراس کی وڈیو بھی بنالی، مگر سوال پھر وہی ہے کہ ایسے حساس اور نازک موقع پر علی حیدر گیلانی نے اپنے والد سے مشورہ کیوں نہیں کیا اور کیوں اتنی بے احتیاطی کے ساتھ اتنا بڑا قدم اٹھایا ،جو ان کی ساکھ کے لئے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن گیا لیکن یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ گیلانی خاندان کی نئی نسل کے یہ سپوت اس کے لئے سیاسی ندامت کا باعث بنے ،قارئین کو علی موسی ٰ گیلانی کا وہ ایفی ڈرین کیس بھی یاد ہوگا، جس سے گیلانی خاندان کو ایک بڑا دھچکا بھی پہنچا،یہ تو کل ہی کی بات ہے کہ ملتان میں پی ڈی ایم کا جلسہ روکنے کے لئے انتظامیہ نےجو پابندیاں عائد کیں۔
انہیں علی قاسم گیلانی اور علی موسیٰ گیلانی نے کارکنوں کے ہجوم کے ساتھ تہہ وبالا کیا ،سٹیڈیم کے تالے توڑے ،گیٹ توڑے اور قاسم باغ سٹیڈیم میں موجود انتظامیہ کی تمام رکاوٹیں بھی اکھاڑ کررکھ دیں ،جس کے بعد علی قاسم گیلانی کو گرفتار بھی کیا گیا ،جسے بڑی مہارت سے پیپلزپارٹی نے ہیرو بنانے کی کوشش کی ،مگر وہ یہ بھول گئے کہ پیپلزپارٹی کی چئیرپرسن بے نظیر بھٹو نے کبھی اس قسم کی قانون شکنی کا راستہ اختیار نہیں کیا ،وہ ہمیشہ قانون کے احترام کا درس دیتی رہیں ،لیکن ملتان میں گیلانی خاندان کے یہ جذباتی چشم وچراغ ’’مولا جٹ‘‘ بن کر قانون کی رکاوٹوں کو ٹھوکر مارتے رہے ،جسے ملتان کی عوام نے عمومی طور پر غیردانشمندانہ اور غیر سیاسی قرار دیا لیکن اب سب سے بڑا نقصان سینیٹ انتخابا ت کے موقع پر علی حیدرگیلانی کی اس وڈیو نے پہنچایا۔
اس کے بعد اگرچہ سید یوسف رضا گیلانی سینٹر منتخب ہوگئے ،مگریہ وڈیو ایک آسیب بن کر مسلط رہی۔ملتان میں گیلانی خاندان کا سیاسی اثرورسوخ سید یوسف رضا گیلانی تک محدود ہوتا جارہا ہےاور ان سے آگے وہ سیاسی میراث منتقل ہوتی نظر نہیں آرہی ،جو اس خاندان کا وطیرہ رہی ہے ،بلکہ یوں لگتا ہے کہ گیلانی خاندان کے یہ نئے کھلاڑی ان سیاسی قواعد وضوابط اور اقدار سے نابلد ہیں ،جو کسی بھی خاندان کی سیاسی وراثت کا سب سے اہم جزو ہوتے ہیں۔
جہاں تک چئیرمین سینیٹ کے انتخا ب میں سید یوسف رضا گیلانی کی شکست کا تعلق ہے ،تو اس پر ملتان کے سیاسی و عوامی حلقے خاصی حیرانی کا اظہار کرتے پائے گئے ،کیونکہ آج تک کسی امیدوار کے خانے میں کہیں بھی لگی ہوئی مہرکو اس کا ووٹ تصورکیا جاتا رہا ہے ،مگر اس بار سید یوسف رضا گیلانی کے جو سات ووٹ مسترد کئے گئے ہیں وہ ان کے اپنے خانہ میں مہر ہونے کے باوجود ان کے تصور نہ کئے گئے اور یوں ایک نئی روایت قائم ہوگئی۔
یہ معاملہ اب عدالتیں حل کریں گی ،مگر یہ سوال جو،اب زیادہ شدت کے ساتھ ابھر رہاہے کہ کیا ہمارا نظام انتخاب اسی طرح بے اعتباری اور ابہام کی زد میں رہے گا ؟کیا ہر سطح کے انتخابات اسی طرح متنازعہ ہوتے رہیں گے ؟ کیا ہم کبھی کوئی ایسا نظام وضع نہیں کرپائیں گے ،جو انتخابی نتیجہ کو کسی شک و شبہ کے بالا ہوکر عوام کو یقین دلائے کہ انتخابات طے شدہ اصولوں اور معیار پر ہوئے ہیں ؟
اس بارے میں اگر سیاستدانوں نے کوئی مشترکہ لائحہ عمل تیارنہ کیا اور اسی طرح ایک دوسرے کے خلاف لڑتے جھگڑتے رہے ،تو نہ صرف نچلی سطح کے انتخابات، بلکہ چیئرمین سینیٹ ،اسپیکر قومی اسمبلی اور دیگر اعلی ٰ عہدوں کے انتخابات بھی مشکوک و تنازعات کا شکار ہوتے رہیں گے۔یوسف رضا گیلانی کی شکست نے پی ڈی ایم کو بھی خاصہ مایوس کیا ہے اور دوسری طرف یہ احساس دلایا ہے کہ اگر چھوٹی چھوٹی باتوں و مفادات کے لئے اسی طرح ایک دوسرے کی جڑیں کاٹی جاتی رہیں ،تو کوئی بڑا مقصد حاصل نہیں کیا جاسکے گا۔