محمد حفیظ کا بیٹ مسلسل خاموش ہے۔پاکستان سپر لیگ کے کامیاب بیٹسمین صہیب مقصود انگلینڈ کے خلاف سیریز میں چھکے ضرور مارتے رہے لیکن ان کو لمبی اننگز کھیلنے اور اچھی فیلڈنگ میں مشکل پیش آرہی ہے۔جس پچ پر انگلش اسپنرز کامیاب رہے پاکستانی اسپنرز حریف بیٹنگ لائن کے اسکور کا دفاع نہ کرسکے۔شاہین شاہ آفریدی کے علاوہ بولروں کی کارکردگی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم اب ویسٹ انڈیز میں ہے جہاں پاکستان کو میزبان ٹیم کے خلاف پانچ ٹی ٹوئینٹی انٹرنیشنل میچ کھیلنا ہیں۔مصباح الحق کا کہنا ہے کہ انگلینڈ کیخلاف سیریز سے قبل ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ اسکواڈ فائنل کرنے کی بات کہی تھی،ہم اس کے بہت قریب ہیں، 8یا 9کھلاڑی اور ان کے متبادل طے ہیں، نتائج ہمارے حق میں نہیں رہے تاہم میگا ایونٹ کیلیے ممکنہ کمبی نیشن کا اندازہ ہوچکا، مسائل اب بھی ہیں۔
گذشتہ سیریز میں ٹاپ آرڈر بہتر رہی، مڈل آرڈر پرفارم نہیں کررہی،انگلینڈ کے خلاف سیریز سے قبل پاکستان ٹیم بہتر نتائج دے رہی تھی، محمد حفیظ گذشتہ سال کی کارکردگی نہیں دہرا پائے، مڈل آرڈر بھی اپنا کردار ادا کرنے لگے تو ٹیم کیلیے بہتر اور دبائو کم ہوگا،یوں ان کے بعد آنے والے لوئر آرڈر بیٹسمین شاداب خان، عماد وسیم، محمد نواز اور حسن علی بھی اچھی کارکردگی دکھا پائیں گے۔پاکستان کی ٹیم جو 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی کی فاتح تھی، اس کا انگلینڈ میں انتہائی ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنا متعدد سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اکثر مداح انگلینڈ سے ہار کو شرمناک قرار دیتے دکھائی دئیے اور پاکستانی کرکٹ مینجمنٹ میں فوری تبدیلیوں کا مطالبہ کرتے رہے۔
ایسے ہی مطالبے سوشل میڈیا پر بھی ہیں ، مصباح الحق اور وقار یونس کی بطور کوچ کارکردگی پر تنقید ہو رہی ہے۔وقار یونس کی اہلیہ کو سوشل میڈیا پر آکر یہ کہنا پڑا کہ شائقین تنقید کریں لیکن گندی زبان استعمال نہ کریں۔ وقار یونس کی اہلیہ ڈاکٹر فریال نے کہاکہ براہ مہربانی گالیاں اور میری فیملی کو موت کی بددعائیں دینے سے گریز کریں، پاکستان کی ہار مایوس کن ہےمگر کسی کو اس طرح کے نازیبا ردعمل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔
انگلینڈ سے شکست کے بعد یہ بات تو طے ہے کہ پاکستانی ٹیم کی تیاری ایسی نہیں ہے کہ ٹیم ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ میں بڑی ٹیموں کے لئے مشکلات پیدا کرے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم انگلینڈ کے خلاف ون ڈے کے بعد ٹی ٹوئینٹی سیریز بھی ہار گئی انگلینڈ نے پاکستان کو تیسرے ٹی20 میچ میں 3 وکٹوں سے شکست دے کر سیریز میں 1-2 سے فتح حاصل کر لی۔بابر اعظم نے اپنی ٹیم کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ غلطیوں کی وجہ سے شکست ہوئی۔
جبکہ ہیڈ کوچ مصباح الحق کا کہنا ہے کہ پاکستانی ٹیم مجموعی طور پر بہتر ہے، ہم ورلڈکپ کی تیاری کر رہے ہیں۔انگلش سرزمین پر ہمیں کنڈیشنز بہت زیادہ مختلف نہیں ملی تھیں۔ انگلینڈ کے ہاتھوں پہلے ون ڈے اور پھر ٹی ٹوئنٹی سیریز میں شکست کے بعد ان کا کہنا تھا کہ ہم ورلڈکپ کے لیے فائنل کمبی نیشن کی جانب بڑھ رہے ہیں، تاہم مڈل آرڈر کا مسئلہ موجود ہے۔موجودہ صورتحال میں کھیلوں کی سرگرمیوں سے متعلق کہا کہ دنیا میں ہرجگہ ہر اسپورٹس میں کوویڈ-19 کے مسائل ہیں، کوویڈ میں کھیلنا ایک چیلنج ہے۔
کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال میں دنیا بھر میں کھیل متاثر ہورہے ہیں، حالات مشکل ضرور ہیں، بائیوببل اور سفر کی وجہ سے کھلاڑی نفسیاتی دبائو کا شکار بھی ہوتے ہیں، مگر ابھی وائرس کے ساتھ ہی چلنا ہے،پاکستان اور ویسٹ انڈیز سمیت تمام ملکوں کے بورڈز میچز کا محفوظ انعقاد ممکن بنانے کیلیے کوشاں ہیں۔ ورلڈکپ کی تیاری کر رہے ہیں، ویسٹ انڈیز میں ہر گیم اہم ہے، ہوم ٹیم کیخلاف اچھا پرفارم کرکے اعتماد بحال کریں گے۔
ٹیم کے سینئر ممبر محمد حفیظ کی پرفارمنس پر بات کرتے ہوئے مصباح الحق کا کہنا تھا کہ حفیظ اس طرح رنز نہیں کر پا رہے جیسا کہ ماضی میں کئے ۔ مجموعی طور پر ٹیم بہتر ہے، کمزوریوں پر قابو پالیں تو اچھے نتائج دیں گے۔واضع رہے کہ ماضی میں پاکستان کے پاس ایسے بیٹسمین موجود تھے جو دنیا کے بڑے سے بڑے اسپنرز کے پرخچے اڑا دیتے تھےلیکن انگلینڈ کی سیریز میں شکست اس لئے حیران کن تھی کہ انگلش اسپنرز عادل رشید،پارکنسن اور معین علی نے پاکستانی بیٹنگ کو بے اثر کردیا۔
محمد رضوان بلاشبہ اچھی بیٹنگ کررہے ہیں لیکن ان کا اسٹرائیک ریٹ سلو ہے۔ایسا لگ رہا ہے کہ انہیں اسٹرائیک ریٹ تیز کرنا ہوگا ورنہ ایسا ہی لگے گا کہ وہ اپنے لئے اننگز کھیل رہے ہیں۔آخری ٹی ٹوئینٹی انٹر نیشنل میں محمد رضوان نے 57 گیندوں پر تین چھکوں اور 5 چوکوں کی مدد سے 76 رنز بنائے۔ان کے برعکس انگلینڈ کے جیس روئے 36 گیندوں پر 12 چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے 64 رنز بنانے کے بعد آؤٹ ہوئے۔محمد رضوان نے تین میچوں کی سیریز میں سب سے زیادہ 176 رنز اسکور کیے جس کی بدولت وہ کیریئر کی بہترین ساتویں رینکنگ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
مصباح الحق شاید میڈیا کے سامنے حقائق ماننے کو تیار نہیں ہے اس لئے ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ٹیم ہو، اچھی کرکٹ نہیں کھیلے تو پہلے یا بعد میں بیٹنگ سے زیادہ فرق نہیں پڑتا، بہرحال انگلینڈ میں جو بھی ہوااس کو بھلا کر اب اعتماد کی بحالی کاسفر شروع کرنا ہوگا،ورلڈکپ کے پیش نظر بھی ویسٹ انڈیز میں ٹیم کا فتوحات کے ٹریک پر آنا ضروری ہے۔
اعظم خان نمبر 6پر کھیلنے آتے رہے،ایک اننگز میں زیادہ گیندیں کھیلنے کو نہیں ملیں، دوسری میں جلد آؤٹ ہوگئے، اس نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے ہر اوور میں 15کے قریب رنز بنانے کا چیلنج ہوتا ہے،ابھی ان کے کیریئر کے بارے میں فیصلہ نہیں کرسکتے،مزید آزمانے سے حقیقی صلاحیتوں کا اندازہ ہوگا۔ ویسٹ انڈیز کیخلاف سیریز نوجوان بیٹسمین کیلیے ایک بڑا موقع ہے، اس میں بہتر اندازہ ہوگا کہ وہ ٹیم کے کتنا کام آسکتے ہیں۔
ویسٹ انڈیز نے اپنی ٹی ٹوئیٹی ٹیم کو بہترین ٹی ٹوئینٹی ٹیم بنا دیا ہے۔سیریز کے پانچ میچ یقینی طور پر کچھ کھلاڑیوں کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ہوسکتا ہے کہ ویسٹ انڈیز کی سیریز کے بعد کچھ نئے چہروں کو موقع ملے یا شعیب ملک،محمد عامر اور وہاب ریاض کو دوبارہ ٹیم میں جگہ مل جائے۔پاکستانی ٹیم انتظامیہ کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔
کپتان بابر اعظم نے امید دلائی ہے کہ کسی کو کھلانے یا نہ کھلانے سے میچ نہیں ہارے بلکہ چھوٹی موٹی غلطیوں کی وجہ سے میچ ہارے ہیں۔ امید ہے ٹیم دورہ ویسٹ انڈیز میں اچھے نتائج دے گی۔غلطیاں نہ ہوتیں تو نتیجہ مختلف ہوتا۔نتائج بدلنے کے لئے بابر اعظم کو خود فرنٹ سے لیڈ کرنا ہوگا۔