چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخابات اختتام پذیر ہو چکے ہیں تاہم اپنے پیچھے بہت سے سوال چھوڑ گئے ہیں ان انتخابات نے جمہوریت کونقصان سے دوچار کیا ہے سیاسی جماعتوں میں تلخیاں اور کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق وزیراعظم کے قومی اسمبلی سے اتحاد کا ووٹ حاصل کرنے اور حکومت کا سینیٹ کے چیئرمین اورڈپٹی چیئرمین کا انتخاب جیتنے کے باوجود سیاسی عدم استحکام برقرار ہے جبکہ ان انتخابات نے پی ڈی ایم کی جماعتوں کے درمیان اعتماد،بھروسے کی کمی اور ایک بیچ پر نا ہونے پرمہر ثبت کردی ہے۔ سندھ میں ان انتخابات میں سب سے زیادہ تلخی پیداکی ہے۔
حیدرآباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کا دن جمہوریت کے لئے بہت ہی افسوس ناک دن تھا، میرے نزدیک یوسف رضا گیلانی الیکشن جیت گئے ہیں۔ ناصر حسین شاہ نے لکھا ہوا اسکرپٹ پڑھ کر سنایا اسکرپٹ انہوں نے لکھا تھا جنہوں نے پولنگ بوتھ میں کیمرے لگائے۔
پی پی پی نے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کوعدالت میں چیلنج کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے تاہم چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے پریزائیڈنگ آفیسر فنکشنل لیگ کے رہنما سید مظفر حسین شاہ کا موقف ہے کہ پی پی پی چوری اپنے گھر سے تلاش کرے، اپوزیشن کے 7لوگوں نے دانستہ ووٹ ضائع کئے، بحیثیت پریزائیڈنگ آفیسر صاف الیکشن کرانے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہاکہ جو 7ووٹ ضائع کئے گئے تھے وہی ڈپٹی چیئرمین کو مل گئے، حفیظ شیخ کے الیکشن میں سات ووٹ ضائع ہوئے، سندھ میں جی ڈی اے کے صدرالدین شاہ کے بھی سات ووٹ ضائع کئے گئے اور صوبائی الیکشن کمشنر نے کہاکہ صدرالدین کے نام پر اسٹیمپ لگائی گئی ہے، یہ ووٹ مسترد شدہ ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ کی کارروائی کسی کورٹ میں چیلنج نہیں ہوسکتی، آئین میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔ سینیٹ انتخاب کے نتائج کے بعد پی پی پی نے جارحانہ رویہ اختیار کررکھا ہے۔
سینیٹ کے انتخاب کے بعد پی ڈی ایم دب گئی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس ہار نے پی ڈی ایم کے اندر اختلافات کے بیچ بو دیئے ہیں، جس کا ایک اظہار طلال چوہدری کا ٹویٹ اور پھر بلاول بھٹو کا جواب ہے۔ نون لیگ اور مولانا اس نظام کے اندر رہتے ہوئے تبدیلی کی کوششوں کے پیپلزپارٹی کے نظریے سے اتفاق نہیں کرتے اور اس ہار نے پیپلزپارٹی کی اس پوزیشن کو کمزور بھی کردیا ہے۔
اگر تو عدالت سے پیپلزپارٹی کو ریلیف مل جاتا ہے جیسا کہ ان کا خیال ہےتوپھر ان کا یہ موقف مزید تقویت پکڑے گا کہ سسٹم کے اندر رہتے ہوئےیہ جنگ جیتی جاسکتی ہے، لیکن اس حوالے سے ان کے پاس وقت کی کمی ہے کیونکہ لانگ مارچ سرپر آرہا ہے اور مولانا، نواز شریف یہ بات جانتے ہیں کہ ایک خالی خولی لانگ مارچ سے کچھ حاصل نہیں ہونا والا ہے۔ پی ڈی ایم کے اندر اب جس ہتھیار پر شدومد کے ساتھ بحث متوقع ہے وہ استعفے کے ممکنہ مقام کے نکات ہیں۔
پیپلزپارٹی ان دونوں باتوں پر ایک مختلف سوچ رکھتی ہے۔ آنے والے دنوں میں پیپلزپارٹی کو اپنی پوزیشن واضح کرنا ہوگی، ورنہ بادی النظر میں وہ بات درست ثابت ہوتی نظرآتی ہے کہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم اور سیاسی قوت کو استعمال کرکے پیپلزپارٹی نے اپنا الوسیدھا کیا اور سیاسی فائدے بھی اٹھا لیے ہیں۔ ادھر کراچی کے حلقے این اے 249سے 60سے زیادہ امیدواروں نے کاغذات نامزدگی حاصل کر لیے ہیں جن میں تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتوں کے امیدوار شامل ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ اس سیٹ پر 29اپریل کو پی ٹی آئی کا مقابلہ پی ڈی ایم کرتی ہے یا پھر پی ڈی ایم کی جماعتیں علیحدہ علیحدہ انتخاب میں حصہ لیتی ہے۔
دوسری جانب کراچی سمیت سندھ میں کوویڈ 19کی تیسری لہر سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر حفاظتی اقدامات شروع کر دیے گئے، صوبائی محکمہ صحت نے کراچی سمیت سندھ بھر کے محکمہ صحت کے افسران سے ضلعی اسپتالوں اور صحت کے مراکز سے بستروں کی تعداد بھی طلب کرلی گئی، معلوم ہوا ہے کہ کوویڈ19 کی تیسری لہر میں اس بات کی تصدیق کی جاری ہے۔
ادھر محکمہ صحت کراچی کا کہنا ہے کہ کوویڈ19 کی تیسری ممکنہ لہر کے حوالے سے تمام حفاظتی اقدامات کا ازسرنو جائزہ لیا جارہا ہے تاہم سندھ میں ابھی تک کوویڈ19 وائرس کی تیسری لہر کے شواہد نہیں تاہم گزشتہ دس دن کے دوران کراچی میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، پاکستان میں کوویڈ کی پہلی لہر دوسری لہر کے مقابلے میں زیادہ تیزرہی جبکہ تیسری لہر پچھلی دو لہروں سے زیادہ تیز ہے، پاکستان میں کوویڈ19 وائرس کی تیسری لہر کی اہم وجہ سرحدی بارڈر، ایئرپورٹس اور بندرگاہؤں پر چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ بتائی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ صوبائی صحت نے کراچی میں برطانیہ وائرس کی کراچی میں تصدیق کی تھی اور اس وائرس سے متاثرہ کئی مریض کراچی کی ایک نجی اسپتال میں زیرعلاج بھی رہے تھے، یہ برطانیہ وائرس کے اقسام میں سے ایک وائرس ہے، اس وائرس میں تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت موجود ہے، پاکستان انفیکشن کنٹرول سوسائٹی کے جاری اعدادوشمار میں یہ بھی بتایاگیا ہے کہ ملک میں جاری مختلف تقریبات میں ایس او پی کی خلاف ورزی جاری ہے لوگ ہاتھ ملانے اور سماجی دوری برقرار نہیں رکھ رہے جس کی وجہ سے یہ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔
اگر وائرس پھیلتا ہے تو پھر سندھ حکومت کے لیے لاک ڈاؤن لگانا اور اسکولوںکوایک بار پھر بند کرنے جیسے مشکل فیصلے لینے ہوں گے جس کے سبب بے روزگاری، مہنگائی بڑھے گی اور تعلیم کانقصان ہوگا۔ ادھرپاکستان تحریک انصاف نے سینیٹ انتخابات میں پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر رکن سندھ اسمبلی اسلم ابڑواور شہریارشر کو پارٹی سے نکال دیا ہے ۔ یہ اقدام سینیٹ الیکشن میں مبینہ طور پر ووٹ بیچنے کی بنیاد پر کیا گیا ہے پی ٹی آئی نے دونوں کی اسمبلی رکنیت ختم کرانے کے لئے الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔