جموں وکشمیر کے عوام اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہے ہیں اور وہ اپنی آزادی اور حق خودارادیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ مسئلہ کشمیر ایک بین الاقوامی تنازعہ ہے جو اقوام متحدہ میں ایک حل طلب مسئلے کے طور پر موجود ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کا معاہدہ مسئلہ کشمیر کو سردخانے میں ڈالنے کا پیش خیمہ ثابت ہو گا اس معاہدے کا مقصد لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کو کم کرنا اور انسانی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے لیکن اس معاہدے سے ماضی میں اور حال میں بھی ہندوستان فائدہ اٹھاے گا مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام نے آزادی اور اپنے پیدائشی حق، حق خودارادیت کے لئے تاریخ کی بے مثال قربانیاں دے کر مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھاجموں وکشمیر کے عوام تمام تر مشکلات کے باوجود اپنی تحریک آزادی کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے پرعزم ہیں کشمیریوں کی جدوجہد، اُن کی قربانیوں اور کشمیری عوام کے ہمدردوں اور بہی خواہ افراد کی کوششوں سے تنازعہ کشمیر کی گونج آج دنیا کی بڑی بڑی پارلیمانز میں سنائی دے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج برطانیہ، یورپ اور آسیان ممالک کی پارلیمانز کے علاوہ امریکی کانگریس میں بھی تنازعہ کشمیر اور کشمیریوں کے حقوق پر پُرزور انداز میں بات ہو رہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا اب اس مسئلہ کو بھارت کی نظر سے نہیں بلکہ حقائق کی نظر سے دیکھ رہی ہے بھارت مقبوضہ کشمیر میں غیر کشمیری بھارتی شہریوں کو آباد کر کے ریاست پر اپنے غیر قانونی قبضہ کو دوام دینے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے جس کا کشمیری پوری جرات اور بہادری سے مقابلہ کریں گے اور اسے ناکام بنائیں گے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر مزید اُجاگر کرنے کے لئے اپنی کوششوں کو تیز کرنا ہو گابھارت کی موجودہ حکومت کی حماقتوں سے کشمیریوں کو مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اُجاگر کرنے کا ایک نادر موقع ملا ہے جس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔
آزاد کشمیر حکومت کے کردار کو تسلیم کیے بغیر مسلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر مثبت طور پر اجاگر نہیں کیا جا سکتا حق خودارادیت کشمیری عوام کا بنیادی و پیدائشی حق ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت اُن سے نہیں چھین سکتی تحریک آزادی کشمیر تمام تر مشکلات کے باوجود جاری رہے گی کیونکہ جموں وکشمیر میں بسنے والے تمام مذاہب کے ماننے والوں کا یہ خیال ہے کہ تنازعہ کشمیر کا کوئی حل ضرور نکلنا چاہیےتنازعہ کشمیر کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے یا ہمیشہ کی طرح محض وقت حاصل کرنے کے لئے بات چیت کو ایک حربے کے طور پر استعمال کر رہا ہےامریکہ کی نئی انتظامیہ سے بڑی توقعات وابستہ ہیں کیونکہ ہمیں امید ہے کہ امریکی صدر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو متحرک کرنے کے علاوہ بھارت حکومت پر دباؤ ڈال کر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو رکوانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
ہندوستان حکومت نے ریاست میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کیلیے 5اگست2019سے اب تک مقبوضہ جموں وکشمیر میں 33لاکھ8ہزار ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ جاری کئے ہیں اور ا جنس طرح مقبوضہ جموں وکشمیر کی کل آبادی کے تقریبا 30فیصد غیر ریاستی افراد کو مقبوضہ جموں وکشمیر کی شہریت دیتے ہوئے ریاست میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کا ایک بڑا قدم اٹھایا گیا ہے۔مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ جی کشن ریڈی نے ایک سوال کے تحریری جواب میں لوک سبھا کو بتایا کہ حکومت جموں وکشمیر نے اطلاع دی ہے کہ 25 جنوری 2021 تک جموں وکشمیر میں کل 33لاکھ 80ہزار 234ڈومیسائل سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے ہیں( یعنی اتنے افراد کو مقبوضہ ریاست کی شہریت دی گئی ہے)۔
ریڈی نے مزید بتایا کہ اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے اور جموں و کشمیر کو مرکزی خطوں میں تقسیم کرنے کے بعد سے اب تک 54 عسکریت پسندوں کے حملوں میں 58 شہری اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔صدر آزاد جموں و کشمیر سردار مسعود خان نے پاکستان اور بیرون ملک مقیم قانون دانوں، تحقیق کاروں، بار ایسوسی ایشنز اور بار کونسلوں سے اپیل کی کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی اور وہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر بھارتی حکومت کے خلاف بین الاقوامی سطح پر قانونی چارہ جوئی کے لیے سفارشات تیار کریں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ کر رہا ہے وہ نہ صرف نسل کشی کنونشن کی آرٹیکل دو کی خلاف ورزی ہے۔
جن میں کسی بھی مقبوضہ علاقے کی آبادی میں ردوبدل کی ممانعت ہےبھارت اسرائیل کی طرز پر مقبوضہ کشمیر میں غیر کشمیریوں کی آباد کاری کے مذموم منصوبے پر عمل کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی 68 فیصد آبادی کو کم کر کے اسے ہندو اکثریتی ریاست بنانے کے لیے تیزی سے اقدامات کر رہا ہے اور اس مقصد کے لیے گزشتہ سال اپریل میں ڈومیسائل قوانین میں تبدیلی کے بعد 32 لاکھ سے زیادہ غیر کشمیری ہندوؤں کو ڈومیسائل جاری کر کے ان کی مقبوضہ ریاست میں آباد کاری کے منصوبے کی راہ ہموار کر چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 32 لاکھ بھارتی شہریوں کو مقبوضہ کشمیر کا ڈومیسائل جاری کرنے کا اعتراف بھارت کے وزیر مملکت برائے امور داخلہ جی کشن ریڈی بھی کر چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے دو ماہرین فرنینڈ ورننس اور احمد شہید کے ایک مشترکہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ عالمی ادارے کے دونوں ماہرین نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں زبان، مذہب اور نسل کی بنیاد پر غیر کشمیری افراد کو ڈومیسائل جاری کر کے آبادی کے تناسب میں تبدیلی کا عمل جاری ہے جو نہایت تشویش ناک بات ہے۔ صدر نے کہا کہ اقوام متحدہ کے ماہرین نے آبادی کے تناسب میں تبدیلی کے عمل کو اقلیتوں کے حقوق کے لیے تشویشناک قرار دیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمان اقلیت میں نہیں بلکہ اکثریت میں ہیں جن کی اکثریت کو ختم کرنے کی بھارت سازش کر رہا ہے۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ بھارت میں ہندو توا نظریہ کی پرچارک بی جے پی۔
آر ایس ایس حکومت کے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے غیر قانونی اقدامات پر بھارت کے خلاف مضبوط کیس تیار کر کے بین الاقوامی سطح پر اس کی انسانیت کے خلاف جرائم کو بے نقاب کیا جائے اور اسے مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے مقبوضہ کشمیر کی نازک صورتحال پر پاکستان اور آزاکشمیر میں سنجیدہ نہیں لیا جارہا ہے ادھر اقتدار کی جنگ میں روز بروز شدت آرہی ہے گلگت بلتستان فتح کرنے کے بعد آزادکشمیر فتح کرنے کی جدوجہد شروع ہے۔