آپ کے مسائل اور اُن کا حل
سوال:۔یہ تومعلوم ہے کہ حرم شریف میں نیکی کا بہت ثواب ملتا ہے، مگر کیا اسی حساب سے گناہ کا وبال بھی زیادہ ہوتا ہے؟
جواب :۔حدود حرم میں گناہ کرنا از روئے قرآن حکیم موجب عذاب ہے، مگر حدود حرم میں سرزد گناہ کتنے درجہ زیادہ ہے، اس کی تحدید کسی حدیث مرفوع میں نہیں ملتی، البتہ اس کے متعلق خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرامین ملتے ہیں ،مثلاً یہ انہوں نے فرمایا کہ میرے نزدیک حرم کے علاوہ مقام پر دس غلطیاں ( بعض روایت میں ہے) بارہ غلطیاں (بعض میں ہے) ستر غلطیاں کرنا روا ہے، اس بات سے کہ حرم میں ایک غلطی کروں، اسی طرح آپؓ کا فرمان ہے کہ میرے نزدیک مکہ میں گناہ کرنا مکہ کے علاوہ گناہ سے ستر درجہ زیادہ ہے۔
نیز عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ کسی گناہ کا ارادہ کرنے پر پکڑ نہیں ہوتی، جب تک کہ گناہ کا ارتکاب نہ ہوجائے، سوائے مکہ کہ وہاں گناہ کے ارادے پر بھی مواخذہ ہوگا۔حضرت مجاہدؒ سے منقول ہے کہ مکہ میں گناہ بھی دگنا ہے، جیسے ثواب دگنا ہوتا ہے۔ حضرت ابن جریج فرماتے ہیں کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ مکہ میں ایک گناہ سو کے برابر ہے، جیسے ایک عمل کا ثواب سو کے برابر ہے۔ حضرت اسحاق ابن منصور ؒکہتے ہیں کہ میں نے امام احمدؒ سے دریافت کیا کہ کیا ایک گناہ کے بدلے کئی گناہ لکھے جاتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ایسا صرف مکہ میں کردہ گناہ میں ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت مکہ مکرمہ میں سکونت اختیار کرنے سے اجتناب کرتی تھی، جس کے سبب فقہائے کرام حج و عمرہ کی ادائیگی کے مقصد کے علاوہ مکہ مکرمہ میں سکونت اختیار کرنے کو غیر مناسب قرار دیتے تھے، کیوں انسان خطا کا پتلا ہے، بشری بنیاد پر غلطی ہوہی جاتی ہے، پس خطا سے محفوظ نہ ہونے کی وجہ سے مکہ مکرمہ میں سکونت اختیار کرکے اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ حدیث 14092۔ کتاب الحج، فی حرمۃ البيت وتعظيمہ، ٣ / ٢٦٨، ط: مکتبۃ الرشد - الرياض۔ الدر المنثور فی التفسیر المأثور( البقرۃ، ١ / ٣٠٣، ط: دار الفکر۔الاستذکار لابن عبد البر( باب ماجاء فی الطاعون، ٨ / ٢٥٦، ط: دار الکتب العلميۃ۔ فتح القدير لابن ھمام۔ المقصد الثانی فی المجاورۃ۔کتاب الحج، مسائل منثورۃ، ٣ / ١٧٨ - ١٧٩، ط: دار الفکر)