معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا ہے کہ ریبیز کے خاتمے کے لیے آوارہ کتوں کی نسل کشی آخری چارَہ کار ہونا چاہیے کیونکہ کسی بھی جاندار کی جان لینا اخلاقی اور مذہبی طور پر صحیح نہیں لیکن آوارہ کتوں اور ریبیز کا خاتمہ محض ویکسینیشن اور کتوں کی نس بندی سے ہونا بھی ممکن نہیں۔
عالمی ریبیز ڈے کے حوالے سے ریبیز فری پاکستان اور انڈس اسپتال کراچی کے تعاون سے ہونے والے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا تھا کہ آوارہ کتوں اور ریبیز کے خاتمے کے لیے تمام آپشنز کو بیک وقت استعمال کرنا چاہیے۔
آن لائن سیمینار میں ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ پاکستان ڈاکٹر رانا صفدر، ایگزیکٹو ڈائریکٹر قومی ادارہ برائے صحت میجر جنرل عامر اکرام، گیٹز فارما کے ایم ڈی خالد محمود، ڈاکٹر نسیم صلاح الدین، ڈاکٹر وجیہہ جاوید سمیت پاکستان بھر سے ماہرین نے شرکت کی۔
اس موقع پر وفاقی وزارت صحت اور قومی ادارہ برائے صحت کے حکام کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آوارہ کتوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہو چکی ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر سال ریبیز کی بیماری سے کم از کم پانچ ہزار افراد جاں بحق ہو جاتے ہیں، کسی بھی کتے کے کاٹنے کے فوری بعد ایمیونو گلوبلن ( Immunoglobulin) زخم کے اطراف یا اندر لگایا جانا چاہیے اور ویکسینیشن کی جانی چاہیے۔
ڈی جی صحت پاکستان ڈاکٹر رانا محمد صفدر کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر سال کم از کم 5 لاکھ افراد کو آوارہ کتے کاٹ لیتے ہیں جن میں زیادہ تر بچے شامل ہوتے ہیں اور پاکستان کو ہر سال اینٹی ریبیز ویکسین کی تقریباً 10 لاکھ ویکسین ڈوزز کی ضرورت ہے۔
اس موقع پر انڈس اسپتال کی ماہر ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کا کہنا تھا کہ کتے کے کاٹنے کے زخم کو فوری طور پر صابن اور پانی سے دھونے سے 30 فیصد تک ریبیز سے بچا جا سکتا ہے۔