صفیہ سلطانہ صدیقی
امی ابو کے کمرے کی چوکھٹ8 سالہ دانش کے بیٹھنے کی پسندیدہ جگہ تھی۔کورونا کی وجہ سے اسکول بند تھے، لیکن دانش روز جلدی اٹھ جاتا ، اپنے کھلونے لے کر چوکھٹ پر بیٹھ جاتا اور کھیلتا رہتا۔ دوسرے بچے امی کے کمرے میں کسی کام سے جاتے تو وہ ان کے لیے راستہ نہیں چھوڑتا، جس کی وجہ سے وہ امی سے شکایت کرتے ، وہ اسے چوکھٹ سے ہٹ کر کھیلنے کا کہتیں لیکن وہ ان کی بات نہیں مانتا۔ بینش آپی کو اس کا اس طرح چوکھٹ پر کھیلنا بہت برا لگتا، ان کی بھی بات نہیں مانتا۔ وہ جھلا کر کہتیں ’’دانش یہاں بیٹھ کر ہم سب کی جاسوسی کرتا ہے!‘‘ ان کی بات پر سب ہنستے تو دانش سمجھتا کہ اس کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔
دانش حسب معمول چوکھٹ پر بیٹھا کھیل میں مشغول تھاکہ 5 سالہ زرنش اس کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔ زرنش نے چابی سے چلنے والے روبوٹ کو گردن پکڑ کر اٹھالیا۔ اس کی گردن کی حرکت تو رک گئی مگر ٹانگیں بدستور چلتی رہیں جنہیں دیکھ کر ننھا زرنش ہنستا رہا۔ اسی دوران بینش آپی سب کے لیے لسی بنا کر لائیں اور انہوں نے ان دونوں بھائیوں کو بھی ایک ایک گلاس پکڑا دیا۔
دانش نے اس سے روبوٹ چھیننے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں زرنش کے ہاتھ سے گلاس چھوٹ کر زمین پر گر گیااور کمرے کی چوکھٹ پر لسّی کے ساتھ شیشے بھی بکھر گئے۔ زرنش گھبرا کر برآمدے کی طرف بھاگا تو اس کا پیر شیشے کے ٹکڑے پر پڑاجس سے اس کا پاؤں کٹ گیا اور خون بہنے اوروہ منہ کے بل گرا۔
ابو امی اسے اٹھانے کے لیے بھاگے، فرش پر پڑی لسی پر پیر پڑنے سے امی بھی پھسل کر گریں ان کے بھی چوٹیں آئیں۔ ابو اور بھائی ان دونوں کو اسپتال لے کر گئے ۔ امی کی مرہم پٹی کی گئی جب کہ زرنش کے زخم پر چار ٹانکے لگے۔امی اور زرنش کو اسپتال لے جانے کے بعد تمام بھائی، بہن اسے ابو کے غصے سے ڈراتے رہے۔
اسپتال سے واپس آنے کے بعد بھائی اور ابو نے اسے چوکھٹ پر کھیلنے سے سختی سے منع کردیا۔ دانش کے اسکول کھل گئے اور وہ اسکول جانے لگا ، اس طرح چند ماہ سکون سے گزر گئے۔ ایک روز اتوار کی چھٹی تھی، دانش نے ایک بار پھر چوکھٹ پر کھلونوں کی دکان سجا لی تھی جس کی وجہ سے دوسرے بچو ں برآمد ے یا امی کے کمرے میں جانے کا راستہ بند ہوگیا تھا۔
آپی امی کے کمرے کی طرف آئیں تو دانش نے انہیں کمرے میں جانے کا راستہ نہیں دیا تو وہ وہیں سے چیخیں، ’’امی اس نے تو پریشان کیا ہوا ہے۔ دوسرے روز جب وہ اسکول سے واپس آیا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے دادا ابو فوت ہوگئے ہیں۔ وہ سیڑھیوں سے گرکر شدید زخمی ہوگئے تھے، ان کے دماغ امیں چوٹ آئی تھی۔ چچا انہیں ایمبولینس میں ڈال کر اسپتال جارہے تھے۔
لسبیلہ کے پل پر ٹریفک جام تھا، موٹر سائیکل اور کار والے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں ایمبولینس کو بھی راستہ نہیں دے رہے تھے۔ دادا کی حالت بگڑتی جارہی تھی،جب کہ ایمبولینس آدھا گھنٹے تک وہیں پھنسی رہی۔ جب انہیں لے کر اسپتال پہنچے تو ابو بھی دانش کو لے کر اسپتال پہنچ چکے تھے۔ دادا ابو کو اسٹریچر پر لٹا کر ایمر جنسی میں لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ ان کا راستے میں ہی انتقال ہوگیا ہے۔
یہ سن کر چچا نے ابو سے روتے ہوئے کہا کہ اگر گاڑی والے ایمبولینس کو نکلنے کا راستہ دے دیتے اور وہ انہیں بروقت لے کر اسپتال پہنچ جاتے تو شاید ان کی جان بچائی جاسکتی تھی۔ دانش کا اس بات کا اتنا اثر ہوا کہ اس نے امی، ابو اور بھائی بہنوں سے وعدہ کیا کہ اب وہ کبھی بھی چوکھٹ پر کھیل کر راستہ بند نہیں کرے گا۔ وہ اب بھی چابی والے کھلونوں سے کھیلتا ہے لیکن برآمدے میں تاکہ کسی آنے جانے والے کا راستہ بند نہ ہو ۔