• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سی ٹی ڈبلیو کے دو گرفتار افسران کی 10 کروڑ رشوت کی اندرونی کہانی

کراچی (اسد ابن حسن) گزشتہ ہفتے ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل میں درج مقدمہ نمبر 13/2021اور اس میں گرفتار دو انسپکٹروں جو کاؤنٹر ٹیررازم ونگ ایف آئی اے کراچی میں تعینات تھے، کی اندرونی چشم کشا کہانی سامنے آئی ہے۔ 

’’جنگ‘‘ کو ملنے والی دستاویزات کے مطابق اور باوثوق ذرائع نے انکشاف کیا کہ رشوت لینے کا راز اس وقت کھلا جب دونوں گرفتار افسران نے مبینہ طور پر 10کروڑ رشوت وصول کی اور مرکزی ملزم نعمان صدیقی کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا اور اپنی 35صفحات پر مشتمل سی ایف آر (کانفیڈینشل فائنل رپورٹ) میں اس کے اور اس کے دیگر ساتھیوں کے خلاف بھرپور تفصیلات اور شواہد کو اس رپورٹ میں شامل کردیا۔ 

سی ایف آر نمبر 9/2021 میں انکوائری (گرفتار) انسپکٹر عقیل احمد نے تحریر کیا کہ نعمان صدیقی جعلی اور کنٹرولڈ ادویات بغیر ڈاکٹری نسخوں کے امریکا، برطانیہ، ملائیشیا، سنگاپور اور چین میں فروخت کرتا تھا۔ 

اس کا ایک قریبی ساتھی جہانگیر برطانیہ میں مقیم ہے اور زیادہ تر کاروبار اسی کے ذریعے ہوتا تھا۔ جہانگیر کے متحدہ لندن سے روابط رہے اور وہ متحدہ لیڈر کے ایماء پر کراچی میں دہشت گردی میں ملوث رہا ہے۔ 

اس کے دو اہم ساتھی رہے ہیں جن میں سلیم بلجیم جو دہشت گردی کے چار مقدمات میں مفرور ہے جبکہ دوسرا ساتھی وحید بلجیم حال ہی میں پولیس کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کے ہاتھوں گرفتار ہوا ہے۔ 

سی ایف آر میں بڑی تفصیل سے رقوم کی منتقلی کے چارٹ، کس کس کو رقم کراچی میں دی گئی، کی تفصیلات ہیں۔ اس میں برطانیہ کے دو گوداموں کے ایڈریس بھی دیئے گئے ہیں۔ 

مزید نعمان صدیقی کے ساتھ کام کرنے والے افراد، سیّد علی نقوی نقوی عرف ایڈی، امان اللہ حنیف، عماد سہیل، رحمت عالم اور تنزیل الرحمٰن کے تفصیلی بیانات بھی منسلک کیے گئے تھے۔ رپورٹ میں بڑی تفصیل سے انکشاف کیا گیا کہ نعمان اور اس کے ساتھی کیسے کاروبار کررہے تھے۔ 

ساتھ ہی نعمان صدیقی کی گرفتاری (اصل میں ناجائز حراست) کے بعد تین اینگل سے اس کی تصویر بھی منسلک ہے۔ رپورٹ میں جلدی میں ایک سنگین غلطی بھی کی گئی کہ جہانگیر خان کے دو باپ دکھائے گئے، ایک ندیم اور ایک انس خان۔ دونوں کو کے ڈی اے کا ملازم دکھایا گیا ہے۔ 

نعمان صدیقی کے بار ےمیں یہ بھی تحریر ہے کہ وہ کس طرح کرپٹو کرنسی اور بٹ کوائن کے کاروبار سے منسلک تھا جبکہ رپورٹ میں یہ بھی تحریر کیا گیا ہے کہ نعمان صدیقی کے فلیٹ پر چھاپے کے دوران 65لاکھ روپے برآمد ہوئے جس کو ایک اسٹیل باکس میں بند کرکے اسٹیٹ بینک کے لاکر میں رکھوا دیا گیا ہے اور اس مد میں 3ہزار فیس ادا کی گئی۔ 

سی ایف آر میں مرکزی ملزم نعمان کا نام پہلے کے بجائے چوتھے نمبر پر تحریر کیا گیا۔ اب آتے ہیں اے سی سی میں درج مقدمے اور انسپکٹر عقیل احمد اور پرویز اختر کی گرفتاری کی تفصیلات کی طرف۔ 

ایف آئی آر میں تحریر کیا گیا ہے کہ مذکورہ دونوں افسران (حیرت انگیز طور پر پرویز اختر کو انسپکٹر ہوتے ہوئے ڈپٹی ڈائریکٹر سی ٹی ڈبلیو کا چارج دیا گیا جو ایف آئی اے کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا) نے 23جون 2021ء کو انکوائری نمبر 9/2021 نعمان احمد صدیقی کے آفس پر چھاپہ مارا اور وہاں سے مختلف الیکٹرانک آئٹم ضبط کرکے آفس لے آئے اور 23جون کو نعمان کے گھر پر بھی چھاپہ مارا اور 65لاکھ روپے قبضے میں لیے اور نعمان سمیت سات افراد کو غیر قانونی حراست میں رکھتے ہوئے دو دن بعد 24جون کو رہا کردیا جبکہ تحویل میں لیے گئے الیکٹرانک آئٹم 29جون کو سائبر کرائم فارنسک کے لیے بھجوائے گئے۔ 

حراست کے دوران نعمان کی طرف سے واصف یوکے اور عاطف نامی شخص ڈیل کروانے کیلئے انسپکٹر عقیل سے رابطے میں تھے۔

تازہ ترین