حسینہ معین خوش قسمت تھیں کہ شہزاد خلیل، شعیب منصور، ساحرہ کاظمی، محسن علی، شیریں عظیم اور ایم ظہیر خان جیسے ڈائریکٹرز انہیں ملے۔ ڈائریکٹر کا کمال تو ماننا پڑے گا، ورنہ کمزور ڈائریکٹر عمدہ اسکرپٹ کا بیڑا غرق کرسکتا ہے۔ حسینہ نے لکھنا چھوڑا تھا یا لکھنا چھوٹ گیا تھا؟ یہ ایک بہت اہم سوال ہے، کیوں کہ یہ سوال صرف حسینہ معین کے لیے نہیں، بلکہ انور مقصود، نورالہدیٰ شاہ، یونس جاوید، مستنصر حسین تارڑ، اسد محمد خان، امجد اسلام امجد، اصغر ندیم سید کے لیے بھی ہے۔
آج کے زمانے کا ڈراما تعداد میں زیادہ ہے، لوگ دیکھتے ہیں اور بھول جاتے ہیں،نیا ڈراما آتا ہے، اسے دیکھتے ہیں، مگر دوبارہ اسے یو ٹیوب پر دیکھنا نہیں چاہتے۔ اس کے باوجود دیواریں، جنگل، وارث، نشیمن، ان کہی، پیاس، دھوپ کنارے، پرچھائیاں، خدا کی بستی، الف نون، سمندر، سونا چاندی، تعلیم بالغان، اندھیرا اجالا، لوگ بار بار دیکھنا چاہتے ہیں، ہر بار ان ڈراموں کو دیکھ کر اچھا لگتا ہے۔ ان ڈراموں کا میوزک، ڈائریکشن، فن کاروں کا انتخاب، اسکرپٹ سب کچھ اتنا اچھا ہے کہ لوگ یاد رکھتے ہیں، لیکن کب تک یہی پُرانے ڈرامے دیکھ کر ہم آہیں بھرتے رہیں گے؟
کیا جدید ڈراما بھی اپنی کوئی وقعت اور مقام بناسکتا ہے؟ کیا پُرانے لکھاری اس کو اس کا کھویا مقام دلا سکتے ہیں یا پھر نئے لکھاریوں کو انداز بدلنا ہوگا؟ ہمیں اب سوچنا ہوگا۔کیا مارکیٹنگ کے حضرات کم وقت میں زیادہ پیسہ کمانے، گلیمر کو پروموٹ کرنے، مکالموں میں اعتدال سے گزرنے، کہانی میں اخلاقی روایات کو پامال کرنے اور موضوعات کے چنائو میں حیا سے ماورا ڈرامے پیش کرنے کے ذمے دار ہیں؟
یہ سب سوالات ہمارے ذہن میں کلبلاتے رہتے ہیں۔ رمضان المبارک کی خصوصی نشریات ایک بہت کمرشل آئٹم ہے، اس کے لیے میزبان کا انتخاب مارکیٹنگ والے ہی کرتے ہیں کہ کس کو سائن کریں، جس سے ریٹنگ ملے، اب چاہے وہ کوئی ماڈل ہو، ادائیں لٹانے و الی اداکارہ ہو، دل فریب مسکراہٹیں بکھیرنے و الا کوئی کامیڈین ہو، گیم شو میں اچھل کُود کرنے والا کھلنڈرا سا نوجوان ہو یا ناچنے گانے والا گلوکار ہو، کوئی بھی ہو چلے گا۔ یہ عاقل، فائق، معتدل، بردباری اور تہذیب وغیرہ اب ڈکشنری میں ڈھونڈیں، ٹیلی ویژن اسکرین پر صرف وہ چکے گا، جو مارکٹنگ کے اصولوں کے عین مطابق ہو۔
پہلے مارننگ شوز میں سرکس لگتا تھا، اس سے جان چھوٹی، تو گیم شوز آگئے اور ایسے آئے کہ رمضان میں بھی یہی چھاگئے۔ اچھا ہے افطار کے بعد لوگوں میں پھینک پھینک کر تحائف تقسیم کریں اور اشتہارات کی مد میں کروڑوں کمائیں اور تو اور ایک چینل نے تو رمضان کی نشریات کے لیے ایسی فن کارہ کو سائن کرلیاتھا، جس نے کچھ عرصے قبل ایک غیر ملکی رسالے کے لیے قابل اعتراض تصاویر بنوائی تھیں، ان کے پرومو چلے تو معلوم ہوا کہ وہ لوگوں کو دین کی طرف بلارہی تھیں اور آنکھوں میں آنسو بھر کے عبادتوں کا ذکر کررہی تھیں۔ جانے، کیا سوچ کر وہ آئیڈیا ڈراپ کردیا گیا اور کسی اور اداکارہ کو سائن کرلیا گیا۔
ہم ذاتی طور پر کسی کے خلاف نہیں، جس کی جو مرضی کرے، جسے چاہے سائن کرے، جس سے چاہے جوکروائے ہمیں کیا، ہمیں تو صرف یہ پوچھنا ہے کہ کیا ان سب باتوں سے چینل والوں کو مطلوبہ اہداف حاصل ہوگئے؟ کیا ان کے مالکان کی جیبیں بھر گئیں؟ کیا کوالٹی، معیار، میرٹ، اخلاقیات وغیرہ اب کہیں ہیں یا نہیں؟
ہمیں تو وہ وقت یاد آتا ہے، جب نوید شہزاد، مہتاب راشدی، خوش بخت شجاعت، فرحانہ اویس، طارق عزیز، لئیق احمد، قریش پُور، یہ سب لوگ میزبان ہوا کرتے تھے۔ ایسا نہیں کہ ہم ماضی میں رہتے ہیں، ہم تو معین اختر، دلدار پرویزبھٹی، نعیم بخاری، بشریٰ انصاری، انور مقصود کے بھی مداح ہیں۔ یہ سب بڑے نام ہیں، جو انٹرٹینمنٹ کے ساتھ ساتھ سنجیدگی اور ذمے داری کوبھی سمجھتے تھے۔
ہم تو نورالہدیٰ شاہ کی تحریروں کو ترس رہے ہیں۔ کیسے مشکل دور میں انہوں نے ’’تپش‘‘ اور ’’عجائب خانہ‘‘ لکھا، جب پابندیوں کے باوجود اپنی بات کو سلیقہ سے کہنا اور کہانی کو ٹریٹمنٹ کے ذریعے بیان کرنا ہم نے نورالہدیٰ شاہ سے سیکھا۔ تپش میں روبینہ اشرف، جمال شاہ، خالد انعم، ثانیہ سعید، شفیع محمد شاہ نے کمال کی اداکاری کی تھی، ساحرہ کاظمی کی ڈائریکشن نے اس میں چار چاند لگائے تھے۔ مشکل ترین بات کوآسانی سے ٹی وی پر دکھانا اتنا آسان نہ تھا۔
فیملی چینل کا تصور اس وقت موجود تھا، یہی وجہ ہے کہ عجائب خانہ بھی سپر ہٹ ہوا۔ اس کے علاوہ نورالہدیٰ شاہ نے سندھ میں صدیوں پرانی فرسودہ روایات کا شکار لڑکیوں کے مسائل پر بھی قدم اٹھایا۔ ہم نے ان کے لکھے ڈرامے ’’کاری‘‘ میں کام کیاتھا، جس میں یاسر نواز، قیصر نقوی اور انور اقبال نے بھی ہمارے ساتھ کاسٹ میں شامل تھے۔ نورالہدیٰ شاہ کا قلم آج بھی زور پرہے، ان کے بلاگ ہم پڑھتے ہیں، پھر کیوں ان کے لکھے ڈرامے ٹی وی پر نظر نہیں آرہے۔
حسینہ معین جیسا نام جن کا اسکرپٹ ساجد حسن لے کر گھومتے رہے کہ کسی چینل پر بات ہوجائے، مگر بات نہ بنی، اف اتنی تکلیف دہ بات ہے یہ۔ یہ انکشاف تو ساجد حسن نے حسینہ معین کی یاد میں منعقدہ تعزیتی ریفرنس میں کیا، جس سے ہمیں معلوم ہوا کہ حسینہ تو لکھنا چاہتی تھیں، لیکن شاید وہ سب نہ لکھ پائیں، جو آج مارکیٹنگ والے چاہتے ہیں۔ انور مقصود جیسا رائٹر جس نے ہاف پلیٹ، آنگن ٹیڑھا، افسوس حاصل کا، اور بے شمار ڈرامے لکھے ان کے تحریر کردہ ڈرامے بھی کسی چینل کی زینت نہیں بنتے۔
کیا ہوگیا ہے؟ ایسا کیوں ہے؟ اشفاق احمد، بانو قدسیہ، حمید کاشمیری، منو بھائی اور فاطمہ ثریابجیا تو نہ رہے، لیکن جو لوگ ابھی حیات ہیں، ان سے تو استفادہ کریں۔ ’’اندھیرا اجالا‘‘ کے خالق یونس جاوید کی کوئی تحریر، امجد اسلام امجد کی تحریر یا پھر انور مقصود کی تحریر شاید ڈرامے کو دوبارہ وہ مقام دلادے جو کبھی اس کا ہوا کرتاتھا۔