بات چیت: طاہر خلیل، عاطف شیرازی، اسلام آباد
عکّاسی: جہانگیر چوہدری
پاکستان کی ٹاپ سیکریٹ ایجینسی، آئی ایس آئی کے سابق افسر، میجر(ر) عامر کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ مُلکی تاریخ کے کئی اہم واقعات کے چشم دید گواہ اور کئی اہم خفیہ آپریشنز کا براہِ راست حصّہ رہے ہیں۔ سیاسی اور خارجہ معاملات پر عمیق نگاہ رکھنے کے ساتھ ادب میں بھی گہری دِل چسپی رکھتے ہیں۔
آج کل کئی جامعات، کالجز اور مدارس میں پولیٹکل سائنس، انٹرنیشنل ریلیشنز، ڈیفینس اینڈ اسٹریٹجک اسٹڈیز اور میڈیا کے موضوعات پر طلبہ کو خصوصی لیکچرز بھی دیتے ہیں۔ افغان امور کے ماہر ہیں اور تاریخ کی سب سے بڑی خفیہ جنگ میں براہِ راست حصّہ لے چُکے ہیں۔ گزشتہ دنوں اُن سے افغانستان کی حالیہ صُورتِ حال کے حوالے سے ایک تفصیلی نشست ہوئی، جس میں افغانستان اور طالبان کے مستقبل، پاکستان پر اثرات وغیرہ سے متعلق سوالات کیے گئے۔ میجر عامر سے ہونے والی گفتگو جنگ، سنڈے میگزین کے قارئین کی خدمت میں پیش ہے ۔
س: کیا افغانستان 90ء کی دہائی میں واپس جارہا ہے؟ اور اگر ایسا ہے، تو اس سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟
ج: سب سے پہلے تو مَیں آپ کا اور روزنامہ’’ جنگ‘‘ کا شُکر گزار ہوں، جو مجھے اِس قدر اہم ایشو پر رائے دینے کے قابل سمجھا۔ جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے، تو اِس حوالے سے ذہنوں میں خدشات تو ضرور موجود ہیں کہ ہم افغان صُورتِ حال سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔تاہم، ماضی اور اب میں فرق یہ ہے کہ نوّے کی دہائی میں افغان مخالف قوّتیں منتشر نہیں، بلکہ ایک دوسرے کی حریف تھیں اور اس جنگ کی قیادت جنرل ضیاء الحق کر رہے تھے۔ہم اُس جنگ میں براہِ راست شامل تھے۔ جب ضیاء الحق منظر سے ہٹے، تو سیاسی حکومتیں آئیں، جن میں افغان ایشو کے حوالے سے کوئی خاص سوجھ بوجھ نہیں تھی، جب کہ افغانستان کے حوالے سے ہائبرڈ وار شروع ہوچُکی تھی۔ مجاہدین، دہشت گرد بنا کر پیش کیے جارہے تھے۔
اُن پر فلمز بن رہی تھیں۔ ہم نے جو ثمرات سمیٹنے تھے، وہ نہ سمیٹ سکے۔ ان حالات میں ڈاکٹر نجیب اللہ کے جانے کے بعد طالبان کا ظہور ہوا۔ اِس وقت حالات بہت مختلف ہیں۔ تین سے چار لاکھ فوج افغانستان سے غائب ہوچُکی ہے، امریکا، بشمول نیٹو سرنڈر کرگیا ہے۔ نوّے کی دہائی کے برعکس طالبان اب یک سُو ہیں، عوام میں اُنھیں پذیرائی حاصل ہے، دونوں ممالک( پاکستان اور افغانستان) کے عوام کے ذہنوں میں بیس سالہ جبر کی یاد تازہ ہے، جس نے افغانستان کو ڈیزی کٹر بم، بموں کی ماں، بی ففٹی ٹو بم باری، ڈرونز اور رات گئے نیٹو کے چھاپے دیے۔
راہ چلتے لوگوں کو گولیاں ماری گئیں۔ چار سو خودکُش حملے ہوئے، بے شمار ڈرونز حملے ہوئے، ستّر ہزار سویلینز اور دس ہزار فوجی اس جنگ کانشانہ بنے، مساجد، امام بارگاہیں، چرچ ہر قسم کی عبادت گاہیں دہشت گردی کا نشانہ بنیں، جی ایچ کیو، ائیر بیسز، چھاؤنیوں، آئی ایس آئی کی بسز، دفاتر، بازاروں میں خود کُش حملے ہوئے۔اس بدترین ظلم کے بعد جو لوگ(طالبان) آئے، اُنہوں نے بیس سالہ مظالم کے براہِ راست آلۂ کاروں کو معاف کردیا اور اُن کے لیے عام معافی کا اعلان کیا۔
اُنہوں نے پاکستان کے خلاف افغانستان میں سرگرم دہشت گردوں کو وارننگ دی۔ پاکستان کو یقین دلایا کہ افغان سرزمین اُس کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ان 20 برسوں میں افغان حکم ران، حامد کرزئی اور اشرف غنی دن کا آغاز پاکستان کو گالم گلوچ سے کرتے،گویا یہی اُن کا ناشتا تھا۔ اب ان کی جگہ پاکستان کے خیر خواہ اور غم گُسار آگئے ہیں۔ یہ ہے مثبت تبدیلی اور خوش حالی، جس سے ہم پاکستانی بھی اپنی امیدیں وابستہ کرسکتے ہیں۔ بس یہی فرق ہے نوّے کی دہائی کے اور آج کے حالات میں۔
س: طالبان، افغانستان کے نمایندوں کو اپنے ساتھ ملانے سے گریزاں کیوں ہیں؟
ج: اگر مذاکرات اور مصالحت کے نام پر ان لوگوں ہی کو حکومت میں شامل کرلیا جائے، جو اس بیس سالہ جبر کے روح رواں اور معمار تھے،تو ایسا نہیں ہوسکتا۔ اگر مفتوح، فاتح ہی کو ڈکٹیشن دینا شروع کردے، تو ایسا ممکن نہیں۔ مخالف گروپس سے طالبان مذاکرات کررہے ہیں، اُن کے گھروں پر گئے ہیں، یہ اب اُن پر منحصر ہے کہ وہ اپنے مخالفین اور دوسرے گروپس کو کس حد تک حکومت میں شامل کرنا سود مند سمجھتے ہیں۔ وہ یقیناً ایسا کریں گے، کیوں کہ ابھی تک اُن کے ارادے نیک اور حکمتِ عملی لاجواب ہے، لیکن افغانستان سے باہر سے ان پر فیصلے مسلّط نہیں کیے جانے چاہئیں۔تاہم مخلصانہ مشورہ اور رائے دینے میں کوئی حرج نہیں۔
س: پاکستان کی مشکلات کے ازاے کے لیے طالبان کمیشن کا قیام کتنا اہم ہے؟
ج: اس کمیشن کا قیام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ طالبان کی پاکستان کے حوالے سے نیک نیّتی پر شک نہیں کیا جاسکتا، وہ اس کا مظاہرہ بھی کرچُکے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اب افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔اب افغان سرزمین سے ہمارے لیے خود کُش بم بار نہیں، امن اور خوشی کے سندیسے آئیں گے۔
س: ماضی میں’’ مَری مذاکرات‘‘ کا نتیجہ کیا نکلا؟
ج: افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی سات، آٹھ کوششیں ہوئیں۔ بون کانفرنس کے موقعے پر اشرف غنی،رمز فیلڈ اور بش نے اس کی مخالفت کی تھی۔ زلمے خلیل زاد نے حامد کرزئی اور طالبان کے مابین روابط کی کوشش کی۔ اُس وقت امریکی وزیر خارجہ اور وزیرِ دفاع نے طالبان کو کابل میں سیکیوریٹی دینے سے انکار کرتے ہوئے مذاکرات ناکام کیے، پھر ایک بار آغامحتسم سعودی عرب میں مذاکرات کے لیے گئے، تو امریکا نے سعودی عرب سے کہا کہ مذاکرات میں ایسی شرائط رکھو، جو ناقابلِ قبول ہوں۔
چوتھی بار میونخ کے نواح میں آغا طیّب امریکیوں سے ملا، جس کے نتیجے میں قطر میں دفتر کُھلا اور حامد کرزئی نے کہا کہ مذاکرات میرے ساتھ ہونے چاہئیں، یہ دَور بھی ناکام گیا۔ اس کے بعد قطری امیر، حمّاد بن خلیفہ، اوباما سے ملے اور مذاکرات کے لیے لائن آف ایکشن دیا۔ قطر میں دفتر پر اماراتِ اسلامی کا جھنڈا لہرایا گیا، تو کرزئی نے کہا کہ جھنڈا اُتارا جائے، یوں وہ مذاکرات بھی ناکام ہوگئے۔ مُلّا برادر کے ذریعے کوشش کی گئی، پھر امریکا نے مُلّا برادر کو پاکستان کے ذریعے پکڑوا دیا اور اُنھیں جیل میں ڈالا گیا، جس کے بعد مذاکرات ناکام ہوگئے۔
پھر پاکستان میں مَری مذاکرات شروع کیے گئے، ابھی دوسرا دَور ہونا تھا کہ اشرف غنی اور امریکیوں نے مُلّا عُمر کی وفات کی خبر لیک کروادی اور بلوچستان میں ایک ڈرون حملے میں طالبان کے امیر، مُلّا اختر منصور کو نشانہ بنایا گیا۔ اب جب امریکیوں کو شکست صاف نظر آنے لگی، تو اُنہوں نے افغان حکومت کی پروا کیے بغیر دوحا معاہدہ کیا اور یوں امریکا نے افغانستان سے نکلنے کا محفوظ رستہ ڈھونڈ نکالا۔ طالبان نے مذاکرات میں کبھی بھی روڑے نہیں اٹکائے۔
ہماری حکومت مُلّا برادر کو حامد کرزئی کے حوالے کرنا چاہتی تھی، مگر اُس وقت کے وزیرِ داخلہ، چوہدری نثار علی رکاوٹ بن گئے اور اُنہوں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ چوہدری نثار اور نواز شریف کے مابین شروع دن سے فاصلے تھے، ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی بنی، لیکن جب ٹی وی پر تصویر چلی، تو چوہدری نثار افسران کی نشستوں پر بیٹھے تھے اور نواز شریف کے ساتھ عرفان صدیقی بیٹھے تھے، بہرحال مَیں اس کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا۔بہت سارے معاملات میں چوہدری نثار کی مفید اور مستند رائے کو مسترد کر دیا گیا۔ وہ چار سال چوہدری نثار نے کن ناموافق حالات میں گزارے، مَیں اچھی طرح جانتا ہوں۔
س: چوہدری نثار علی خان کے لیے اب کون سے راستے موجود ہیں؟
ج: میری رائے میں اُن کے پاس دو راستے ہونے چاہئیں۔چوہدری نثار سازشیں نہیں کرتے اور نہ ہی گروپ بناتے ہیں اور وہ کسی کا آلۂ کار بھی نہیں بنتے۔ ایسے سیاست دان کبھی بھی سیاسی منظرنامے سے غائب نہیں ہوتے۔ اللہ، چوہدری نثار کو لمبی زندگی دے، ایسے سیاست دان تو دنیا سے جانے کے بعد بھی سیاسی میدان میں موجود رہتے ہیں۔ بھٹّو، مولانا مودودی، خان عبدالولی خان اور اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں۔ چوہدری نثار کے پاس میری نظر میں پہلا آپشن مسلم لیگ (نون) ہی ہونا چاہیے۔ دوسرا آپشن پاکستان تحریکِ انصاف ہے۔
چوہدری نثار کا کم سے کم رول قومی سطح کا ہے، اس کے لیے پلیٹ فام بھی بڑا ہونا چاہیے۔ اس وقت پاکستان کی بڑی قومی جماعت، تحریکِ انصاف ہے۔ میرا تحریکِ انصاف سے تعلق نہیں ہے، لیکن میری غیرجانب دارانہ رائے میں تحریکِ انصاف ایک ایسی قومی جماعت ہے، جو پاکستان کی ہر بستی میں موجود ہے۔ کسی سے بھی بات کرو، تو جواب ملتا ہے،’’ عمران خان ٹھیک ہے‘‘، لیکن تنقید ان کے ساتھیوں اور ٹیم پر ہوتی ہے۔ عمران خان نے دو بڑے کام کیے۔ ایک انھوں نے سِول ملٹری تعلقات ہماری قومی تاریخ میں بہترین سطح پر رکھے، جس کا نہ صرف اُنہیں بلکہ مُلک کو بھی فائدہ پہنچا۔
ماضی کی حکومتوں کی نالائقی کی وجہ سے86زار شہداء کی قربانیوں، بیس سالہ بدامنی اور پڑوس سے آئی دہشت گردی کانشانہ بننے کے باوجود پاکستان فیٹف( ایف اے ٹی ایف) کی لسٹ میں شامل ہے۔ پاکستان جو دراصل معصوم تھا، عالمی سطح پر ملزم اور مجرم بن گیا۔ہماری حکومتیں اس حوالے سے بہت دفاعی پوزیشن رہی ہیں اور اپنا کیس پیش نہیں کرسکیں۔ عمران خان اس معاملے میں مختلف رہے ہیں۔ اسلامو فوبیا ہو، بھارت کی جارحیت ہو، مودی کے مظالم ہوں یا ہندو توا ہو اور مسلمانوں کے خلاف عالمی تعصب ہو، عمران خان کا رویّہ مدافعانہ یا معذرت خواہانہ نہیں، بلکہ جارحانہ رہا ہے، جو ماضی میں نہیں دیکھا گیا۔ اور اسی کی ضرورت ہے اور آنے والے دنوں میں عمران خان کی کام یابی کو ممکنات سے باہر نہیں سمجھتا۔
س: موجودہ صُورتِ حال میں سی پیک کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟
ج: طالبان کے آنے سے ظلم اور سازشوں کا دور اختتام کو پہنچا۔ مَیں طالبان کو اس خطّے کے لیے اُمید کی کرن سمجھتا ہوں۔ وسیع البنیاد حکومت کے نام پر جو کھیل کھیلا جارہا ہے، اس کا مقصد طالبان کو مکمل اقتدار اور اختیار سے محروم رکھنا ہے تاکہ بیس سالہ گند کا تسلسل قائم رہے۔ اس کے پیچھے سب سے بڑا فیکٹر امریکا ہے۔ کبھی ٹرائیکا پلس کے نام پر، تو کبھی افغانستان کے نو ارب ڈالرز منجمد کردیے جاتے ہیں۔
جی سیون کے اجلاس میں طالبان کو قابو کرنے کا ایجنڈا زیرِ غور لایا گیا۔سی آئی اے کے سابق سربراہ، رابرٹ گیٹس نیویارک ٹائمز میں لکھ چُکے ہیں کہ افغانستان سے نکلنے کے باوجود ہمیں خدشہ ہے کہ چین، ایران تک بی آر آئی بنا لے گا اور افغانستان کے وسیع ذخائر تک بھی رسائی حاصل کر لے گا۔اِس وقت امریکا کا سب سے بڑا ہدف چین ہے اور دوسرا نشانہ سی پیک ہے۔ اس سلسلے میں آپ کو امریکی اداروں کے بارے میں اپنے ایک آپریشن کی تفصیلات بتانا چاہوں گا۔ یہ 1988ء کی بات ہے۔
پاکستان میں یونیسیف میں تعیّنات نمبر وَن اور نمبر ٹو سویڈن اور امریکی یہودی تھے اور دونوں سی آئی اے کے ایجینٹس تھے۔ان کی مدد سے امریکا، گلگت بلتستان اور آزاد جمّوں وکشمیر پر مشتمل ایک آزاد ریاست کی تشکیل چاہتا تھااور اس کے لیے امریکا نے کچھ اغراض ومقاصد متعیّن کیے تھے، جس کا پہلا مقصد پاکستان کے چین سے رابطے منقطع کرنا تھا تاکہ چین گوادر تک نہ پہنچ سکے۔ دوسرا مقصد پاکستان کو کٹ ٹو سائز کرنا تھا اور تیسرامقصد یہاں چین اور روس کے خلاف اڈّے قائم کرنا تھا۔ امریکیوں نے اس کا سلسلہ بیلجیم تک پھیلا رکھا تھا۔
ایک دن مَیں نے اپنے کمانڈر بریگیڈیئر، صغیر اور کرنل شاہد قریشی سے کہا کہ’’ آپ کو دفتر سے نکل کر فیلڈ میں آنا ہوگا۔ یہ اِتنا بڑا کام ہے کہ میرے اکیلے کے بس کی بات نہیں۔‘‘ دونوں نے میرے ساتھ جاگ کر دُور دراز علاقوں میں راتیں گزاریں۔ ہم نے تمام ثبوت اور دستاویزات اکٹھے کیے اور یہ ثبوت صدر غلام اسحاق خان کے حوالے کیے۔ اگلے دن امریکی سفیر رابرٹ اوکلے کو بُلا کر سب کچھ اُن کے سامنے رکھا گیا۔ایسا لگ رہا تھا کہ سفیر کو سب کچھ پتا تھا، اُس نے کہا کہ’’ آپ کچھ نہ کریں، ہم انھیں نکال دیں گے۔‘‘دِل چسپ بات یہ ہے کہ جب بے نظیر بھٹّو وزیرِ اعظم بنیں اور آئی ایس آئی میں بریفنگ لینے آرہی تھیں، تو اُنہیں ۹کاؤنٹر انٹیلی جینس آپریشنز پر بریفنگ دی گئی، اُن میں سے سات آپریشنز میرے تھے۔
ایک آپریشن کا نام"وائٹ اسنیک"تھا۔ جب جنرل حمید گل نے محترمہ بے نظیر بھٹّو کو اس آپریشن کی تفصیلات دینا شروع کیں، تو اُس وقت کے نیشنل سیکیوریٹی کے ایڈوائزر، اقبال اخوند نے مداخلت کرتے ہوئے کہا،’’ مَیں خود یونیسیف میں رہا ہوں، وہ اِن چیزوں میں نہیں پڑتے‘‘، جس پر جنرل حمید گل نے کہا،’’ مسٹر اخوند! تمہارا کام ظاہری کام جاننا ہے اور میرا کام ان کے خفیہ کام جاننا ہے۔‘‘ جب تفصیلات پیش کیں، تو اُنہیں سانپ سونگھ گیا۔ اس میٹنگ میں ماحول کافی مخاصمانہ تھا۔
اُن ہی دنوں ایک کتاب چَھپی، جو اُن دستاویز کا مجموعہ تھی،جو ایرانی پاسدارانِ انقلاب نے امریکی سفارت خانے پر قبضے کے بعد حاصل کی تھیں۔ مَیں وہ کتاب لے کر حمید گل کے پاس گیا اور انھیں اُس میں شامل ٹیلکس دِکھایا، جو امریکی سفیر نے تہران سے واشنگٹن بھیجا تھا اور اس میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے تفصیلات تھیں۔ ٹیلیکس کے آخر میں لکھا تھا،’’یہ ایران میں متعیّن پاکستانی سفیر ، اقبال اخوند نے فراہم کیں تھیں۔‘‘ ٹیلیکس کے آخر میں سفیر نے لکھا تھاکہ "The source to be protected"یعنی’’سورس کا تحفّظ کیا جائے۔‘‘ ایسا شخص ہماری قومی سلامتی کا مشیر تھا۔
جنرل حمید گل نے ہنس کر کہا،’’ کیسی زبردست قوم ہے۔ امریکا نے اپنے سورس کا تحفّظ کیسے کیا ہے۔‘‘ اب جب عملاً سی پیک ظہور میں آرہا ہے، تو پھر وہ کیسے آرام سے بیٹھیں گے؟ وہ پاکستان، افغانستان اور چین کو کیسے خوش حالی اور سلامتی کے منصوبے بنانے دیں گے؟تاہم، آج بھی ہمارے ہاں وہ سپوت موجود ہیں، جو انھیں کام یاب نہیں ہونے دیں گے۔
س: ہم امریکا کے اسٹریٹیجک پارٹنر بھی تو رہے ہیں۔ اس حوالے سے آپ کیا کہتے ہیں؟
ج: جنوبی ایشیا میں بھارت کو چین کے خلاف گروہ کا سرغنہ بنایا گیا ہے۔ ہم نے تو امریکی اتحاد کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ سی آئی اے کے ولیم کیسی کو جنرل ضیاء الحق نے کہا تھا کہ’’ امریکا کا اتحادی ہونا ایسے ہی ہے، جیسے آپ زور آور دریا کے کنارے انتہائی زرخیز زمین پر بیٹھے ہیں، دریا ہر تین، چار سال بعد رُخ بدل لیتا ہے اور پھر آپ اپنے آپ کو لق ودق صحرا میں تنہا پاتے ہیں۔‘‘ البتہ، ہمیں اسٹریٹیجک پارٹنر شپ سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔
س:آپ نے اپنے اس اتحادی کے لیے جنگیں کیوں لڑیں؟جن میں سے ایک میں آپ خود لیڈنگ رول ادا کررہے تھے؟
ج: دونوں افغان جنگوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ پہلی جنگ ہماری، جب کہ دوسری خالصتاً امریکیوں کی تھی۔ جون 79ء میں آئی ایس آئی نے جنرل ضیاء کو لکھا کہ’’ روسی افغانستان میں آرہے ہیں۔‘‘دسمبر 79ء؍ میں جب روسی ،افغانستان میں گھس آئے، تو اگلے دن جنرل ضیاء نے جی ایچ کیو کا دورہ کیا اور بریفنگ لی۔ اس موقعے پر اُنھوں نے کہا کہ’’ افغانستان کی صُورتِ حال اِس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ روس مزید فوج لے آئے۔ ایسا کرنے کے لیے اُنہیں مزید دس سال درکار ہوں گے۔
اس سے پہلے کہ وہ مزید فوج لانے کے لیے سہولتوں کا بندوبست کرے، ہم انہیں انگیج کرلیتے ہیں۔‘‘ ضیاء الحق کمال کے جرنیل تھے، اُن کی دلیری اور بصیرت انتہا کی تھی۔ کاش! وہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نہ ہوتے، بھٹّو جیسے لیڈر کو پھانسی نہ دیتے اور صحافیوں کو کوڑے نہ مارتے۔ اس حیثیت میں اپنے لیے نفرت نہ کماتے، تو تاریخ اُن کے قصیدے لکھتی۔مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ضیاء الحق، جنرل ضیاء الحق کو کھا گیا۔ میرے لیے بھی اُن کے عسکری کارنامے بیان کرنا مشکل ہیں۔ بہرحال، اگلے دن وہ آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر آئے۔ آئی ایس آئی کے پاس افغانستان کے نقشے نہیں تھے۔
جنرل ضیا نے جنرل اختر سے کہا کہ’’ مَیں یہاں آنے سے پہلے ہی روسیوں کے خلاف جنگ کا فیصلہ کرچُکا ہوں۔ مَیں اُس وقت تک لڑوں گا، جب تک روسیوں کو دریائے آمو کے پار نہ دھکیل دوں۔ آپ اپنی تیاری کر لیں، مَیں پھر آؤں گا۔‘‘ جمی کارٹر نے اپنے مشیر، برزنسکی کے ذریعے کہلوایا،’’ آپ افغانستان سے دُور رہیں، ہم ڈیورنڈ لائن کو مستحکم کرتے ہیں۔‘‘ جنرل ضیا نے جواب دیا، ’’آپ کی تجاویز کا شُکریہ۔ ہم افغانستان میں انہیں دھکیلیں گے اور پار نکالیں گے۔‘‘ وہ جنرل ضیاء کو روزانہ فون کرتا اور کہتا کہ روسیوں کو اشتعال مت دلاؤ۔
یہ جنگ ہم نے لڑی کہ روس کا مقصدصرف افغانستان تک رہنے کا نہیں تھا۔ روس کو دشمن بنانے میں غلطی ہماری تھی، بڈھ بیر کا اڈّا دیا، یو ٹو جہاز کو گرا کر ہم سمجھے تھے کہ ان کے پاس ثبوت نہیں ہیں۔ اس وقت صدر کے کہنے پر وزیرِ خارجہ بھٹّو نے پریس کانفرنس کی اور اس واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ شام کے وقت پائلٹ گیری کو ٹی وی پر دِکھا کر سب کچھ کہلو ا دیا گیا۔ سردار داؤد تو ہمارا بندوبست کرنے کے لیے آئے تھے، لیکن دورۂ لاہور کے بعد ان سے ہمارے تعلقات ٹھیک ہوگئے۔ جب داؤد کے دل میں پاکستان کے لیے نرم گوشے پیدا ہوئے، تو انھیں مار دیا گیا۔ ا س کے بعد نور محمّد ترکئی آیا، اُس کے دل میں بھی پاکستان دشمنی تھی۔ جب جنرل ضیاء سے ملاقات ہوئی، تو غلط فہمیاں دور ہوگئیں، مگر اُسے بھی قتل کردیا گیا۔اس کے بعد حفیظ اللہ امین آئے اور قتل کردیے گئے۔
ہمارے ہاں سندھو دیش اور گریٹر بلوچستان کی تحریکیں چل رہی تھیں، جن کے روح رواں کابل میں بیٹھے تھے۔71ء میں بھارت سے مل کر پاکستان توڑ دیا گیا۔ دونوں جنگوں کا تقابل دیکھیں۔پہلی افغان جنگ ہم نے شروع کی، جب بیس سال بعد امریکا نے دیکھا کہ ہم نے دشمن کو درے کی بندوقوں کے ساتھ گھیرا ہوا ہے،تو دوسری جنگ ہم نے امریکا کی کال پر شروع کی اور اس جنگ میں ہم غلام اور نوکر بن کر لڑے۔ کمانڈ اُن کے ہاتھ میں تھی۔ سی آئی اے کے دفاتر ہمارے قبائلی علاقوں میں کھول دیے گئے۔ سی آئی اے کی نگرانی میں ہمارے علاقوں میں چھاپے مارے گئے۔
اُس جنگ میں ہماری بندوق ،جارح کے خلاف افغانیوں کے کندھے پر تھی، اِس جنگ میں ہماری بندوق جارح کے کندھے پر افغانیوں کے خلاف تھی۔ اُس جنگ میں الذولفقار کی دہشت گردی کا خاتمہ کیا، افغان سرزمین پر بھارتی اثرو رسوخ ختم کیا، اِس جنگ میں ہمارے خلاف ہربیار مری،براہمداغ بگٹی اور ڈاکٹر اللہ نذر کے دہشت گردی کے ٹریننگ کیمپس بن گئے۔ اسِ جنگ میں ہم دہشت گردی کا شکار ہوئے، ہمارے 86 ہزار سویلیز اور فوجی دہشت گردی کا نشانہ بنے اور امریکا ہم سے’’ ڈو مور‘‘ کہتا رہا۔ دشمن نے جھوٹ بول کر ساری دنیا کو گم راہ کیا۔بقول پروین شاکر؎’’ مَیں سچ کہوں گی، مگر پھر بھی ہار جاوں گی… وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا۔‘‘ ہمارا المیہ ہے کہ ہم سچ بول کر نہیں ہارے۔
یہ ہائبرڈ وار کا زمانہ ہے۔ یہ’’ الفاظ‘‘ کا دور ہے۔ اس ہائبرڈ وار کی آنر شپ آپ لیں۔ یہ فکری اذہان سازی کا دور ہے،مگر مسئلہ میرے دانش وَروں اور قیادت میں ہے، جنہوں نے میرے معصوم وطن کو مجرم بنا دیا۔اب جنگوں کا دارو مدار میڈیا پر ہے۔ اجمل قصاب نان اسیٹٹ ایکٹر تھا، مگر اس کی پاداش میں بھارت نے ہمیں عالمی کٹہرے میں لا کھڑا کیا، جب کہ کلبھوشن اسٹیٹ ایکٹر تھا، وہ حاضر سروس افسر پکڑا گیا، لیکن ہم اُس کا کیس نہیں لڑ سکے۔ یہ ہائبرڈ وار ہم ہار چُکے ہیں، جس کے ذمّے دار ہماری سیاسی قیادت اور دانش ور ہیں۔مَیں ایمان داری سے محسوس کرتا ہوں کہ آنے والی جنگ کادارو مدار میڈیا پر ہوگا اور اس کی آونر شپ آپ ہی کو لینی ہے ۔