پروفیسر محمد فاروق دانش
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ کوئی بھی فرد کوئی قابل فخر کام کیے اونچا مقام حاصل نہیں کرسکتا۔ قابل فخر اور قابل قدر بننے کے لیے سب سے پہلے تعلیم اور پھر کوئی ہنر یا قابل تعریف وصف یا فن جو آپ کو دوسروں سے منوا سکیں ضروری ہے۔
بہتر تعلیم کے لیے بہتر انتخاب بھی زندگی میں آگے بڑھنے کی راہیں ہموار کر سکتا ہے۔تعلیم کا حصول قوم کی بنیادی اکتسابی کم زوریوں کو دورکرنا ہے۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ تعلیم کسی بھی خطے میں بسنے والے افراد کا بنیادی حق ہے۔ہرانسان کو کھانے پینے ، رہنے سہنے اور ضروریات زندگی کی مناسب سہولیات کی ضرورت ہر صورت ہوتی ہے، ان کی فراہمی کے لیے کسی نہ کسی شعبے میں مہارت اور علمی دست رس ازحد ضروری ہے۔
یہ دیکھا گیا ہے کہ پڑھے لکھے نوجوان سرکاری نوکری کے لیے دن رات ایک کر کے ،امتحانات دے کر ،سفارشوں اور رشوت کی مدد سے سرکاری نوکری کے حصول کی کوشش کرتےہیں۔ آج کے دور میں حالات بدل گئے ہیں، بڑھتی ہوئی آبادی نے ریاست کی کمر بھی توڑ کر رکھ دی ہے، اس کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ ہر پڑھے لکھے فردد کو ملازمت دےسکے۔پھر وقت کی ضروریات اور احتیاج تبدیل ہو چکی ہیں۔دنیا میں اب ترقی صرف انجینئرنگ اور میڈیکل کے شعبے سے مشروط نہیںہے۔
وطن عزیزپاکستان کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت کے پیش نظر ذاتی کاروبار کی اہمیت بڑھ گئی ہے لیکن کاروبار میں ترقی اور منافع کے حصول کے لیے خطرات مول لینا پڑتے ہیں۔ ان حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے طلبہ میں کامرس کی تعلیم حاصل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے جو ملکی ترقی کے لیے خوش آئند ہے۔ کامرس کےشعبے کی ترقی کے لیے ہزاروں انٹرمیڈیٹ کالج قائم کیے گئے ، بعد ازاں انھیں یونیورسٹیوں سے الحاق کے بعد گریجویشن تک پہنچایا گیا۔
ابتدا میں ان اداروں کو صرف کارباری حضرات نے یا پھر بنک میں ملازمت کے خواہاں افراد نے اپنایا اور اسے بہت کم اہمیت دی گئی۔ سائنس سے بے وجہ اور ان دیکھی محبت میں مبتلا طالب علم جوق در جوق سائنس کالجوں کی طرف بھاگتے رہے ، ان کے اس والہانہ عشق کی وجہ سے ان اداروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا لیکن کامرس اور آرٹس سے طلبہ کی دل چسپی خال خال رہی۔
اکثر طلبہ تو یہاں بے جواز اس لیے داخلہ لیتے کہ ان کوسائنس کالج میں داخلہ نہیں ملا تو چلو ، کامرس میں ہی لے لیتے ہیں۔جب کامرس کی تعلیم کا شوق پروان چڑھنے لگا توڈاکٹرز اور انجینیرکی خواہش ترک کرکے نوجوان اس طرف بھی آنے لگے نوجوان کی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے مختلف یونی ورسٹیوں نے اکثر نام ور کالجوں کو گریجویشن کے ساتھ ساتھ پوسٹ گریجویشن سینٹرز میں بھی تبدیل کیا اور یہاں سے ماسٹرز کورسز کا بھی آغاز ہو گیا۔
سندھ کے کئی شہروں سے ہزاروں لائق فائق طلبہ اپنی اسناد حاصل کرکے بڑے اداروں ، کارخانوں ، فیکٹریوں میں اکاؤنٹس کے شعبوں میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں، نیز بینک اور مالیاتی ادارے بھی ان کی خدمات سے مستفید ہو رہے ہیں۔ ایک عشرے قبل تک اس فیلڈ میں کوئی ایم فل نہ تھا لیکن اب سیکڑوں کی تعداد میں ایم فل اور بیشتر طلبہ پی ایچ ڈی ہیں اور اہم شعبوں میں ایگزیکیٹیوز کی پوسٹ پر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
کامرس میں تجارت کے ساتھ ساتھ ببنکنگ ، اس کے قوانین ، بزنس قوانین ، لیٹرز رائٹنگ ، تجارت کے ضوابط ، اکاؤنٹنگ ، میتھ اور دیگر شعبہ جات ساتھ پڑھائے جاتے ہیں جو طلبہ میں مفصل اس شعبے کو سمجھانے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ اب کامرس کے ساتھ ساتھ تجارت کے حوالے سے ایک سابقہ بھی لگ چکا ہے ، وہ ای کامرس ہےجو کارباری سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ ای کامرس کا حصول بھی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ اس میں جانے سے پہلے بنیادی علم اور تمام ٹولز کا سیکھنا لازمی ہے اس کے بغیر ایسا ہے کہ جیسے کوئی دریا میں اترنے کا سوچ رہا ہو اور اس کو تیرنا نہ آتا ہو۔ یہ کامرس سیکھنے اور اس شعبہ میں کام یابی حاصل کرنے کا ایک اچھا پلیٹ فارم ہے۔
جدید دور میں خاص طور پر موجودہ وبائی حالات میں آن لائن کاروبار یعنی ای کامرس یا ای ٹریڈنگ کی اہمیت بڑھ چکی ہے۔ نوجوان اس فیلڈ میں آنے والے مالی اور کاروباری لحاظ سے مستحکم پوزیشن میں آچکے ہیں ۔ اور ای کامرس کو عالمی سطح پر وسعت دینے کے لیے مستقل طور پر کام کر رہے ہیں۔ جس طرح طلبہ دوسرے شعبوں میں جاں فشانی سے کام لیتے ہیں ، کامرس کے شعبے کو بھی اپنا کر وہ موجودہ دور کی ضروریات کو پورا کرنے میں اپنا فریضہ انجام دے سکتے ہیں نیز یہ کہ یہ تعلیم ان کو کسی طور مایوس نہیں کرے گی بس آزمائش شرط ہے۔