انیلہ افضال
اولاد کی پرورش سے بڑھ کر اس کی تربیت ہوتی ہے، تربیت، جو نسلوں کی پہچان ہوتی ہے اور جس پر قوموں کے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے۔ نسلِ نو کی اصلاح کی جس قدر آج ضرورت ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھی ،آج ہمارے نوجوان برائی پر نادم ہونے کی بجائے فخر کرتے ہیں جو اخلاقی زوال کی انتہا ہے ، نوجوان نسل کو سمت دکھانے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے والدین اپنا کردار ادا کریں۔
اگر ہم انفرادی اور اجتماعی جائزہ لیں تو کوئی بھی شخص اپنا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں۔ پہلے ماں باپ اوربزرگ نوجوان نسل کی تربیت کرتے تھے، لیکن آج یہ کام موبائل اور انٹر نیٹ کے سپرد ہو چکا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بچے والدین اور بزرگوں کا احترام نہیں کرتے۔ اُنہیں ملک سے محبت ، اخلاقیات اور قوانین سے آگاہی کا درس دینا ضروری ہوگیاہے۔ یہ ملک و ملت کا قیمتی سرمایہ ہیں ۔ قوم کی ساری امیدیں انہیں سے وابستہ ہوتی ہیں۔ اب تک دنیا کی ہر تحریک نوجوان ہی کی جدوجہد سے کامیاب ہوئی ہے۔
ہر معاشرے میں علم و تحقیق اور فکر و آگہی الغرض میدانِ عمل کے لیے شہسواروں کی ضرورت ہے، جو اپنے معاشرہ و ملت کے مستقبل کی قیادت سنبھال کر اقوام عالم میں اپنا نام بلند کرسکیں۔ اس امر میں شک کی گنجائش قطعاً نہیں کہ وطن عزیز میں ایک طویل مدت سے کئی دیگر حساس معاملات کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے مسائل کے حل کے لیے کسی بہتر حکمت ِ عملی اور واضح منصوبہ بندی کی از حد کمی رہی ہے، جس کے باعث وہ اپنی صلاحیتوں کو صحیح معنوں میں استعمال نہیں کر سکے؛ بلکہ اکثر نوجوان، ایسی راہ پر چل نکلے جو نہ صرف ان کی بلکہ ملک و ملت کی بہتری کےلئے کسی طور بھی مناسب نہیں۔
آج کی نوجوان نسل کو کئی اطراف سے ایسے مسائل درپیش ہیں جو ان کی شخصیت اور کردار پر بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ وہ اپنے آباء کے کارناموں سے قطعاً ناواقف ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری نوجوان نسل درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھرہمارا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ ایسے میں وہ یقیناََ جلد ہی ستاروں پر کمندیں ڈال لیں گے۔ لیکن اگر جواب نفی میں ہے تو آنے والا وقت بڑا خوفناک ہے۔ آئیے! ایک نظر نوجوان نسل کے چلن پر ڈالتے ہیں ۔
سب سے پہلے جس عفریت نے نوجوان نسل کو اپنے شکنجے میںجکڑا ہوا ہے، وہ تمباکو نوشی ہے۔ نوجوان بطور فیشن اس عادت بد میں مبتلا ہوکرر اس کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ وطن عزیز میں سگریٹ نوشی پر کوئی چیک اینڈ بیلنس ہی نہیں، حتیٰ کہ اب تو کالجوں میں لڑکیاں بھی بہت تیزی سےاسلت میں مبتلا ہورہی ہیں، اس کی روک تھام کے لیے کام کرنا ہوگا حکومت کو ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگرچہ عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں بھی کی جا رہی ہیں، مگر اصل فقدان تربیت کا ہے، جس کی ابتداء پہلے گھر اور پھر درسگاہوں سے ہوتی ہے۔
دنیا سمٹ کر ہماری ہتھیلی میں آگئی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اس دور کی ٹیکنالوجی کا اصل ہدف بھی نوجوان نسل ہی ہے۔ اب دور جدید میں انٹر نیٹ کے استعمال سے انکار تو نہیں کیا جا سکتا ،مگر نئی نسل کو اس کے منفی اثرات سے بچایا تو جا سکتا ہے۔ انٹرنیٹ استعمال کے ساتھ نوجوان نسل کو سائبر کرائمز سے بچانے کے لئے کوششیں تیز کر دی ہیں۔ سائبر کرائمز سے بچاؤ، متعلقہ قوانین، سزائیں تعلیمی نصاب کا حصہ بنانے کی تجویز پر غور شروع کر دیا گیا ہے۔
موجودہ وبا (کرونا) کے باعث درسگاہوں کے بند ہونے اور آن لائن کلاسز کے اجراء نے والدین کو مجبور کر دیا کہ وہ بچوں کے لیے سمارٹ فون اور لیپ ٹاپ وغیرہ اُن کے ہاتھوں میں دیں۔اس کے کچھ پر منفی نتائج بھی سامنےآ رہے ہیں۔ نوجوان نسل موبائل سے جڑے غلط راستوں پر گامزن ہو رہی ہے۔ ملک کے مستقبل کے روشن ستاروں کو تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔
ہم اس نسل سے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ان میں سے محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، سلطان محمود غزنوی، ٹیپوسلطان جیسے لوگ ابھر کر آئیں گے لیکن اُمید پوری ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ بڑی تعداد میں ایسے نوجوان ہیں جو ڈگریاں تو رکھتے ہیں، مگر ان کے ذہن میں یہ بٹھا دیا گیا ہے، یہاں پیسے والے کی عزت ہے، تو ہم آنے والی نسل سے بہتری کی کیا امید لگا سکتے ہیں۔
کسی بھی نسل میںبگاڑ اس میں اچانک پیدا نہیں ہوا کرتا۔ برائی ہو یا بھلائی، دونوں ایک نسل سے دوسری نسل کو وراثت میں ملا کرتی ہیں۔ لیکن انسان جس قدر ترقی کرتا چلا جارہاہے، اسی قدر وہ خودغرض، مکار، بزدل اور اپنوں سے دور ہوتا چلا جارہا ہے،پھر ایک وقت وہ آتا ہے جب اس کی دنیا صرف اپنے بچوں تک محدود ہوکر رہ جاتی ہے۔ تمام انسانی رشتے اس کے لیے بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں۔
ان عیوب سے صرف وہی لوگ پاک ہوتے ہیں، جنھیں اللہ کا کچھ خوف ہوتا ہے۔ ورنہ ان کے سامنے بس ایک ہی مقصد ہوتا ہے وہ یہ کہ زیادہ سے زیادہ دولت کمائی جائے اور معاشرے میں کروفر کے ساتھ زندگی بسر کی جائے۔اسی کو عقل مندی شمار کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ اگر دولت کمالینا ہی عقلمندی کی دلیل ہے تو رشوت خور، دھوکے باز، فراڈیے، اسمگلر، چور، ڈاکو اور انسانیت کے دوسرے تمام دشمن بھی اس طرح کی عقلمندی کے مظاہرے کرتے رہتے ہیں۔ یہ سب وہ ڈگریاں ہیں جو ہم نے اپنی نئی نسل کو وراثت میں دی ہیں اور نئی نسل بڑی شد مد سے ان میں اضافے کر رہی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہےان کے ذمہ دار کون ہیں ؟ نوجوان نسل ، والدین،اساتذہ یا بگڑتا معاشرہ؟ اکثر اوقات دیکھا جاتا ہے کہ والدین جن برائیوں کو معاشرے میں دیکھتے ہیں ، دوسرے بچوں کو جن برائیوں کا ارتکاب کرتے ہوئے معیوب سمجھتے ہیں ، اگر اْن ہی برائیوں میں خود اپنے بچوں کو ملوث دیکھیں تو اس کا کچھ زیادہ سنجیدگی سے نوٹس نہیںلیتے۔ وہ اپنے بچوں کی غلط عادات کو بےجا لاڈ و پیار کے تحت رعایت تک دے دیتے ہیں۔
ہمیں اچھی طرح سمجھنا چاہئے کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم نے جو کچھ پڑھا ، دیکھا یا سنا ، وہ صرف اْسی محدود وقت کے لئے تھا اور بس ختم۔ ہم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ہم جو کچھ پڑھتے ، دیکھتے یا سنتے ہیں وہ کہیں کھو نہیں جاتا بلکہ ہمارے ذہن کے لاشعور میں محفوظ ہو تا ہے۔ اور پھر بعد میں جو کچھ معلومات ہم اپنے ذہن سے اخذ کرتے ہیں وہ "محفوظ معلومات" کسی نہ کسی طرح سے اظہار کی راہیں تلاش کرتی ہیں۔ یوں ہماری گفتگو ، ہمارے جذبات ، احساسات ، اعمال و معاملات ، غرض ہماری مکمل شخصیت ہوتی ہے یہاں پر وہ محاورہ صادق آتا ہے، کہ "جو بویا ہے وہی کاٹا بھی جائے گا ‘‘!!
نوجوانوں کی کردار سازی میں والدین، اساتذہ اور مفاشرہ سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ،تاکہ ہم اپنی آنے والی نسل کو ایک اچھا ماحول دے سکیں۔