ادارہ شماریات نے ملکی تاریخ میں پہلی بار الیکٹرانک سروے جاری کردیا، جو پاکستان میں سماجی معیار زندگی سے متعلق ہے۔
سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2 فیصد گھرانے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ 14 فیصد درمیانی درجے جبکہ 84 فصد گھرانے غذائی اعتبار سے محفوظ ہیں۔
سروے رپورٹ کے مطابق غذائی قلت سب سے زیادہ بلوچستان میں ہے، جہاں 23 فیصد گھرانے شدید یا درمیانے درجے کی غذائی کمی کا شکار ہیں۔
ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق خیبرپختونخوامیں 14 فیصد گھرانے غذائی کمی کا شکار ہیں۔
سروے رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران 40 فیصد گھرانے غذائی کمی کا شکار ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق ملک میں 5 سے 16 سال کی عمر کے 32 فی صد بچے اسکول نہیں جارہے، ملک میں شرح خواندگی 60 فیصد پر جمود کا شکار رہی۔
ادارہ شماریات کے مطابق سندھ میں شرح خواندگی میں کمی آئی، پرائمری، مڈل اور میٹرک کی سطح پر اسکول میں داخلے جمود کا شکار رہے۔
سروے کے مطابق اسکول میں داخلے پنجاب میں سب سےزیادہ، کے پی میں دوسرے نمبر پر رہا، سندھ اس معاملے میں تیسرے اور بلوچستان آخری نمبر پر رہا۔
رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں 47 فیصد، پنجاب میں 26 فیصد بچے اسکول نہیں جا رہےجبکہ پاکستان کی 3 اعشاریہ 4 فیصد آبادی معذوری کا شکار ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں صحت کے مقررہ معیار میں بہتری آئی ہے، 12 سے 23 ماہ کے بچوں کی ویکسین 60 فیصد سے بڑھ کر 70 فیصد رہی، ماں بچے کی صحت کے معیار میں بھی بہتری دیکھنے میں آئی۔
سروے کے مطابق ملک میں 12 فیصد آبادی کے پاس کمپیوٹرز اور لیب ٹاپ کی، 93 فیصد آبادی کے پاس موبائل فون کی جبکہ 33 فیصد کو انٹرنیٹ کی سہولیات میسر ہے۔
رپورٹ کے مطابق 10 سال یا بڑی عمر کی 45 فیصد آبادی کے پاس موبائل فون موجود ہے، جن میں 25 فیصد خواتین اور 65 فیصد مرد اس سہولت سے مستفید ہورہے ہیں۔
اعداد وشمار کے مطابق ملک میں 24 فیصد مرد، 14 فیصد خواتین کو انٹرنیٹ، 96 فیصد گھرانوں کو بجلی کی سہولت میسر ہے۔
سرورے کے مطابق ملک میں 48فیصد گھرانے گیس کو بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں جبکہ 68فیصد آبادی کو ٹوائلٹ کی سہولت میسر ہے۔