• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عزیر احمد

گلوبل وارمنگ کے عمل میں چند مخصوص گیسوں کا اخراج کرہ ٔ ارض کا عمومی درجہ ٔ حرارت بڑھانے کا باعث بن رہا ہے ۔ان گیسوں کو سائنسی اصطلا ح میں گرین ہائوس گیسز کہتے ہیں۔ان میں میتھین ،نائٹرس آکسائیڈ ،کلو رو فلورو کاربن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل ہیں ۔زمین پر موجود ہرانسان ،جانور اور سمندر ی حیات ماحول دشمن گیس، کاربن ڈائی آکسا ئیڈ خارج کرتی ہے۔تاہم ان کی مقدار دیگر ذرائع سے پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈکی نسبت بہت کم ہے ۔ان ذرائع میں تیل وگیس سے چلنے والے بجلی گھر ، کاریں ،سیمنٹ پلانٹ اور دیگر صنعتیں شامل ہیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق 2018 ءمیں انسانی استعمال سے 37 کروڑ ٹن اضافی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس ہماری فضا میں داخل ہوئی ۔اس میں پاکستان کا حصہ تقریباًڈھائی لاکھ ٹن ہے۔

اقوامی متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کی بڑھتی ہوئی رفتار پوری دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے ۔چند سال قبل چھ کروڑ سے افراد اس سے براہ راست متاثر ہوئے ۔ماحولیا تی تبدیلی کے بارے میں بیشتر پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ شائد صر ف اہل مغرب کا مسئلہ ہے اور ہم اس سے مکمل طور پر محفوظ ہیں ،تاہم ایسا سمجھنا قطعی غلط ہے ۔ہمارے ملک میں بھی ماحولیاتی تبدیلی اسی طر ح باعث نقصان ہے ،جس طر ح مغربی ممالک میں ہے ۔ پاکستا ن میں بتدریج کم ہوتی ہوئی برف باری ،دریائوں میں پانی کی کمی اور سرد یوں کا گھٹتا ہوادورانیہ چند ایسی علامات ہیں جو شاید ہمارے لیے تعجب کا باعث نہ ہو ں ،مگر سائنس دانوں کے لیے پریشان کن ہیں ۔

کاربن ڈائی آکسائیڈ کو ماحول دشمن گیس کہا جا تا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ فضامیں کار بن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے ۔امریکی ریاست ہوائی میں واقع ایک تجربہ گاہ کےماہرین کے مطابق پہلے ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 400 حصے فی دس لاکھ مالیکول سے تجاوز کر چکی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فضا کے ہر دس لاکھ مالیکیولوں میں سے 400 کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ہیں ۔مائونالوا نامی آتش فشاں میںواقع اسٹیشن 1958 ء سے اب تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کا ریکارڈ رکھ رہا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق اُس وقت ماحول آج کے مقابلے میں خاصا گرم تھا۔

کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ انسانوں کی پیدا کردہ سب سے اہم گرین ہائوس گیس ہے جو حالیہ عشروں میں زمین کے درجہ ٔ حرارت میں اضافے کا باعث رہی ہے ۔ انسان، کوئلہ ،گیس اور تیل جلاکر یہ گیس پیدا کرتے ہیں جو فضامیں جمع ہو جاتی ہے۔ جنگلات اور پودے اس گیس کو فضا سے جذب کرلیتے ہیں ۔ہوائی میں واقع تجربہ گا ہ کے سر براہ جیمز بٹلر کے مطابق اس ماحول دشمن گیس کی مقدار ہر گھنٹے ،روزانہ اور ہر ہفتے بدلتی رہتی ہے ۔

2015 ء میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی مقدار کے حوالے سے عالمی موسمیاتی ادارے (world meteorological organization) کی جانب سے ایک رپورٹ تیار کی گئی تھی ،جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ 2015 ء پہلا سال ہے ،جس میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کی شرح 400 حصے فی ملین کی اوسط تک پہنچ گئی تھی ۔ اس ماحول دشمن گیس کی بڑھتی ہوئی شرح نے دنیا کو ایل نینو فیکٹر کی پریشان کن صورت حال سے دوچار کردیا تھا ۔ ڈبلیو ایم او کی رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سےایل نینو فیکٹر جنگلات اور سمندر وں میں کاربن کو جذب کرنے کی صلاحیت کم کردیتا ہے۔

عالمی موسمیاتی ادارے کے سیکریٹری جنرل پیٹری ٹالاس (petteri taalas ) کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے جنگلات اور سمندروں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے صلاحیت بہتر ہوتی جاتی ہے، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں کمی آناشروع ہوگئی ہے ۔لیکن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو کم کیے بغیر ہم موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکتے اور اس کے لیے ہمیں عالمی درجہ ٔ حرارت کو انڈسٹریل دور سے پہلے کے در جہ ٔ حرارت، یعنی موجودہ در جہ ٔ حرارت سے دو ڈگری سینٹی گریڈ کم پر لانا ہو گا ۔ ماہرین کے مطابق ستمبر کے مہینے میں کاربن کے اخراج کی شرح کم ہو جاتی ہے۔ سائنس دانوں نے یہ پیش گوئی کی ہے کہ فضا میں کاربن کی شرح چار سو پارٹس فی ملین سے نیچے لانے کے لیے کئی سالوں تک انتظار کرنا پڑے گا ۔

حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ زمین کی فضا میں مضر گیس کا ربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح انسانی تاریخ میں بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے ۔ماحولیاتی سائنس دانوں کے مطابق زمینی فضا کو آلودہ کرنے میں انسانوں کا اہم کردار ہے ۔امریکا میں قائم اسکپس انسٹی ٹیوٹ برائے اوشنو گرافی کے مطابق زمین کی بالائی سطح میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار 415 فی ملین مالیکیول پائی گئی ہے۔

ماہرین کے مطابق کرہ ٔ ارض پر اس کی بلند ترین سطح موسم خزاں ،سرما اور بہار میں ہوتی ہے ۔اسکپس انسٹی ٹیوٹ برائے اوشنو گرافی کے ڈائر یکٹر رالف کیلنگ کا کہنا ہے کہ کرہ ٔ ارض کے بالائی ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے شامل ہونے کا موجودہ رجحان کئی برسوں تک بر قرار رہنے کے قوی اشارے موجود ہیں اور اس ر جحان کی وجہ سے زمین کو موسمیاتی ایل نیٹو ایفیکٹ کا سامنا کرناہوگا اور اس کے باعث کئی علاقوں کو انتہائی زیادہ درجہ ٔ حرارت ،غیر معمولی بارشوں اور خشکی کا سامنا کرنے بھی پڑے گا۔

رالف کیلنگ کے بہ قول گزشتہ برس کے مقابلے میں2019 ء میں زمینی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے شامل ہونے کی شر ح تین حصے فی دس لاکھ رہے گی ۔اگر اس ماحول دشمن گیس کے فضامیں شامل ہونے کی شر ح بڑھتی رہی تو اگلی صدی کے اوائل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی شرح ایک ہزارحصے فی دس لاکھ مالیکیول تک پہنچ جائے گی ۔ اس گیس کے اخراج نےکرہ ٔ ارض کے بالائی ماحول کو آلودہ کردیا ہے ۔

یاد رہے کہ انیسویں صدی کے صنعتی انقلاب سے قبل زمینی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی موجودگی کی شر ح تین سو حصےفی دس لاکھ تھی ۔2013 ء میں اس ماحول ِدشمن گیس نے چار سو حصےفی دس لاکھ کی حد عبور کی تھی۔ سائنسی تحقیق نے اس حقیقت سے پردہ اُٹھا یا ہے کہ تین ملین سال سے زائد عر صے پہلے بھی زمین کی بالائی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں غیر معمولی اضافہ ہورہا تھا، لیکن اُس وقت موجودہ درجہ ٔ حرارت کے مقابلے میں زمین کا درجہ حرارت تین سے چار ڈگری زیادہ پایا گیا تھا ۔

کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی مقدارہماری غذائوں کی تاثیر کو بھی متاثر کررہی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت مند غذائیں، جیسے پھل اور سبزیاں،اپنی غذائیت کھو رہی ہیں اور ان کا صحت پر ممکنہ اثر جنک فوڈ جیسا ہوسکتا ہے ۔چوں کہ پودوں کو افزائش کے لیے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ضرورت ہوتی ہے،تا ہم نئی تحقیق میں دیکھا گیا ہے کہ کاربن کی زیادہ مقدار پودوں کو نقصان پہنچا رہی ہے ۔تحقیق کے مطابق کاربن کی زیادتی کی وجہ سے غذائی پودے اپنی غذائیت کھو رہے ہیں۔

ان پودوں میں موجود اہم معدنیات جیسے پوٹا شیئم ،کیلشیئم ،آئرن ،زنک اور پروٹین کم ہوتے جارہے ہیں جب کہ کاربو ہائیڈریٹ کی مقدار زیادہ ہورہی ہے ۔ ماہرین کے مطابق صنعتی انقلاب سے قبل فضا میں 10 لاکھ کے مقابلے میں 180 ذرات کاربن کے ہوتے تھے لیکن اب کاربن کے ذرّات کی تعداد 400 سے زائد ہوگئی ہے اور اگر صورت حال یہی رہی تو 2050 ء تک یہ تعداد 550ہو جائے گی ۔ایک اندازے کے مطابق ان اثرات سے 80 کروڑ افراد متا ثر ہوسکتے ہیں۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے بچے کھچے جنگلات کو بھی کاٹ کر زراعت کی جائے گی ،یوں کاربن کے اخراج میں اضافہ ہو گا ،کیوں کہ اسے جذب کرنے کے لیے درختوں میں کمی ہوتی جائے گی۔

تازہ ترین
تازہ ترین