سید عون عباس
تمام تر مسائل جن میں غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور دیگر پریشانیوں کے باوجود پاکستان میں نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد فلاحی کاموں سے وابستہ نظر آتی ہے جو بڑی خاموشی کے ساتھ ایسے کام کر رہےہیں۔ جن کا مقصد صرف و صرف رضا الہی کا حصول ہے۔ ذاتی نمودنمائش نہیں۔ انہیں شہرت کی فکر نہیں اور نہ ہی کسی قسم کا لالچ۔ ایسے درد دل رکھنے والے نوجوان معاشرے کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں جو وسائل کی کمی کے باوجود سماجی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں۔
اب ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا معاشرے کی فلاح و بہبود کے کام کرنے کے لیے کسی این جی او بنانے کی ضرورت ہے؟ یا کیا بہت سارے ہم خیال لوگوں کو ملا کر کوئی گروپ تشکیل دینا پڑے گا؟ ان سوالوں کا جواب ہے "نہیں" کیونکہ کسی بھی معاشرے میں فلاح و بہبود کا کام سب سے پہلے انسان کی اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے۔ اس کی ابتداء کے لیے کوئی بہت بڑا کام کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ وہ سڑک سے ایک پتھر کو ہٹا کر بھی شروع کیا جاسکتاہے۔
پاکستان میں کام کرنے والے بڑے سے بڑے فلاحی اداروں کے سربراہ یا بانیوں نے پہلےاکیلے ہی فلاحی کاموں کی ابتداء کی پھر لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا، ان ہی میں ایک مثال پاکستان کے فخر جناب عبدالستار ایدھی مرحوم ہیں۔ جب وہ 11 برس کے تھے تو ان کی والدہ پر فالج کا حملہ ہوا،یہی زندگی کا وہ موڑ تھا کہ جہاں عبدالستار ایدھی نے خدمت انسانیت کی روح کو سمجھ لیا جو شاید بڑے بڑے زعم میں مبتلا افراد اپنی پوری زندگی بسر کرنے کے بعد بھی نہیں سمجھ پاتے ہیں۔
ایدھی صاحب نے اپنی والدہ کی خدمت کے لئے کسی نرس کی خدمات لینے کے بجائےساری ذمہ داری اپنے سر لے لی ۔ یہی انسانیت کے کام آنے کا وہ جذبہ تھا جو شاید ماں کی دعا کی صورت میں انھیں ملا اور پھر اس طرح ایدھی فاؤنڈیشن جیسے فلاحی ادارے کی بنیاد پڑی۔ ان کے بعد ان کے بیٹا اور پوتا اس کام کوآگے بڑھا رہے ہیں۔
ایسے نوجوان جو فلاحی کام کرنا چاہتے ہیں، ان کو ایک اور چیز مد نظر رکھنی ہوگی، وہ یہ کہ اپنے نیک اور فلاحیے کاموں پر فوکس رکھیں۔ کیونکہ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں جو کچھ بھی نہیں کرتا وہ بڑھ چڑھ کر تنقید ضرور کرتا ہے۔ اچھا کام ہوتے دیکھ کر جہاں دس لوگ تعریف کرتے اور سرہاتے ہیں تو وہیں چالیس لوگ تنقید کرتے ہیں۔ اور طرح طرح کے الزامات لگاتے ہیں، اس کے باعث بہت سے فلاحی کام کرنے والے دلبرداشتہ ہو کر اپنےنیک مقاصد سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں، تاہم جو اس بےجا تنقید، کو برداشت کر لیتے ہیں تو پھر وہ ایدھی بن جاتےہیں۔
رمضان المبارک کے با برکت مہینے اور کرونا کی وبا میں نوجوان نے بڑھ چڑھ کر غریب اور مساکین کی مدد کی، انہیںراشن فراہم کیا۔ بس اسٹاپس پر مسافروں کی سہولت کےلئے افطاری کےبکس تقسیم کرتے دکھائی ددئے ۔نوجوانوں میں خدمت خلق کا یہ جذبہ خوش آئند ،فلاحی معاشرے کی تشکیل کا راز ،دکھی انسانیت کی خدمت میں مضمر ہے ، جس میں نوجوان پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔
آج جب ہمارے ملک میں نوجوانوں کی اتنی کثیر تعداد موجود ہے، اس صورتحال میں نوجوانوں کو ہی آگے بڑھنا ہوگا ۔ وہ اپنے دیگر کاموں کے ساتھ ساتھ معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے مزید بڑھ چڑھ کے کام کریں اور اس ضمن میں کسی بھی قسم کی پریشانی کو راستے کی دیوار نہ بننے دیں، کیونکہ جب معاشرے کا ہر فرد اپنے اپنے حصے کا کام کرے گا تو پھر پاکستان بھی دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی صف میں شامل ہوجائے گا۔