یونیسکو کے اربابِ بست و کشاد کے فکرو نظر کی داد دینی چاہیے کہ جنہوں نے بجا طور پر لاہور کو ’’شہر ادب‘‘ قرار دیا ہے۔ ویسے تو لاہور کو باغوں، کالجوں، رنگوں، ثقافتوں اور زندہ دِلوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے، لیکن اس کی حقیقی شناخت بلاشبہ ’’شہر ِادب‘‘ ہی کی ہے۔ سٹی آف لٹریچر ، لاہور کے تعلیمی اداروں ہی کو لیجیے، برصغیر بلکہ پوری دنیا میں کون سی ایسی تعلیمی درس گاہ ہے،جسے گورنمنٹ کالج، لاہور کی طرح اقبال اور فیض جیسے عالمی سطح کے شعراء کی مادرِ علمی ہونے کا اعزاز حاصل ہو، جہاں پروفیسر احمد شاہ بخاری (پطرس) جیسے نابغۂ روزگار ادیب اور دانش وَر درس و تدریس کا فریضہ انجام دیتے رہے ہوں، جہاں اقبال کے استادِ گرامی، قابلِ ذکر شہرت کی حامل کتاب ’’دی پریچنگ آف اسلام‘‘ کے مصنّف، پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ جیسے عالمی شہرت یافتہ اساتذہ مسندِ درس پر رونق افروز رہے ہوں۔ ان نمایاں ترین شخصیات کے علاوہ بھی شعراء، ادباء اور دانش وَروں کی ایک طویل فہرست ہے، جو اس درس گاہ سے وابستہ رہی۔ شاعرِ مشرق، شہر لاہور کی ایک قابلِ ذکر شناخت، علّامہ ڈاکٹر محمّد اقبال بھی کچھ عرصہ گورنمنٹ کالج لاہور سے منسلک رہے، جب کہ معروف انشاء پرداز ’’آبِ حیات‘‘ کے مصنّف، محمّد حسین آزاد بھی اسی کالج کے اساتذئہ کرام میں شامل تھے۔ وہ بگّھی پر سوار ہوکر کالج تشریف لایا کرتے تھے۔
اسی شہر کی علمی درس گاہ، اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل، علامہ عبداللہ یوسف علی اور پروفیسر حمید احمد خان بھی، جو بعدازاں پنجاب یونی ورسٹی، لاہور کے وائس چانسلر مقرر ہوئے، قدر آور علمی و ادبی شخصیات تھیں۔ پھر اسی کالج کو سیّد ضمیر جعفری جیسے لافانی شاعر کی مادرِ علمی کا فخر بھی حاصل ہے۔ ان نابغۂ روزگار ہستیوں کے علاوہ بھی علم و ادب کے بہت سے آفتاب و مہتاب لاہور کی دیگر درس گاہوں کے ماضی کے اُفق پر جگمگاتے رہے ہیں۔
پھرپروفیسر حمید احمد خان نے 1969ء میں غالب کی صد سالہ برسی پر غالب کی تمام تصنیفات و تخلیقات کوازسرِ نو مدوّن کروا کے پنجاب یونی ورسٹی سے شایع کروایا۔ مولانا حامد علی خان کا مرتّب و مدوّن دیوانِ غالب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس نسخے میں باقاعدہ اعراب کا اہتمام کیا گیا، تاکہ قارئین کو تلفّظ کی درست ادائی میں آسانی ہو۔ علاوہ ازیں، سیّد عابد علی عابد جیسی نابغۂ روزگار شخصیت دیال سنگھ کالج کے پرنسپل کی کرسی پر رونق افروز رہی۔ پروفیسر انورعلی بخشی، گورنمنٹ کالج مری کے پرنسپل رہے۔ جب کہ پنجاب یونی ورسٹی کے اورینٹل کالج میں بھی عہد آفریں اساتذہ مسند استاد پر متمکن ہوئے۔
گورنمنٹ کالج کے پروفیسر مولانا محمّد حسین آزاد اورینٹل کالج میں بھی پڑھاتے تھے، اُس زمانے میں اورینٹل کالج اور گورنمنٹ کالج ایک ہی بلڈنگ میں ہوا کرتے تھے۔ اورینٹل کالج کے اساتذہ میں پروفیسر حافظ محمود شیرانی( مشہور شاعر اختر شیرانی کے والد) بھی شامل ہیں، جن کی لافانی کتاب ’’پنجاب میں اردو‘‘ ایک اہم تصنیف ہے اور جس کا مطالعہ اردو زبان و ادب طلبہ کے لیے ہمیشہ ناگزیر رہے گا۔ اسی طرح ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، پروفیسر ڈاکٹر سیّد عبداللہ سمیت دیگر بہت سی شخصیات، جو اردو ادب کا قیمتی اثاثہ ہیں، بھلا کس ایک شہر اور درس گاہ کو میسّر رہیں۔
لاہور کی عظیم درس گاہوں سے باہر بھی نکل کر دیکھیں ،تو ممتاز اور بے مثال ادیبوں، شاعروں کی ایک کہکشاں نگاہوں کو خیرہ کرتی ہے۔ علّامہ اقبال، مولانا ظفر علی خان، حفیظ جالندھری، اختر شیرانی، فیض احمد فیض، سیّد عبدالحمید عدم، سیّد عابد علی عابد، صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم، احمد ندیم قاسمی، قتیل شفائی، ابنِ انشاء، احسان دانش، شورش کاشمیری، یوسف ظفر، حبیب جالب، قیوم نظر، ن۔ م۔ راشد، ایم ڈی تاثیر، شہزاد احمد، ظہیر کاشمیری، احمد مشتاق، منیر نیازی، ناصر کاظمی، سیف الدّین سیف، احمد راہی، استاد دامن، ساغر صدیقی، خالد احمد اور اے جی جوش جب کہ افسانہ نگاروں، ناول نگاروں، تنقید نگاروں، کالم نگاروں اور صحافیوں میں سعادت حسن منٹو، احمد ندیم قاسمی، حکیم احمد شجاع، امتیاز علی تاج، فیاض محمود، ایم اسلم، حجاب امتیاز علی، میرزا ادیب، راجندر سنگھ بیدی، خوشوَنت سنگھ، بلونت سنگھ، غلام عباس، کرشن چندر، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، الطاف فاطمہ، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، جمیلہ ہاشمی، رضیہ بٹ، اے حمید، عبداللہ حسین، جمیلہ ہاشمی، رضیہ بٹ، شفیق الرحمٰن، آغا بابر، انتظار حسین، چراغ حسن حسرت، پطرس بخاری، مختار مسعودجیسے بیسیوں تخلیق کار ملتے ہیں، تو نقادانِ ادب میں سیّد عابد علی عابد، پروفیسر حمید احمد خان، مولانا حامد علی خان، ڈاکٹر وزیر آغا، مولانا صلاح الدین احمد، پروفیسر جیلانی کامران، مظفر علی سیّد، سیّد علی عباس جلال پوری، ڈاکٹر وحید احمد قریشی، ڈاکٹر آفتاب احمد، ڈاکٹر جاوید اقبال اور دنیائے صحافت کے آفتاب و ماہتاب، مولانا ظفر علی خان، شورش کاشمیری، حمید نظامی، مولانا غلام رسول مہر، عبدالمجید سالک ،عبدالقادر حسن، حمید اختر، میم۔ شین جیسے نام روشن ستاروں کے مانند جگمگاتے نظرآتے ہیں۔
نیز، دینی ومذہبی ادب میں مولانا سیّد ابوالاعلی مودودی، علّامہ مشرقی، غلام احمد پرویز، نعیم صدیقی، امین احسن اصلاحی، ڈاکٹر اسرار احمدکی دینی و ادبی کاوشوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ یاد رہے، اس قلم برداشتہ فہرست میں وہ شخصیات شامل نہیں، جو بفضل ِخدا حیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں تادیر زندہ سلامت رکھے، یہاں صرف ان اہلِ علم و ادب اور اہلِ قلم کو یاد کیا جارہاہے، جن پر غالب کا یہ مشہور شعر صادق آتا ہے؎مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم.....تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے۔
علاوہ ازیں، جو ادبی رسائل و جرائد لاہور سے طلوع ہوئے اور آسمانِ ادب کوجگمگاتے کرتے رہے، ان میں اپنے معیار اور ہمہ جہت تنوّع کے اعتبار سے محمد طفیل کا ’’نقوش‘‘ سرِفہرست ہے۔ اس کے علاوہ ادبِ لطیف، نیرنگِ خیال، ادبی دنیا، ہمایوں، الحمراء، اوراق، فنون، تخلیق اور بیاض جیسے اہم ادبی جرائد بھی یہیں سے اشاعت پذیر ہوئے۔ اردو ڈائجسٹ کا نام بھی اس فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ پھر گورنمنٹ کالج، لاہور کا مجلّہ راوی اور اسلامیہ کالج کا کریسنٹ بھی قابلِ ذکر ہیں۔
شہرِ لاہور کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اسے ’’داتا کی نگری‘‘ کے نام اور حوالے سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ مشہور صوفی بزرگ حضرت داتا گنج بخش اسی شہر میں محوِ خواب ہیں۔ جنہوں نے آج سے نو سو سال قبل فارسی زبان میں تصوّف کی عالمی شہرت یافتہ کتاب ’’کشف المحجوب ‘‘قلم بند کی۔علم و ادب کے حوالے سے لاہور کی یہی پہچان تھی اور اسی پہچان کے اثرات تھے کہ جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو امریکا کو یہاں اپنے ادب و ثقافت کے بیج بونے کا خیال آیا، وہ لاہور میں ایک ایسا ادارہ قائم کرنا چاہتا تھا، جو نمایاں اور قابلِ ذکر امریکی کتب کا ترجمہ کروا کے ان کی نشرو اشاعت کا اہتمام کرے۔ اس مقصد کے لیے مال روڈ پر فیروز سنز کےبالمقابل مکتبہ فرینکلن قائم کیا گیا اور اس ادارے کے انتظام و انصرام کے لیے ’’ہمایوں‘‘ اور’’ الحمرا‘‘ کے مدیر، مولانا حامد علی خان کو سربراہ مقرر کیا گیا اور اس کام کے لیے ان کو خطیر مشاہرے پر رکھا گیا۔ وہ تقریباً 20سال اس ادارے کے سربراہ رہے، اس دوران انہوں نے مختلف موضوعات پر 750کے لگ بھگ کتب کا ترجمہ کروایا، جب کہ ترجمے کی درستی اور زبان و بیان کی صحت کی نگرانی وہ خود کیا کرتے تھے۔
لاہور کے حوالے سے کتابوں کا ذکر کیا جائے، تو پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی کی معرکتہ الآرا تصنیف ’’عربی ادب، قبل از اسلام ‘‘صرف لاہور ہی نہیں، بلکہ اردو زبان و ادب کا بھی اعزازہے کہ ایک ایسی تصنیف اس شہرِ ادب میں منصہ شہود پر آئی، جو دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ ایک زمانہ تھا، جب لاہور، مال روڈ پر تانگے چلا کرتے تھے اور ٹریفک کا بے ہنگم شوروغل نہیں تھا۔تب چھتنار درختوں کی وجہ سے اسے ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ کہا جاتا تھا، یہاں ادب محوِ خرام نظر آتا تھا۔1957-58ء میں جب ہم یہاں گورنمنٹ کالج میں زیرِ تعلیم تھے اور نیو ہاسٹل میں رہتے تھے،تو شام کو ہم تین چار دوست ہاسٹل سے نکل کر سیر کے لیے پیدل باغ جناح (لارنس گارڈن) جایا کرتے تھے۔
ہم نے کئی بار ادبی دنیا کے ایڈیٹر اور عظیم انشا پرداز، مولانا صلاح الدین احمد کو کوٹ پینٹ میں ملبوس سولر ہیٹ سر پر سجائے مال روڈ کی فٹ پاتھوں پر محوِ خرام دیکھا۔ ایک دن صبح سویرے ساغر صدیقی کو سیاہ لباس پہنے اور سیاہ چادر اوڑھے انار کلی میں تیز تیز قدموں سے جاتے ہوئے دیکھا۔ آگے بڑھ کر پوچھا’’ جناب! کہاں جا رہے ہیں۔‘‘ کہنے لگے،’’ازل سے ابد کی طرف۔‘‘ منیر نیازی سفید قمیص، شلوار میں ملبوس ماڈل ٹائون کی بڑی سڑک کے فٹ پاتھ پر ٹہلتے ہوئے ایک دوست سے یوں گویا ہوئے، ’’لوگ کہتے ہیں، مَیں نے دس سالوں سے کوئی نئی غزل نہیں کہی، مگر وہ غالب کو کچھ نہیں کہتے کہ اس نے ڈیڑھ سو سال سے کوئی تازہ غزل نہیں کہی۔‘‘
ہم نے 1970ء میں لاہور چھائونی کے صدر بازار میں ایک چھوٹے سے مکان میں سیّد عابد علی عابد کو ذیابطیس کے علاج کا ٹیکہ لگاتے ہوئے دیکھا، وہ چارپائی پر بیٹھے تھے، اسی حال میں ہمیں اندر بلا لیا اور بے تکلّفی سے باتیں کرنے لگے۔ فرمایا ’’مَیں آپ کی دعوت پر واہ چھائونی مشاعرے میں آجائوں گا، مگر آنے جانے کا کرایہ آپ کو پیشگی ادا کرنا ہوگا۔‘‘ لاہور چھائونی ہی میں ایک دوسری جگہ سیّد عبدالحمید عدم سے بھی ملاقات رہی۔ سمن آباد میں غالب روڈ پر ڈنمارک سے آئے ہوئے معروف شاعر، محمّد اقبال اختر، ہمارے ساتھ قتیل شفائی سے ملنے گئے، تو انہوں نے روک لیا۔ کہنے لگے، ’’شام کا وقت ہے، ضیافت کے بغیر نہ جانے دوں گا۔‘‘
انارکلی میں ایک دکان کے پہلو سے تنگ سی سیڑھیاں اوپر جاتی تھیں، یہاں فنون کا دفتر تھا۔ وہاں احمد ندیم قاسمی تشریف فرما ہوتے تھے۔ ایک دوسرے چھوٹے کمرے میں عبداللہ قریشی بیٹھتے۔ ایک موقعے پرالحمراء آرٹس کائونسل کے ٹی روم میں کسی ادبی تنظیم کا ہفتہ وار اجلاس ہورہا تھا، وہاں خالد احمد مل گئے، غالباً 1998ء کی بات ہے، کہنے لگے ’’آپ نے ’’بیاض‘‘ کے لیے کبھی کوئی چیز نہیں بھیجی؟‘‘ عرض کیا ’’جناب! آپ نے بیاض کبھی مجھے بھیجا ہی نہیں۔‘‘ یاد نہیں، کون سا مہینہ تھا، اس مہینے سے آج تک متواتر بیاض مل رہا ہے۔ کیا عجب محبّت کرنے والے لوگ تھے۔’’ ادب دوست‘‘ کے مدیرِ اعلیٰ اور لاہور کی ہر دل عزیز ادبی شخصیت، اے جی جوئیل مرحوم پاک ٹی ہائوس میں حلقہ اربابِ ذوق کے اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔
حلقے کی روایت یہ ہے کہ حاضرینِ مجلس میں سے کوئی کسی ادب پارے پر دورانِ بحث کچھ بھی کہتا رہے، اسے روکا یا ٹوکا نہیں جاتا۔ ایک شخص غیر متعلقہ طور پر قائد اعظم اور علّامہ اقبال سےمتعلق اپنے خبثِ باطن کا اظہار کرتا رہا۔ جوش مرحوم کرسئ صدارت پر بیٹھے پہلو بدل بدل کر باڈی لینگویج سے کرب کا اظہار کرتے رہے۔ اجلاس ختم ہوا، جوش اپنی چھڑی کے سہارے اُٹھ کر باہر نکلے۔ اس شخص نے پھر کچھ کہنے کا آغاز کیا ہی تھا کہ جوش نے اپنی چھڑی لہراتے ہوئے اُسے مخاطب کرکے کہا ’’سنو مسٹر! اجلاس ختم ہوچکا ہے۔ اگر تم نے قائداعظم اور اقبال کی شان میں گستاخی کی یا کوئی نازیبا جملہ زبان سے نکالا، تو میں یہ چھڑی تمہارے سر پر دے ماروں گا۔‘‘
پاک ٹی ہائوس کا ذکر آگیا ہے۔ کیا دن تھے، جب ہر شام یہاں مشہور و معروف ادباء و شعراء کا ہجوم ہوتا تھا۔ اس زمانے میں لاہور کی سڑکوں پر آج کی طرح شوروغل نہیں ہوتا تھا، لوگ آسانی سے ہر جگہ آ،جا سکتے تھے۔ علم و ادب کا ذوق رکھنے والے پورے مُلک کے طول وعرض سے جب لاہور آتے، تو پاک ٹی ہائوس کا چکّر ضرور لگاتے، وہاں عموماً قتیل شفائی، حبیب جالب، انتظار حسین، مظفر علی سیّد اور بعض اوقات احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، میرزا ادیب، شہزاد احمد، قیوم نظر، ظہیر کاشمیری، سجاد باقر رضوی، خالد احمد، اسرار زیدی، حمید اختر اور کئی دیگر شخصیات سے ملاقات ہوجاتی تھی۔ لوگ اپنے محبوب شاعروں اور ادیبوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے تھے؎کہاں گئے وہ زمانے ،کہاں گئے وہ لوگ۔پاک ٹی ہائوس کا ادب اور ادیب دوست مالک، جب رضائے الٰہی سے انتقال کرگئے، تو اُن کے بچّوں نے ادیبوں، شاعروں کی اس بیٹھک کو خسارے کا کاروبار سمجھتے ہوئے پاک ٹی ہائوس کی جگہ ٹائرز کی دکان کھول لی۔
تاریخی، ادبی ٹھکانہ چِھن جانے پر لاہور کے شعراء اور ادباء کا ایک وفد پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے ملا اور اپنی علمی و ادبی بیٹھک سے محرومی کی فریاد کی، تو حکومتِ پنجاب نے پاک ٹی ہائوس دوبارہ کھول دیا۔ بہرحال، اب یہ ٹی ہائوس کوئی ادب دوست شخص نہیں بلکہ حکومت کا ایک بے ذوق ملازم اور ٹھیکیدار چلا رہا ہے۔ دو تین سال قبل وہاں جانا ہوا، تو بیٹھتے ہی بیرا مینیو لے آیا۔ ہم نے منیجر کو بلا کر سمجھانے کی کوشش کی کہ ’’یہ حرکت پاک ٹی ہائوس کی روایت کے سراسر خلاف ہے۔ یہاں آنے والوں کے سامنے کوئی مینیو لا کر نہیں رکھتا تھا۔
یہاں تو اہلِ قلم اور ادب کے رسیا طلبہ اور سیّاح بیٹھنے، وقت گزارنے اور گپ شپ لگانے آیا کرتے تھے، اپنی مرضی سے جب چاہتے، چائے یا کھانے کا آرڈر بھی دے دیا کرتے تھے۔ اور کبھی کبھار کوئی ادیب اور شاعر بل ادا کیے بغیر بھی اٹھ جاتا تھااور پاک ٹی ہائوس کے مرحوم مالک اس کا مطلب یہ لیتے تھے کہ اس وقت صاحب کے پاس پیسے نہیں ہیں، پھر ادا کر دیں گے، تو وہ کبھی تقاضا نہیں کرتے تھے۔‘مگر آہ! ‘اب ایسے لوگ کہاں؟؟؎اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخ زیبا لے کر۔