وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کی تین سالہ کارکردگی کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں اعلان کیا ہے کہ لوگ خوشحال ہو رہے ہیں اللّٰہ کرے آنے والے برسوں میں ان کا یہ دعویٰ پورا ہو اور عوام کی بھی اپنےخوابوں کے پورا ہونے کی کوئی امید بندھے جو کہ حقیقت میں اب تک پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی۔
وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد کی بیوروکریسی کے تیار کردہ نکات کی روشنی میں بڑا زبردست اعلان تو کر دیا ہے لیکن عملاً یہ بات پاکستان کی ایلیٹ کلاس کے 8سے 10 فیصد شہریوں اور سرمایہ کاری پر ہی پورا اترتی نظر آتی ہے۔ عمومی حالات اس کے برعکس ہیں۔
اس لئے کہ خود موجودہ حکومت کے تین برسوں میں مہنگائی اور اقتصادی پریشانیوں میں اضافہ ہی ہوا ہے یہی صورتحال مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ادوار میں بھی تھی لیکن اس کی رفتار قدرے کم تھی اور دوسرا یہ کہ ان حکومتوں نے سول سوسائٹی، میڈیا اور بااثر شخصیات کی بہتر مینجمنٹ کی ہوئی تھی جس کی وجہ سے سو فیصد سنگین مسئلہ بھی اتنا زیادہ سنجیدہ محسوس نہیں ہوتا تھاجتنا اس دور میں ہوتاہے، اس کی بنیادی وجہ گورننس بھی ہے جس پر حکومت زیادہ توجہ دینے میں کامیاب نہیں رہی۔
کورونا کی وجہ سے معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کی زد میںتو ہم آہی گئے ہیں لیکن اچھی گورننس کے ذریعے عوام اور خاص کر متوسط طبقے کو مطمئن نہیں کر سکے۔ حکومت کی تین سالہ کارکردگی کے دعوے اور حقائق ایک دوسرے سے متصادم ہیں جن کا خمیازہ آنے والے برسو ںمیں حکومت اور عوام دونوں کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔
حکومت کیلئے فی الحال سال سوا سال کا گولڈن پیریڈ باقی ہے جس میں وہ صحیح اور متوازن اقتصادی اصلاحات کے ذریعے عوام کو مطمئن کر سکتی ہے ورنہ گرتی پڑتی اپوزیشن حکمرانوں کی ان خامیوں اور نااہلی سے فائدہ اٹھا کر سیاسی میدان میں پوائنٹ سکورنگ کر سکتی ہے۔
حکومت کے تین سالہ دور میں ملکی برآمدات اور زرِ مبادلہ کے ذخائرمیں اضافہ قابلِ تعریف ہیں لیکن آنے والے دنوں میں یہ شعبے بھی دبائو میں آنے والے ہیں۔
اس لئے حکومت کو فوری طور پر ڈومیسٹک اکانومی بہتر بنانے پر توجہ دینی ہو گی جس سے 90 فیصد آبادی کو یہ بات سچ معلوم ہو سکے کہ لوگ خوشحال ہو رہے ہیں ابھی تک تو دل یہ بات ماننے کو تیار نہیں کیونکہ پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ حالیہ20-25بر سوں میں اعدادوشمار کے صحیح بیان کا ہے۔
یہاں پچھلی دو حکومتوں کے ادوار سے یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے کہ اعدادو شمار کی جادوگری سے عوام کو طرح طرح کے سہانے خواب دکھائے جارہے ہیں جبکہ عملی طور پر حالات اس کے برعکس ہیں اور عام آدمی کی زندگی معاشی حالات کی خرابی کی وجہ سے اجیرن ہوتی جا رہی ہے جس سے سماجی مسائل اور جرائم کے رحجان میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اگر ملک میں صحیح اقتصادی اصلاحات سے روزگار کے مواقع بڑھیں اور کاروبار کے لئے آسانیاں اور دستاویزی معیشت کا نظام یقینی ہو توپھر ہم خوشحال قوم بن سکتے ہیں۔
اس سلسلہ میں مایوسی کی بات نہیں، سمجھداری اور حقائق کی روشنی میں صحیح عوامی اقتصادی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے جس سے عام شہری مطمئن ہو سکے اورتبدیلی کے نعرے پر یقین کر سکے۔