• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:ڈاکٹر رحيق عباسی ۔۔۔لندن
افغانستان سے امریکہ اور یورپی ممالک کے انخلا اور طالبان کی بڑھتی پش قدمی کو پوری دنیا گہری نگاہ سے دیکھ رہی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی ملک کے عوام کی منشا کے بغیر صرف فوجی طاقت سے کسی ملک کو تسلط میں نہیں رکھا جا سکتا۔ 20 سال بعد امریکہ کا افغانستان سے انخلا بھی اسی حقیقت کا غماز ہے۔اس سلسلے مں افغان طالبان کو فاتح قرار دینا بھی کوئی غلط نہیں ۔لیکن اس کو غلبہ اسلام کے آغاز یا اقامت اسلام یا نفاذ اسلام قرار دینے والوں سے اتفاق نہی، یا جن کا خیال ہے طالبان کے افغانستان میں قبضے سے افغانستان پھر کسی سنہرے دور میں داخل ہونے والا ہے یا خلافت راشدہ طرز کا نظام حکومت افغانستان میں متعارف ہونے والا ہے کو بھی مستقبل میں اتنی ہی مایوسی ہوگی جتنی ان کو روس کے انخلا کے بعد افغانستان سے ہوئی تھی ۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی کسی علاقے یا خطے میں اقتدار مذہب کے نام پر قائم کسی انتہا پسند طبقے کے ہاتھ میں آیا تو اس سے قتل و غارت گری اور بدامنی کو ہی فروغ ملا۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے انتہا پسند مذہبی گروہوں کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں،پہلی صدی ہجری کے خوارج سے پانچويں صدی ہجری کے باطنیوں اور فدائيوں تک اور دور حاضر میں 90 کی دہائی میں افغانستان میں طالبان حکومت سے عرب کے مختلف علاقوں میں آئی ایس آئی ایس تک اسلام کی تاریخ میں مذہبی انتہا پسند گروہوں کے نامہ اعمال مں ملت اسلامیہ کو غیر مستحکم کرنے کے علاوہ کوئی کارنامہ آپ کو نظر نہیں آئے گا۔ اس کی وجہ مذہبی انتہا پسندوں کا صرف اپنے آپ کو حق پر سمجھنا ہے ۔ ان کا يہ زعم اپنے علاوہ ہر کسی کو حسب مرتبہ گمراہ، فاسق، مرتد اور کافر سمجھنے پر مجبور کرتا ہے ۔ دوسری وجہ يہ ہے کہ ایسے گروہ مذہب کی انتہا پسندانہ تعبیر کر رہے ہوتے ہیں جو عوام کی اکثریت کے لئے قابل قبول نہیں ہوتی اور یہ کہ وہ اپنے فہم اسلام کو بزور طاقت دوسروں پر مسلط کرنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ اپنے لئے واجب اور ضروری گردانتے ہیں اور اس فريضہ کی ادائیگی کیلئے ان کے ہاتھوں ایسے ظلم و جبر کا ارتکاب اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کرواتی ہے جس سے بعد ازاں مذہبی حلقوں کے لئے بھی مذمت اور لاتعلقی کے اظہار کے کوئی اور چارہ نہں ہوتا۔ حق پر ہونے کے زعم کی وجہ سے یہ ایسے ایسےکام کر گزرتے ہںے جن کو کسی طور پر اسلامی قرارنہیں دیا جا سکتا ۔ مثلا خوارج نے حضرت علی جیسےعظیم المرتبت صحابی کو نہ صرف مرتد قرار دے کر ان کی خلافت راشدہ کے خلاف خروج کیا بلکہ آپ کی شہادت بھی ایک بد بخت خارجی کےہاتھوں ہوئی۔ طالبان اپنے پچھلے دور حکومت میں امت مسلمہ کے لئے اتنے خطرناک بن گئے کہ 2001 میں انہیں امریکہ میں بنے ہوئے ڈائنامائٹ کے طاقتور دھماکوں سے اڑا دیا گیا ۔ پاکستان مں اگرچہ تحریک طالبان افغان سے بوجوہ ہمدری رکھنے والوں کی کمی نہیں ۔ افغان طالبان بھی بظاہر پاکستان سے ہمدردی رکھتے ہں اور پاکستان میں دہشت گردی کرنے والی تنظیم تحریک طالبان پاکستان اور اس سے قبل صوفی محمد گروپ سے لا تعلقی کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن اس بات کا کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت نے ہمیشہ افغانستان میں ہی پناہ لئے رکھی ۔اور پاکستان میں مذہبی انتہا پسند گروہوں اور افغان طالبان کے فہم مذہب اور تصور ساوست کے فکری سوتے ایک ہی فکر سے پھوٹتے ہں ۔ پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کی پوری کوشش ہے کہ افغانستان دوبارہ خانہ جنگی کی طرف نہ جائے لیکن طالبان کی بڑھتی ہوئی عسکری پیش قدمی سےایک اور خانہ جنگی کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے ۔ افغان حکومت، ديگر گروہوں اور طالبان میں مذاکرات ہو رہے ہیں جن کی کامیابی کے لئے ہر درد دل رکھنے والا دعا گو ہے ۔
تازہ ترین