میں یہاں خود کشی کرلوں گا لیکن پاکستان نہیں جاؤں گا، خدارا میری مدد کریں ،میرے ہیلو کے جواب میں اپنے ہم وطن اور ہم زبان شخص کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی جس نے مجھے بھی چونکا دیا ،میں نے دریافت کیا کہ کون صاحب بات کررہے ہیں اور کہاں سے لیکن دوسری جانب سے شدت غم سے نڈھال رونے کی آواز مجھے مزید پریشان کئے جارہی تھی ،اتنا تو مجھے اندازہ ہوچکاتھا کہ یہ فون جاپانی امیگریشن کے حوالات سے ہی کسی پاکستانی نے مجھے کیا ہے لیکن کون ہے میں ابھی تک پہچاننے سے قاصر تھا ،دوسری طرف مسلسل ہچکیوں کے ساتھ رونے کی آواز نے مجھے سخت پریشان کردیا تھا اور اب مجھے بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں اپنے اس پاکستانی بھائی کو کس طرح تسلی دوں ، میں نے بہت ہی کم مردوں کو اس قدر شدت کے ساتھ روتے ہوئے دیکھا تھا، میرا ابھی تک ان صاحب سے تعارف نہیں ہو سکا تھا تاہم چند منٹوں میں دوسری جانب موجود پاکستانی بھائی کی تکلیف کی شدت میں کچھ کمی آچکی تھی ،جس کے بعد موصوف گویا ہوئے عرفان بھائی میں امجد (فرضی نام) بات کررہا ہوں ،آپ سے کئی سال قبل ایک ملاقات بھی ہوچکی ہے جبکہ آپ پاکستان میرے گھر بھی جاچکے ہیں یقینا اب میں امجد صاحب کو پہچان چکا تھا یہ گزشتہ بیس برس سے جاپان میں مقیم ہیں تاہم امیگریشن کی حراست میں ہونے کی وجہ میری سمجھ سے بالاتر تھی، میرے دریافت کرنے پر امجد صاحب بولے عرفان بھائی میں نے کبھی کسی پر یہ ظاہر نہیں کیا تھا لیکن میں جاپان میں غیر قانونی طور پر مقیم تھا تاہم بیس سال تک کبھی پولیس یا امیگریشن نے چیک نہیں کیا جبکہ رہائش بھی فیکٹری سے بہت ہی قریب تھی لہٰذا بیس سال تک پولیس اور امیگریشن کی پہنچ سے بچا رہا تاہم چند ماہ قبل ایک دوست سے ملاقات کے سلسلے میں ٹرین کے ذریعے دوسرے شہر جارہا تھا کہ امیگریشن کے سادہ لباس اہلکاروں نے چیک کرنے کیلئے روکا اور میرا بھید ان پر کھل گیا کہ میں جاپان میں غیر قانونی طور پر مقیم ہوں لہٰذا انہوں نے مجھے گرفتار کر لیا اور اب میں پچھلے دو ماہ سے امیگریشن کی قید میں ہوں جو مجھے جاپان سے ڈی پورٹ کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں لیکن میں پاکستان کسی بھی صورت نہیں جانا چاہتا لہٰذا آپ سے میری درخواست ہے کہ خدا کیلئے میرے لئے کسی وکیل کا بندوبست کریں یا پاکستانی سفارتخانے سے بات کریں لیکن مجھے پاکستان جانے سے بچالیں، میں نے امجد صاحب کی پاکستان نہ جانے کی اتنی شدید خواہش سے پریشان ہوگیا تھا، میں نے دریافت کیا کہ آپ کے اہل خانہ پاکستان میں ہیں ، آپ کے معاشی حالات بھی کافی بہتر ہیں جس کا میں خود مشاہدہ کرچکا ہوں لہٰذا بیس سال تک دیار غیر میں رہنے کے بعد آپ کو توخوش ہونا چاہئے کہ آپ کو اپنے اہل خانہ کے پاس جانے کا موقع مل رہا ہے لیکن امجد صاحب نے میری بات درمیان میں ہی کاٹ دی تھی اور اب مجھے امیگریشن میں ملاقات کیلئے طلب کرنے پر بضد تھے ،میں نے مصروفیات کا عذر پیش کیا تو ناراضی اور طنز کے ایسے نشتر چلائے کہ میں منع نہ کرسکا لہٰذا دو دن بعد میں ٹوکیو کے امیگریشن آفس پہنچ چکا تھا جہاں حوالات میں موجود غیر ملکیوں کو رکھا جاتا ہے ، میری ملاقات امجد صاحب سے طے تھی لہٰذا چند منٹوں بعد ہی میں اور امجد صاحب آمنے سامنے بیٹھے تھے تاہم ہمارے درمیان شیشے کی دیوار موجود تھی جبکہ بات چیت کے لئے انٹرکام کا سہارا تھا ،امجد صاحب سے ہونے والی آدھے گھنٹے پر محیط ملاقات کے بعد یہ بات مجھ پر پوری طرح عیاں ہوچکی تھی کہ امجد صاحب کامسئلہ بھی ان ہزاروں دیار غیر میں مقیم پاکستانیوں کی طرح ہی تھا جو اپنی پوری کمائی پاکستان میں اپنے اہل خانہ کے حالات بدلنے کے لئے بھیج دیتے ہیں اور آخر میں ان کے اپنے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا ،یہی کچھ امجد صاحب کا بھی مسئلہ تھا، موصوف کا پنجاب کے دیہی علاقے سے تعلق تھا ،غربت میں آنکھ کھولی ،معاشی مسائل کے خاتمے کیلئے بیس برس قبل پچیس سال کی عمر میں ایجنٹ کو رقم دے کر جاپان تو پہنچ گئے جس کے بعد ویزے کی میعاد ختم ہونے کے باوجود پاکستان واپس جانا گوارا نہیں کیا اور جاپانی فیکٹری میں ملازم ہوگئے جہاں دن رات محنت کرکے پاکستان میں اپنے اہل خانہ کے معاشی حالات بدل ڈالے، ہزاروں کے بعد لاکھوں بھی ماہانہ کے حساب سے اپنے گھر بھیجے ، اہل خانہ اب دیہات سے نکل کر لاہور کے اچھے علاقے میں منتقل ہوچکے تھے اور گاؤں کے مزارع سے تبدیل ہوکر چوہدری نام کی تختی بھی گھر کے باہر سج چکی تھی جبکہ بہترین گاڑی بھی اس گھر کی زینت بن چکی تھی لیکن امجد صاحب اب جوانی کی دہلیز پار کر کے پینتالیس برس کے ہوچکے تھے تاہم ان کے پاس جمع پونجی نام کو بھی نہ تھی جبکہ پاکستان نہ جانے کی وجہ بیان کرتے ہوئے امجد صاحب کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں وہ بتارہے تھے کہ اب تک تو جو وہ کماتے سب پاکستان بھیجتے رہے ہیں لیکن گزشتہ دو ماہ سے حوالات میں ہونے کے سبب نوکری ختم ہوچکی ہے جبکہ میرا فون بند ہونے کے باعث گھر والوں سے بھی رابطہ منقطع ہے تاہم پاکستان سے میرے دوستوں کے پاس گھر سے مسلسل فون آرہے ہیں کہ امجد سے بولو کہ گھر میں خرچے کے بالکل پیسے نہیں ہیں فوری طور پر خرچے کا بندوبست کرے ، میرے حوالات میں ہونے یا آزاد ہونے سے وہاں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جو لاکھوں روپے پاکستان بھیجتا ہے اس کے اپنے پاس کتنا مال جمع ہوگا ، امجد صاحب کے بقول بیس سال میں جاپان کی کمائی سے کروڑوں روپے پاکستان بھیجنے کے باوجود وہاں گھر والے دو مہینے بھی نہیں گزار سکے تو اگر میں بھی وہاں چلا گیا تو کیا ہوگا ، میں خود بھی لاہور میں امجد کے گھر جاچکا تھا ، ایک کنال کی کوٹھی میں رہنے والے اس کے اہل خانہ کو بالکل احساس نہیں تھا کہ ان کو بہترین سہولتیں فراہم کرنے والا امجد دو کمروں کے مکان میں پانچ افراد کے ساتھ رہتا ہے ، جہاں روز رات کو ڈیوٹی سے واپسی کے بعد آٹا گوندھ کر گھر میں رہنے والے دوستوں کے لئے روٹی پکانا ہوتی ہے ، اپنے برتن بھی خود دھونے ہوتے ہیں، اپنے کپڑے بھی خود ہی دھونے ہوتے ہیں ، یہ سب اس لئے کہ اسے ہر ماہ اپنے اہل خانہ کے لئے ایک لاکھ روپے کا خرچ بھجوانا ہوتا ہے، میری طرف سے امجد کو دیا جانے والا مشورہ بھی کارگر نہ ہوسکا کہ پاکستان جاکر اپنی ایک کنال کی کوٹھی فروخت کرکے کوئی کام دھندہ کرنے کی کوشش کرو ، پینتالیس برس کے ہوچکے ہو جاکر شادی کرو اور ایک نئی زندگی کی ابتدا کرو لیکن امجد کے جواب نے مجھے لاجواب کر دیا بقول امجدکے وہ کوٹھی بھی کرائے کی ہے کیونکہ اس کا کنبہ سات بھائیوں اور چار بہنوں پر مشتمل ہے اس لئے گھریلو اخراجات اتنا زیادہ بڑھ چکے تھے کہ کبھی گھر خریدنے کا موقع ہی نہیں ملا، اب میرے پاس امجد کو دینے کے لئے کوئی مشورہ نہیں تھا سوائے تسلیوں کے کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ غیر قانونی رہائش کے جرم میں جاپان بدر تو ہونا ہی تھا لہٰذا میں امجد کو صرف تسلیاں ہی دیکر واپس چلا آیا لیکن امجد کو یہ احساس ضرور ہوگیا تھا کہ وہ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی غربت کے حوالے سے اس قدر احساس کمتری میں مبتلا تھا کہ اس نے اپنا اور اپنے اہل خانہ کا اسٹیٹس تبدیل کرنے کے لئے میانہ روی کو چھوڑ کر تمام آمدنی ہی پاکستان بھیج کر اپنے اہل خانہ کا اسٹیٹس تو تبدیل کردیا لیکن تبدیلی کے اس چکر میں امجد اور اس کے اہل خانہ نے دکھاوے کی ایسی عمارت تعمیر کردی جس کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی اور کسی بھی وقت تیز ہوا سے بھی گرسکتی ہے۔ دیار غیر میں امجد جیسے ہزاروں پاکستانی ایسے ہیں جنہوں نے احساس کمتری کے چکر میں اپنا اسٹیٹس تبدیل کرنے کیلئے میانہ روی کی حدود کو پار کیا اور پھر غربت کی ایسی کھائی میں گرے کہ اٹھ نہ سکے۔ میری دعائیں امجد کے ساتھ ہیں کہ وہ زندگی میں ایک بار پھر کھڑاہو سکے۔