ہندوستان میں اردو اور ہندی کے علاوہ دیگر مقامی زبانوں میں بھی بے پناہ عمدہ ادب تخلیق ہوا ہے۔ ان مقامی زبانوں میں پنجابی زبان کو بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جہاں شعر و ادب اور فلمی صنعت کے شعبہ میں ایک عرصے سے متاثر کن تخلیقات لکھی اور فلمائی جا رہی ہیں۔ بھارتی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایسے ہی ایک ادیب ، جن کا نام’’گوردیال سنگھ‘‘ ہیں، ان کے لکھے پنجابی ناولوں کو بہت شہرت ملی اور فلمی صنعت میں بھی ان سے خوب استفادہ کیا گیا۔
پنجابی زبان کے یہ معروف ناول نگار’’گوردیال سنگھ‘‘ ہندوستانی پنجاب میں، بھتینڈا، فرید کوٹ کے نواحی گائوں میں آنکھ کھولی اور ایک غریب گھرانے میں پرورش پائی۔ والد ترکھان کا کام کرتے تھے، کم عمری میں گھر کے معاشی حالات کی بہتری کی غرض سے والد کے کام میں ہاتھ بٹایا۔ ان کی زندگی میں یہ دور سخت جدوجہد کا تھا، جب سانس کا جسم سے تعلق برقرار رکھنے کے لیے باپ بیٹا سخت محنت کرتے تھے۔ کم عمری میں ہی ان کی شادی بھی ہوگئی، لیکن انہوں نے دل لگا کر پڑھائی کی اور اپنے تعلیمی سلسلے کو کسی نہ کسی طرح جاری رکھا، آخر کار ماسٹرز کاامتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا۔ زمانہ طالب علمی ہی میں اپنے اندر کے تخلیق کار کو دریافت کیا، پھر اس شناخت کو قائم رکھنے کے تمام عمر سرگرم رہے۔ 1933 میں جنم لینے والے اس ادیب نے 83 برس کی عمر پائی اور 2016 میں ان کا انتقال ہوا۔
گوردیال سنگھ نے پچاس کی دہائی میں، پنجابی زبان میںافسانہ نگاری سے ابتدا کی، لیکن ناول نگاری سے شہرت ملی۔ 1964 میںان کے پنجابی ناول’’مڑھی دا دیوا‘‘ سے ان کی ادبی شہرت کا چرچا ہوا۔ اس ناول کو انگریزی سمیت کئی دیگر زبانوں میں بھی شائع کیا گیا، اس ناول میں کئی کرداروں کا تعلق ان کی اپنی ذاتی زندگی سے بھی تھا۔ انہوں نے کل نو ناول لکھے، جبکہ ان کے گیارہ افسانوی مجموعے شائع ہوئے۔ بچوں کے لیے بھی ادب تخلیق کیا اور اپنی خودنوشت بھی دو حصوں میں قلم بند کی۔ عالمی ادب میں ان کو لیوٹالسٹائی، آئرن اسٹون، جان اسٹین بیک، پنیشورناتھ رینو، منشی پریم چند اور دیگرپسندیدہ رہے۔ پنجاب کے ادب میں شاندار خدمات فراہم کرنے پر ان کو معروف ہندوستانی اعزاز پدما شری سمیت متعدد بڑے اعزازات سے بھی نوازا گیا، ان کی کئی کتابوں کے انگریزی تراجم ہوئے اور ان پر فلمیں بھی بنیں۔
گوردیال سنگھ کی کہانیوں میں پنجاب کی ثقافت، سماج، رسم و رواج اور دکھ سکھ کی تصویریں جابجا بکھری ہوئی ہیں، جن میں دیہی پنجاب کی حقیقی زندگی کو قریب سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کے مشہورِ زمانہ ناول’’اَنّے گھوڑے دا دان‘‘ یعنی اندھے گھوڑے کے لیے خیرات کے معنوں میں فلم بنائی گئی، جس کو ہندوستانی اور پنجابی فلمی صنعت میں آرٹ فلم کا درجہ دیا گیا، یہ فلم جنوبی کوریاکے مشہور فلمی میلے’’بوسان‘‘ میں بھی دکھائی گئی، اس کی ریلیز کا سال 2011 ہے، جب یہ فلم نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ اسی ناول کے نام پر فلم کا نام رکھا گیا ہے، جو 1976 میں اشاعت پذیر ہوا تھا۔
اس ناول کی کہانی اور فلم کااسکرپٹ بھی مساوی ہے، بلکہ فلم میں مکالمے کم اور منظرنامہ دکھائے جانے کا کام لیا گیا ہے، جس سے فلم کی تخلیقی معنویت مزید گہری ہوگئی ہے۔ اس فلم کا عنوان ہندو دیومالائی داستانوں سے ماخوذ ہے۔ اس انداز کی فلم سازی میں عالمی سینما کے معیار اور اصولوں کا خیال رکھا گیا ہے، بالی ووڈ طرز کی یا روایتی پنجابی فلموں سے یہ فلم بالکل مختلف ہے، جس پر فلم کے ہدایت کار’’گورویندر سنگھ‘‘ تعریف کیے جانے کے قابل ہیں، کس طرح استعاراتی انداز میں ناول کو اسکرین کے پردے پر اتارا ہے۔
فنکاروں نے بھی اپنی اداکاری سے فلم بینوں کے دل موہ لیے، یوں اس فلم نے کئی اعزازات بھی اپنے نام کیے اور کئی مغربی ممالک کے فلمی میلوں میں بھی اس نے فلم بینوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کی۔ اس فلم کو جنوبی پنجاب کے ایک معروف علاقہ’’بھٹینڈا‘‘ کے مضافات میں فلمایا گیا، یہ منظرنامہ جو ناول نگار گوردیال سنگھ کے آبائی علاقہ اورناول کی کہانی سے مماثلت رکھتا ہے۔ یقینی طور پر یہ احساس ، اس تخلیق کار کے لیے بہت دلکش ہوگا۔ یہ فلم پنجاب میں کسانوں کے مسائل اور ان کی حالت زار کی عکاسی کرتی ہے۔
ناول اور فلم کے مرکزی خیال کے مطابق کسانوں کے استحصال کی منظرکشی کی گئی ہے۔ موجودہ صورتحال میں اس وقت بھی ہندوستان میں کسانوں کی تحریک اپنے زوروں پر ہے، اس تناظر میں یہ فلم موجودہ صورتحال سے بھی منسلک ہے۔ اس طرح کی فلمیں بتاتی ہیں کہ انڈیا میں اقلیتوں کے ساتھ کس طرح نارواسلوک رکھا جاتا ہے اور ان کی معاشی و سماجی حق تلفی کی جاتی ہے۔ یہ کہانی اسی دکھ اور دھوکے کو بیان کرتی ہے۔
پنجابی سینما میں شاہکار ادب پڑھنا چاہتے ہیں اور اس پرمقامی زبان میں بنی آرٹ فلم دیکھنا چاہتے ہیں، تو یہ ناول اور فلم آپ کے لیے دلچسپی کا باعث ہوسکتی ہے، جس میں خاموشی کی زبان میں سماجی ناانصافی، ناہمواری اور عدم مساوات کا دُکھ مسلسل بول رہا ہے، جس طرح ان دنوں انڈیا میں پنجابی کسان مظالم سہہ رہے ہیں، ایسے ہی ایک ظلم کی داستان کئی دہائیاں پہلے لکھ دی گئی تھی، جس کوآج کے ہندوستانی کسانوں کی حالت زار سے جوڑ کردیکھا جاسکتا ہے۔