• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرطان کی مختلف تنظیموں کے اشتراک سے(مثلا جرمن تنظیم ’’کے ڈی کے ایم ایس ‘‘اور ایم ڈی ایس فاؤنڈیشن (Myelodysplastic Syndromes Foundation) وغیرہ) دُنیا بَھر میںہر سال28 مئی کو’ ’بلڈ کینسر ڈے ‘‘منایا جاتا ہے،جس کا مقصدہڈیوں کا گُودا عطیہ کرنے کے رجحان کو فروغ دینا ہے۔سرطان ایک غیر متعدّی مرض ہے، جو جسم کے کسی بھی حصّے میں خلیوں کی غیر معمولی تقسیم کی وجہ سے لاحق ہوجاتا ہے۔

سرطان کی متعدّد اقسام میں ایک قسم خون کا سرطان ہے۔ یہ مرض براہِ راست خون کے نظام پر اثر انداز ہوتا ہے۔ لیوکیمیا ریسرچ فاؤنڈیشن کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق دُنیا بَھر میں ہر تین منٹ بعد ایک فرد میں بلڈ کینسر تشخیص ہوتا ہے۔پوری دُنیا میںسرطان کی جتنی بھی اقسام تشخیص ہو رہی ہیں، اُن میں بلڈ کینسر کی شرح تقریباً دس فی صد ہے۔

خون کے سرطان کو تین اقسام میں منقسم کیا جاتا ہے۔ لیوکیمیا (Leukemia)، لمفوما (Lymphoma) اور مائیلوما (Myeloma)۔ لیو کیمیا خون اور ہڈیوں کے گُودے کا سرطان ہے،جس کی شرح سرطان کی دیگر اقسام کی نسبت28فی صدہے۔ لیوکیمیا کی علامات میں ہڈیوں اور جوڑوں کا درد، کم زوری، پیلاہٹ، غیر ضروری خون کا بہائو، وزن میں کمی، غدود، تلّی اور جگر بڑھ جانا اور پیٹ پھول جانا شامل ہیں۔ 

دماغ اور ہڈیوں کے سرطان کی شرح بچّوں میں26ٖفی صد ہے، جس کی عام علامات میں سَر درد، نظر کا دھندلا پَن، چکر آنا، دورے پڑنا، پیدل چلنے یا چیزیں پکڑنے میں دشواری پیش آنا سرِفہرست ہیں۔مدافعتی نظام کے خلیوں کا سرطان لمفوما کہلاتا ہے۔ اس قسم کے سرطان میں غدود یا لمف نوڈز (Lymph Nodes) متاثر ہوجاتے ہیں۔ لمفوما میں علامات کا انحصار جسم کے متاثرہ حصّے پر ہوتا ہے، مگر غدودوں کی سوزش عام علامت ہے۔ مائیلوماہڈی کے گُودے کا سرطان کہلاتا ہے۔ ویسے تو زیادہ تر کیسز میں خون کی سرطان کی ابتدائی مرحلے میں علامات ظاہر نہیں ہوتیں،تاہم،اس کی عام علامات میںہڈیوں میں درد ر ، وزن کا تیزی سے کم ہوجانا، بھوک نہ لگنا،تھکاوٹ، سر چکرانا،عضلات میں درد،خون کی کمی،جِلد میں غیر معمولی تبدیلی، بخار اور طویل عرصے تک کھانسی رہنا شامل ہیں۔

یہ مرض ہر عُمر کے فرد کو متاثر کرسکتا ہے، جس میں بچّے بھی شامل ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق دُنیا بَھر میں ہر 35 سیکنڈ بعد ایک بچّے میں خون کا سرطان تشخیص ہوتا ہے، جو تشویش ناک امر ہے۔ مختلف اداروں کی جانب سے کیے جانے والے والے ایک سروے کے مطابق ہمارے یہاں سالانہ 8سے9ہزاربچّے اس موذی عارضے کا شکار ہوتے ہیں۔عام طور پر بچّوں میں 12 اقسام کے سرطان پائے جاتےہیں، جن میں خون کا سرطان سرِفہرست ہے۔ دیگر اقسام میں مسلز، ہڈیوں اور گُردوں کا سرطان شامل ہیں۔

خون کے سرطان کی جس قدر جلد تشخیص ہو، علاج کی کام یابی کے امکانات بھی اُتنےبڑھ جاتے ہیں۔ عام طور پر تشخیص کے لیے سی بی سی ٹیسٹ تجویز کیا جاتا ہے۔مرض کی نوعیت اور شدّت کے مطابق طریقۂ علاج منتخب کیا جاتا ہے،لیکن اس مرض کے علاج میں سرجری بہت زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوتی۔ اس کا ایک طریقۂ علاج تھراپی ہے،جس کی کئی اقسام ہیں۔ مثلاً بائیولوجیکل ، کیمو اور ریڈی ایشن تھراپیز وغیرہ۔ تاہم، خون کے سرطان کا مؤثر علاج اسٹیم سیل ٹرانس پلانٹیشن ہے۔

ہڈیوں کے گُودے کی تبدیلی کے اس خاص طریقۂ کار کو بون میرو ٹرانس پلانٹ بھی کہتے ہیں۔ اس طریقۂ علاج میں خون کے خلیے بنانے والے خاص خلیے کو عطیہ کرنے والے کے جسم سے نکال کر وصول کنندہ یا سرطان کے مریض میں داخل کیا جاتا ہے، جس کے بعد یہ صحت مند اسٹیم سیل، خون کے صحت مند خلیوں کی افزایش میں کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ لیکن اس مرحلے میں سب سے ضروری عطیہ کرنے والے اور وصول کنندہ کے ہڈیوں کے گُودے میںhuman leukocyte antigen marker کا یک ساں ہونا ہے اور یہ صرف تین بچّوں میں سے ایک بچّےکا اپنے لواحقین سے میچ ہوتا ہے۔

بلڈ کینسر سےبچاؤ کے لیے طرزِ زندگی میں بعض تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔ جیسے سرِ فہرست تو ترکِ تمباکونوشی ہے۔ اسی طرح کھانوں کو دیر تک محفوظ رکھنے والے کیمیکلز کے بے جا استعمال سے بھی بلڈ کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے،لہٰذا ایسے کھانوں سے اجتناب برتا جائے۔ جن افراد کا مدافعتی نظام کم زور ہو، وہ بھی بلڈ کینسر کا آسانی سے شکار بن سکتے ہیں،اس لیے متوازن غذا کا استعمال کیا جائے، تاکہ امیون سسٹم مضبوط ہو۔علاوہ ازیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام بڑے شہروں میں ترجیحی بنیاد پر سرطان کے معیاری اسپتال قائم کرنے کے ساتھ مؤثر انفراسٹرکچر بھی مرتّب کرے، جب کہ عوامی آگاہی کی مہمات بھی وقت کی اشد ضرورت ہیں۔

(مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ خون ہیں اور چلڈرن اسپتال،کراچی میں بطور سی ای او خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے سینئر ممبر ہیں)

تازہ ترین