ہمارے سینئراداکارعلی اعجاز، محمود صدیقی، قیصر نقوی، قوی خان، سلمیٰ ظفر، ساجد حسن سمیت درجنوں فن کار ہیں، جن کے واجبات ادا نہیں کیے گئے۔ ہم نے صرف ان فن کاروں کے نام لکھے ہیں۔ جنہوں نے باضابطہ شکایت کی، ورنہ حقیقت میں تو بے شمار فن کار ہیں، اسے قانونی چارہ جوئی کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ بس فن کاروں کو چاہیے صبر کریں اور اس کے سِوا کیا کر سکتے ہیں۔ یہاں کوئی ایسا نظام نہیں جو فن کاروں کے لیے باعث تقویت ہو۔ بڑے بڑے آرٹسٹ ایڑیاں رگڑتے اس دُنیا سے چلے گئے، کسی کے کان پر جُوں تک نہ رینگی۔ فرید خان، تنویر خان لہری، تمنا بیگم، عینک والا جن کی بل بتوڑی یعنی نصرت، لیاقت سولجر، سکندر صنم، سب کسمپرسی میں جہانِ فانی سے رُخصت ہوئے۔
اب ہماری بہت ہی پیاری آرٹسٹ نائلہ جعفری کینسر سے لڑ رہی ہے۔ بستر مرگ پہ فن کاروں کے لیے صدابلند کررہی ہے۔ فن کاروں کو رائلٹی دینے کانعرہ اب نائلہ جعفری نے بلند کیا ہے اوراس میں ماہرہ خان، یاسر حسین، منشا پاشا، سکینہ سموں،زارا نور عباسی، آرمینا خان، کبریٰ خان، مثال خان اور عدنان صدیقی سمیت بہت سے فن کار ان کے ہم آواز ہیں۔ نائلہ جعفری کچھ عرصے سے سرطان کے عارضے میں مبتلا ہیں اور گلگت بلتستان میں رہ رہی ہیں۔ پچھلے دنوں کسی نے ان کے گھر اور گاڑی پہ پتھرائو کیا، جس کی وڈیو انہوں نے فیس بکس پر اپ لوڈ کی۔
لوگ کتنے سنگدل ہیں۔ایک بیمار لڑکی جو تن تنہا زندگی کی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے، اس پر مزید ستم ڈھا رہے ہیں۔ نائلہ جعفری نے جب اسپتال کے بستر سے فن کاروں کے حق کے لیے بات کی تو ، جہاں فن کاروں نے اسے سراہا، وہیں سوشل میڈیا والوں نے ان کی موت کی جھوٹی خبر چلا دی۔ زندہ فن کاروں کی موت کی جھوٹی خبرچلانا سوشل میڈیا کے لیے نئی بات نہیں، بہت بار ایسا ہوچکا ہے۔
عابد علی،سکینہ سموں اور روبینہ اشرف کے ساتھ انہوں نے یہی کیا تھا۔ شفقت چیمہ کے بچوں کی جھوٹی خبر چلائی گئی ،اب نائلہ جعفری کے لیے یہ خبر چلانا ہم سب کے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔ نائلہ کو ہم عرصہ دراز سے جانتے ہیں۔اپنےفنی کیریئر کے آغاز سے ہی ان سے ہماری جان پہچان ہے ، سید کمال کے ایکٹنگ چیلنج شو میں جب ہم کمپیئرنگ کرتے تھے۔
نائلہ وہاں کوآرڈی نیٹر تھیں۔ ہم نے اکٹھے بہت سارے ڈراموں میں ایک ساتھ کام بھی کیا۔ فاطمہ ثریا بجیا کاتحریر کردہ سیریل ’’جسے پیا چاہے‘‘ جس میں ہمارے ساتھ سلطانہ ظفر، سمیع ثانی، بسمہ اور ہمایوں سعید تھے۔ اس میں نائلہ جعفری نے بھی کام کیا تھا۔ ہدایت کار عارفین کے ایک ڈرامے میں بھی ہم ساتھ تھے۔ نائلہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا مقبول نام ہے۔
ان کا ڈراما، کالی دیمک، آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔نائلہ جعفری نے آرٹس کونسل کے الیکشن میں بھی حصہ لیا اور کام یاب ہوئیں۔ نائلہ جعفری اس وقت بیمار ہیں، تکلیف میں ہیں۔ انہیں ہماری دعائوں کے ساتھ ساتھ چند ٹھوس اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ کاش حکومت ہوش کے ناخن لے، کاش ان کے لیے کچھ ہو جائے۔ سندھ کے وزیر ثقافت نے نائلہ جعفری کے علاج کے اخراجات اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آرٹسٹوں کو کسی امداد کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ آرٹسٹ معاشی طور پر اسے مستحکم ہوں کہ کسی اپیل کی نوبت ہی نہ آئے۔ خدا کرے فن کاروں کے دن پھریں اور حالات بہتر ہو جائیں۔
آج کل سوشل میڈیا پر "Give Royalties to Artists"، اس مہم نے زور پکڑا ہوا ہے۔ آرٹسٹوں کو رائلٹی دو کا آئیڈیا یُوں تو پہلے بھی بہت سے فن کاروں کے ذہنوں میں آیا اور کچھ نے آواز بھی بلند کی، مگر کبھی اس کی شنوائی نہ ہوئی۔ ہمیں یاد ہے بہت سال قبل نعمان اعجاز نے کہا تھاکہ فن کاروں اور ہنر مندوں کو رائلٹی ملنی چاہیے۔ ہم اُن دنوں اسلام آباد سے ’’گیت کہانی‘‘ نامی پروگرام کی میزبانی کر رہے تھے، ہم کراچی سے یہ شو کرنے جاتے تھے، جب کہ نعمان اعجاز لاہور سے آتے تھے۔ نعمان اعجاز بہت اچھے اداکار ہیں، کچھ عرصے سے بیرون ملک مقیم ہیں اور وقتاً فوقتاً پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں۔
ہم نے ان کے ساتھ، پی ٹی وی کوئٹہ مرکز سے نصرت ٹھاکر کا ڈراما سیریل ’’گردباد‘‘ میں کام کیا تھا، جس میں ایوب کھوسہ، شمع جونیجو اور محمد نواز بھی تھے۔ نعمان اعجاز بتارہے تھے کہ دُنیا بھر میں فن کاروں کو رائلٹی ملتی ہے۔ معلوم نہیں ہم کیوں اس سے محروم ہیں۔ وہ فریال گوہر کا بھی تذکرہ کر رہے تھے کہ انہوں نے بھی رائیلٹی کے مسئلے پہ کافی کوششیں کیں، مگر افسوس کہ ہوا کچھ نہیں۔ یہ سب باتیں سن کر ہمیں یاد آیا کہ ہمیں ایک بار رائلٹی ملی تھی۔ ہم نے کراچی سینئر سے ایک ڈراما کیا تھا، جس کی رائلٹی کا چیک ہمیں دیا گیا تھا۔
رائلٹی کا چیک دیکھ کر ہمارے کو ہوش ہی اُڑ گئے تھے۔ ہم جانتے ہیں کہ موجودہ دور کے مقابلے میں ماضی میں فن کاروں کو بہت معمولی معاوضہ ملتا تھا۔ تاہم یہ چیک ایسا تھا کہ ہم مارے شرمندگی کے اُسے بینک میں جمع نہ کرا سکے۔ برس ہا برس وہ چیک ہماری ڈائری میں بہ طور یادگار رہا۔ پھر جانے کہاں غائب ہوگیا۔ رائلٹی کا وہ چیک جتنا بھی تھا۔ہم سوچ سوچ کے گڑھے رہتے ہیں کہ کیا اہمیت رہ گئی ہے، اب فن و فن کار کی۔ شاید فی زمانہ ریٹنگ کا بھوت اس لیے موجود ہے کہ بس جس سے کمائی ہو جائے، اسے اسکرین پر پیش کرو۔ اب چاہے، وہ اخلاق باختہ ہو یا مضحکہ خیز، غیر معیاری ہو یا معاشرے کے لیے ناموزوں، بس دھڑا دھڑ یہی دکھائو۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ ان سب کے باوجود رائلٹی کسی کو نہیں ملتی۔ کمرشل زمانے ہے، جب روایات اور اقرار کا جنازہ نکل چکا ہو،ایسے میں رائلٹی کون دے گا۔ یہاں تو فن کار اور رائٹر اپنی پیمنٹ کے لیے دھکے کھا رہے ہیں، کوئی شنوائی نہیں۔ہم نے چار سال قبل پرانے گیتوں کا ایک شو ایک چینل سے پیش کیا تھا ،جس کے آئیڈیاز، اسکرپٹ، کمپیئرنگ سب ہم خود کر رہے تھے۔ ہم نے کینیڈا میں اس کی ریکارڈنگ کی۔
کینیڈا کی حسین لوکیشن، پُرفضا مقامات پر ریکارڈنگ نے شو میں چار چاند لگائے۔ ہم وہاں سے اپنے خرچے پر تکنیکی ٹیم کی خدمات حاصل کرکے پروگرام کراچی بھیجتے رہے، لیکن جب ایک طویل عرصے تک ماہ معاوضہ نہ ملا، تو ہمیں اس سلسلے کو روکنا پڑا۔