اپنی زندگی میں بہت کم توجہ پانے کے بعد گیارہ مئی ۱۹۷۴ء کو ۶۴برس کی عمر میں فوت ہونے والے مجید امجد کا طرزِ اِحساس اتنا منفرد اور تخلیقی تجربہ اتنا مختلف تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے معاصرین میں قامت کو اور بھی نمایاں کرتے گئے ہیں۔ جی،میں اُن معاصرین کی بات کر رہا ہوں جو اقبال کے بعد کے نمایاں ترین شعراء ہیں اور جنہیں اپنی زندگیوں میں ہی شہرت اور قبولیت کی سند مل چکی تھی۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ مجید امجد کے معاصر ین کے اپنے اپنے شعری آفاق رہے ہیں۔
سب کے اپنے اپنے امتیازات ہیں تو یہ بات اپنی جگہ درست ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جب مجید امجد کو اُن کے معاصرین کے ساتھ رکھ کر دیکھتے ہیں اور اپنی زندگی میں ’’بے نشانی کی نشانی‘‘ہو جانے والے اس شاعر کو، ن م راشد، میرا جی ، فیض احمد فیض ،ناصر کاظمی، مختارصدیقی، احمد ندیم قاسمی، عزیز حامد مدنی، اخترالایمان،ضیا جالندھری اور منیر نیازی جیسے نمایاں ترین شاعروں کے ساتھ رکھ کر آنکتے ہیں تو ان کی قامت کئیوں سے بلند نظر آتی ہے ۔ اتنی بلند کہ شہرت کی بنیاد پر قائم تنقیدی بصیرتوں پربھی چرکے لگنے لگتے ہیں۔
مجید امجد کی شاعری فی الاصل عمل خیر کا تسلسل ہے۔ان کا تخلیقی شعورانسانی وجود کے ایسے روشن ترین علاقوں کو نشان زد کرتا ہے جہاں اگرچہ غموں اور مصیبتوں کا بسیرا ہے اور جہاں شاعرانہ شعور اور ادراک کو بھوگنا ایک بے پایاں عذاب سے کم نہیں ہے لیکن مجید امجد نے اس اذیت کے تسلسل کو ایک جامع اور مربوط بصیرت میں ڈھال کر اپنے تخلیقی عمل کا حصہ بنا لیا تھا ۔
جب مجید امجد اپنی تخلیقی شناخت بنانے کے عین آغاز میں تھے اور اپنے شعری امکانات کو کھوج رہے تو یہ وہی زمانہ بنتا ہے جب ترقی پسند تحریک کے ذریعے محبوب ہو جانے والا چلن اپنا کر ہی مقبول ہوا جاسکتا تھا یا پھر اس ردعمل میں نئی شاعری کے نام سے لکھی جانے والی نظمیں ہی توجہ پا رہی تھیں۔ مجید امجد ان دونوں رویوں سے بے خبر نہ تھے مگر اپنے تخلیقی عمل سے انتہائی اخلاص کے ساتھ جڑے رہے۔یوں کہ ان کے ہاں کوئی بھی نظریہ نعرہ نہیں بنا اور کسی تجربے نے چونکاکر توجہ نہیں ہتھیائی۔ اس کے باوجود کہ یہاں وہ سب کچھ تھا جو ترقی پسندوں کو مرغوب تھا یا نئی نظم والوں کو مگر یہ سب کچھ احساس کی سطح پر مجید امجد کا اپناتخلیقی تجربہ بن رہا تھا۔
جی، وہ تخلیقی تجربہ جس نے انہیں مختلف کیا اور نمایاں بھی۔ ایک زمانے میں سلیم احمد کے ہاں مجید امجد چلا ہی نہیں تھا مگر پھر یہ بھی دیکھا گیا کہ جب اُنہیں ڈھنگ سے پڑھا جانے لگا اور اُن کے ہاں بننے والی شعری جمالیات نے اپنا جادوئی اثر دکھایا تو وہی مجید امجد پوری قامت کے ساتھ نظر آنے لگے تھے۔یہ جو احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا کہ مجید امجد عام دھڑے سے ہٹے ہوئے شاعر تھے اور ایسے شاعروں کو پہچاننے میں وقت لگتا ہے تو یہ بات درست لگتی ہے۔ قاسمی صاحب نے اس باب کی مثالوں میں غالب، اقبال اور پھر مجید امجد کو رکھا تھاجنہیں اُن کی زندگی کے بعد کہیں کمال درجے کی پذیرائی ملی۔ مجید امجد کو اپنی زندگی میں شکایت رہی کہ کم پہچانے گئے مگر انہوں نے اس احساس کو تخلیقیت میں بدلا تو ’’ آٹو گراف‘‘ جیسی نظم لکھ دی تھی:
’’یہ لوح دل، یہ لوح دل/نہ اس پر کوئی نقش ہے، نہ اس پہ کوئی نام ہے‘‘
۔۔۔۔۔۔۔اور اس سے ماقبل وہ کہہ رہے ہیں:
’’میں اجنبی/میں بے نشان/میں پابہ گل/نہ رفعت ِ مقام ہے نہ شہرت ِ دوام ہے‘‘
تویوں ہے کہ مجید امجد وہ شاعر جس نے اپنے بارے میں یہ بھی کہا تھا:
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا
وہی شاعر اب ہمیں اپنے کلام کے ذریعے گہری بصیرت عطا کرتا ہے۔ ایسی گہری بصیرت جو زندگی کے بڑے تجربے کی عطا ہو جایا کرتی ہے اور کوئی تخلیقی طور پر بہت توانا شاعر کے ہاں ظہور کر تی ہے۔ اس نے مجید امجد کے ہاں ظہور کیا ہے ، کچھ یوں کہ مجید امجد کو اردو نظم کے باب رفعت مقام ملا اور ان پر شہرتِ دوام کے دریچے بھی وا ہوتے چلے گئے ۔
مجید امجد کی نظم’’بس سٹینڈ پر‘‘ پر میں نے جب جب پڑھی یا سنی مجھے یہ شاعر فکر اور فن دونوں حوالوں سے بہت بلندی پر نظر آیا ہے:
’’خدایا اب کے یہ کیسی بہار آئی/خدا سے کیا گلہ بھائی/خدا تو خیر کس نے اس کا عکس نقش پا دیکھا/نہ دیکھا تو بھی دیکھا اور دیکھا بھی تو کیا دیکھا/مگر توبہ مری توبہ یہ انساں بھی تو آخر اک تماشا ہے/یہ جس نے پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہونا بڑے جتنوں سے سیکھا ہے/ابھی کل تک جب اس کے ابروؤں تک موئے پیچاں تھے/ابھی کل تک جب اس کے ہونٹ محروم زنخداں تھے/ردائے صد زماں اوڑھے لرزتا کانپتا بیٹھا/ضمیر سنگ سے بس ایک چنگاری کا طالب تھا/مگر اب تو یہ اونچی ممٹیوں والے جلو خانوں میں بستہ ہے/ہمارے ہی لبوں سے مسکراہٹ چھین کر اب ہم پہ ہنستا ہے/خدا اس کا خدائی اس کی ہر شے اس کی ہم کیا ہیں/چمکتی موٹروں سے اڑنے والی دھول کا ناچیز ذرہ ہیں/ہماری ہی طرح جو پائمال سطوت میری و شاہی میں /لکھوکھا آب دیدہ پا پیادہ دل زدہ واماندہ راہی ہیں/جنہیں نظروں سے گم ہوتے ہوئے رستوں کی گم پیما لکیروں میں/دکھائی دے رہی ہیں آنے والی منزلوں کی دھندلی تصویریں/ضرور اک روز بدلے گا نظام قسمت آدم/بسے گی اک نئی دنیا سجے گا اک نیا عالم/شبستاں میں نئی شمعیں گلستاں میں نیا موسم/وہ رت اے ہم نفس جانے کب آئے گی/وہ فصل دیر رس جانے کب آئے گی/۔۔۔یہ نو نمبر کی بس جانے کب آئے گی۔‘‘
نو نمبر کی بس آنے کا یہ منتظر شاعر زندگی کی کیسی کیسی گتھیاں سلجھا جاتا ہے۔ یہاں مجیدامجد جب اونچی ممٹیوں والوں کا ذکر کرتے ہیں اور ان کے مقابل لکھوکھا آب دیدہ ، دل زدہ واماندہ راہی دکھاتے ہیں یا یہ کہتے ہیں کہ ضرور اک روز بدلے گا نظام قسمت آدم تو مجیدامجد ترقی پسندوں سے بڑھ کر ترقی پسند نظرآتے ہیں اور نئی نظم کہنے والوں سے بڑھ کر نئے بھی جو انسانی تہذیب کے سوالوں کے مقابل ہونے کی جرات رکھنے والے ہیںبہ طور خاص وہاں جہاں وہ توبہ کرتے ہوئے ضمیر سنگ سے ایک چنگاری کے محتاج انسان کو ایک تماشے کی صورت دکھا رہے ہوتے ہیں۔
اچھا، ایک اور نظم دیکھیے’’زندگی، اے زندگی‘‘:
’’خرقہ پوش و پا بہ گل/میں کھڑا ہوں، تیرے در پر، زندگی/ملتجی ومضمحل/خرقہ پوش و پا بہ گل/اے جہانِ خارو خس کی روشنی/زندگی، اے زندگی/میں ترے در پر چمکتی چلمنوں کی اوٹ سے/سن رہا ہوں قہقہوں کے دھیمے دھیمے زمزمے/کھنکھناتی پیالیوں کے شور میںڈوبے ہوئے /گرم گہری گفتگو کے سلسلے/۔۔۔۔۔‘‘
اسی نظم میں وہ آگے چل کر کہتے ہیں:
’’۔۔۔/میں کہ اک لمحے کا دل/جس کی ہر دھڑکن میں گونجے دو جہاں کی تیرگی/زندگی، اے زندگی/‘‘
مظفر علی سیدنے کہا تھا کہ’’ بلاشبہ مجید امجد کا کلام ہمارے دور کی ایک اہم تہذیبی قوت ہے۔‘‘ اس بابت سوچتے ہی ہمارے ذہن کے افق پر ان کی کئی نظمیں جگمگانے لگتی ہیں۔ مجید امجد کی ایک نظم کی مثال دیتے ہوئے سید صاحب نے یہ بھی لکھا تھاکہ انہوں نے مقبرہ جہانگیر کی جو تصویر کھینچی ہے وہ ایلیٹ کی کنارِ ٹیمز کی تصویر سے زیادہ ہولناک ہے۔ اس لیے کہ یہاں مقبرے کا تقدس پامال کرنے والے خوش باش نوجوان ہیں جب کہ ایلیٹ کی نظم میں ٹیمز کے کنارے خالی بوتلیں اور خالی ڈبے پڑے ہوئے ہیں۔
میں یہاں یہ دہرانا چاہوں گا کہ مجید امجد انسانی وجود کے اندر اترتے تھے بہت گہرائی میں اوراس کی حسیات سے معاملہ کرتے تھے۔ غرض مجید امجد کے ہاں ایسی نظمیں تواتر سے نظر آتی ہیں جو اس کائنات ، اس کے مظاہر اور انسانی زندگی کے بارے میں گہرے سوالات کے مقابل کرتی ہیں اور اس کے لیے وہ اپنے اردگرد کے عام مظاہر اور واقعات سے مواد لیتے ہیں اور زبان کے خلاقانہ استعمال نظم میں یوں ڈھال دیتے ہیں کہ اس اپنی منفرد جمالیات وضع ہوتی چلی جاتی ہے یہی بات مجید امجد کو اپنے ہم عصراہم شعرا میں الگ اور منفرد مقام عطا کرتی ہے۔