’’مسجد‘‘ کی عظمت و اہمیت اور اُس کا مقام و مرتبہ

January 07, 2022

مولانا کامران اجمل

’’مسجد ‘‘کہنے کو تو ایک ظرف ،مقام(جگہ ) ہے جہاں اللہ رب العزت کے حضور سجدہ ریز ہواجاتا ہے ، جو دیکھنے کے اعتبار سے عام عمارتوں کی طرح اسی دنیا کی بنی ہوئی چیزوں کے ملانے سےہی بنتی ہے، اس میں آنے جانے والے،صفائی کرنے، اذانیں دینے، نمازیں پڑھانے والے عام انسان ہی ہوتے ہیں ،اس میں اسی طرح کی ضروریات زندگی بھی ہوتی ہیں، جس طرح کسی گھر کی ضروریات پانی بجلی کی ضرورت ہوتی ہے ، لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ ایسی مقدس جگہ ہے ، جہاں سر کو درِ سرکار پر رکھ کر گڑگڑایا جاتا ہے ، دنیا کے جھمیلوں میں الجھے ہوئے پریشان حال لوگوں کے دل کا درماں جس مطب اور دواخانہ میں ہے، وہ مسجد ہی ہے ، جو بے کسوں کی داد رسی کی جگہ ہے ۔ وہ، جسے اپنوں نےچھوڑا ہو ،غیروں نے دھتکارا ہو ، جس کی سنوائی کسی در پر نہ ہو رہی ہو، اس کی سنوائی جس درپر ہوتی ہے، وہ یہی مقدس مقام ’’مسجد ‘‘ہے ۔

تاریخِ مسجد :۔

مسجد کی تاریخ معلوم کرنے کے لیے اتنی بات ہی کافی ہے کہ مسجد دنیا میں اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر ہے ، دنیا کی آبادی کی ابتداء مسجد سے ہی ہوئی ، تعمیر انسانیت کا پہلا شاہ کار ہونے کا شرف اسی مسجد کو حاصل ہے ،قرآن کریم نے اس بات کو صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے ’’ بے شک، وہ پہلا گھر جسے لوگوں کے (عبادت کرنے کے ) لیے بنایا گیا ،وہ بکہ (مکہ مکرمہ ) میں ہے، مبارک ہے اور دونوں جہانوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔ ‘‘(سورۂ آل عمران :۹۶)

حضرت ابوذر غفاری ؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ کون سی مسجد سب سے پہلے بنائی گئی ، آپﷺ نے فرمایا : مسجد حرام ، میں نے عرض کیا پھر ؟ تو فرمایا : مسجد اقصیٰ ‘‘۔

اس سے بڑھ کر مسجد کی تاریخ کو کیا بیان کیا جائے جسے دنیا میں اولیت کا شرف حاصل ہو ، جس سے دنیا کی تعمیرات کی ابتدا کی گئی ہو ،بلکہ بعض روایات کے مطابق جس کی ابتداء فرشتوں کے ذریعے کروائی گئی ہو ، جس سے نظام دنیا کی بساط بچھائی گئی ہو، اس سے بڑھ کر اس سے عظیم تر کوئی چیز کیسے ہوسکتی ہے؟ اس سے قدیم ہونے کا دعویٰ کیونکر کیا جاسکتا ہے؟

مسجد صرف ایک عمارت یا اس کے در ودیوار کا نام نہیں ہے ،بلکہ مسجد وہ نظام عالم ہے جو سرور کونین ﷺنے اس امت کو دیا ہے، اللہ تعالیٰ کے فرستادہ بندے جہاں کہیں گئے ،سب سے پہلے انہوں نےوہاں مسجد کی بنیاد رکھی یا رکھنے کی ترغیب دی ،چاہے وہ پہلے نبی حضرت سیدنا آدم علیہ السلام ہوں یا آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺہوں ، دونوں حضرات نے مسجدوں کو تعمیر کیا ،بلکہ اگر تاریخ مکہ اور تاریخ کعبہ کو دیکھا جائے تو صرف خانۂ کعبہ کی تعمیر دس مرتبہ ہوئی ہے ، جن میں سب سے پہلی تعمیر فرشتوں کی ہے جو انہوں نے ٹھیک بیت المعمور کے مد مقابل کعبۃ اللہ کی تعمیر کی ہے، جسے عبادت کے لیے بنایا گیا ۔

رسول اللہ ﷺ جب تک مکہ مکرمہ میں رہے، نبوت ملنے کے بعد مسجد حرام میں نمازیں ادا کیا کرتے تھے ،کیونکہ مسجد پہلے سے بنی تھی ،اور بنانے والے بھی نبی تھے ،سب سے پہلے ابو الانبیاء سیدنا آدم علیہ السلام کے بعد حضرت شیث علیہ السلام اور پھر اس کے بعد حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام ، لیکن جب آپ ﷺ نے ہجرت فرمائی اور ابھی مدینہ منورہ پہنچے بھی نہیں تھے اس سے پہلے ہی ایک جگہ رسول اللہ ﷺاور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے قیام فرمایا ،اسی دوران سب سے پہلی مسجد کی بنیاد آپ ﷺ نے رکھی ، جسے آج مسجد قباء کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ مسجد بنانے کے بعد جب آپ ﷺمدینہ منورہ پہنچے تو وہاں بھی آپ ﷺ نے پہنچ کر جو سب سے اہم کام کیا ،وہ مسجد کے بنانے کا ہی تھا ،جس کی تعمیر میں خود آپ ﷺ باقاعدہ شریک ہوئے، پتھر لا کر رکھتے رہے ۔ اس طرح مسجد قباء کو اولیت کا شرف ملا اور مسجد نبویؐ کو مدینہ منورہ میں پہلی مسجد بنایا گیا اور کعبۃ اللہ کو دنیا کی پہلی مسجد ہونے کا شرف حاصل ہے ۔

مسلمانوں کے مسجد سے وابستہ مفادات :

مسلمان کےمفادات دو طرح کے ہیں : دنیوی واخروی، دنیوی مفادات بھی دو قسم کے ہیں : ۱۔ اجتماعی ، ۲۔ انفرادی اور اخروی فوائد بھی دوطرح ہیں، انسان کے دونوں قسم کے مفادات کا تعلق مسجد سے ہی ہے ، چاہے اس کی بیداری ہو یا اس کا اپنے رب کے حضور سر بسجود ہونا، اس کا اجتماعی جگہوں میں شریک ہونا ہو یا اس کا کسی کی غم خواری وہمدردی کرنا ، اس کے مسائل کا حل ہو یا اس کے اعتکاف ومناجات بہت سارے دینی و دنیوی مفادات ہیں، جو امت مسلمہ کےانہی مساجد سے وابستہ ہیں ۔

مسجدوں کو آباد کرنے والے کامیاب رہے اور اسے ویران کرنے یا ویرانی کی کوشش کرنے والے تباہ وبرباد ہوئے ، اسے تعمیر کی توفیق ہر فرد کو نہیں ہوتی ، نہ اس کی خدمت کا موقع ہر ایک کو دیا جاتا ہے ، اس کی تعمیر وخدمت کا کام انبیائےکرامؑ اور خصوصاً دین ابراہیمی کا خاصہ رہا ہے ، اس خدمت وتعمیر کا صلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امامت کی صورت میں دیا گیا ۔

مسجد دنیا کا وہ حصہ ہے جو اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے ، وہ جگہ جو آسمان والوں کے لیے ایسے چمکتی ہے جیسے زمین والوں کے لیے ستارے ، جس میں شاہ وگدا سب برابر ہیں ، جس کی عظمت واحترام کا حال یہ ہے کہ ناپاکی کی حالت میں اس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں، جو الفت ومحبت کا درس دیتی ہے ،جو باہمی بھائی چارگی اور اخوت کا مظہر ہے ، جس کی طرف چلنا ایمان کی علامت اور اس سے روکنا کفر وعصیان اور ظلم کی علامت ہے ، جسے آباد رکھنا تقویٰ والوں کا کام ہے تو ویران کرنا فساق وفجار کا ، جس کی صفائی وپاکیزگی انبیاءؑ کا کام ہے تو اسے گندا کرنا مشرکین مکہ اور ان کے حواریوں کا ، اسے تعمیر کرنا مسلم حکمرانوں کا وطیرہ رہا ہے تو اسے منہدم ومسمار کرنا اللہ کے نافرمانوں کا شیوہ ، اسے علمی مجالس سے آباد کرنا مسلمانوں کا معمول رہا ہے تو اسے کلیساؤں ، تفریح گاہوں ، چراہ گاہوں میں بدلنا یہود ونصاریٰ کا پیشہ ۔

مسجد مرکز اسلام :

مسجد کو مسلمانوں کے مرکز ہونے کا شرف حاصل ہے ، اس کی مرکزیت کا انکار نہیں کیا جاسکتا ، نہ اس کی مرکزیت کو ختم کیا جاسکتا ہے ، وہ ممالک جنہوں نے مساجد کے ائمہ کو پابند قول وفعل کر رکھا ہے، وہ بھی آج تک مسجد کی مرکزیت ختم نہیں کرسکے ، کیونکہ مسلمانوں کے لیے احکام خداوندی دو طرح کے ہیں : ۱۔عبادات ۲۔ معاملات ، پھر معاملات بھی دو طرح کے ہیں :

۱۔وہ معاملات جن میں کوئی جھگڑا جنگ وجدل نہیں ہے، مثلاً سود کی حرمت کا مسئلہ، سودا کس طرح بیچا خریدا جائے ؟ اس میں شریعت مطہرہ کی کیا رہنمائی ہے ؟ (یہی وہ معاملات ہیں جس کی شریعت مطہرہ میں ترغیب دی گئی ہے اور سارے معاملات میں بنیاد اسے بنایا گیا ہے کہ معاملہ ایسا کرنا درست نہیں ہے جس میں کوئی جھگڑا ہو )

۲۔وہ معاملات جن میں کوئی جھگڑا وغیرہ ہوجائے (یہ مزاج شریعت کے متصادم ہے )لیکن احکام فقہیہ کا ایک حصہ اس سے متعلق ہے)۔اب اگر دیکھا جائے تو عبادات سے متعلقہ مسائل کے لیے آج تک عدالتوں میں رجوع نہیں کیا گیا کہ نماز میں رکعتوں کی تعداد کیا ہے؟ نہ ہی کسی نے زکاۃ کے مسئلے کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا کہ میں اپنی زکاۃ کسے ادا کروں ؟، بلکہ عبادات سے متعلقہ تمام مسائل مساجد کے ائمہ یا اس کے ساتھ قائم مدارس کے دارالافتاء سے ہی رجوع کیا جاتا ہے ، اسی طرح سے وہ مسائل جن کا تعلق معاملات سے ہو، لیکن اس کے اندر کسی سے جھگڑا وغیرہ نہ ہو تو وہ مسائل بھی ائمہ مساجد کے ذریعے حل کیے جاتے ہیں، جن مسائل میں جھگڑا ہو اور وہ باہمی رضا مندی سے حل نہ ہو رہے ہو ں تو انہیں عدالتوں میں لے جانے کی نوبت آتی ہے۔

گویا اگر یوں کہا جائے کہ آپ ﷺکے زمانے میں مساجد کو دی گئی مرکزیت آج تک برقرار ہے ، اسے کوئی باوجود چاہنے کے بھی ختم نہیں کرسکا ، تو بے جا نہ ہوگا ، البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے بڑے جھگڑوں کے حل کے لیے بھی قاضی مسجدوں میں بیٹھا کرتے تھے، اب وہ بجائے مسجدوں کے بلند وبالا عمارتوں میں بیٹھتے ہیں ، لیکن کسی مسلمان کی متعلقہ ضروریات کو دیکھتے ہوئے اگر یوں کہا جائے کہ آج بھی امت مسلمہ کے مسائل کے تین تہائی حصے سے بھی زیادہ عدالتوں کے بجائے مساجد میں حل ہوتے ہیں تو یہ بات بالکل درست ہوگی۔

مساجد مسلمانوں کی پنچ وقتہ دسترس میں ہیں اور عدالتیں غریبوں اور لاچار لوگوں سےکوسوں دور ، جو فیصلے عدالتوں کے حوالے ہیں ،ان کا بھی ایک تہائی یا اس سے زیادہ حل نہیں ہوپاتا ، اور مساجد میں روزانہ کی بنیاد پر مسلمانوں کے مسائل حل کیے جاتے ہیں ، ان کا اگر علمائےکرام اور ائمۂ عظام حساب کتاب رکھتے تو شاید ان حل شدہ مسائل کی تعداد صرف ایک ایک شہر میں لاکھوں سے متجاوز ہو، اور قیام پاکستان کے بعد سے اب تک لاکھوں مسائل ان مساجد میں حل کیے گئے ہیں،اس مرکزیت کو اگر کوئی ختم کرنا بھی چاہے تو وہ ناکام ونامراد ہی ہوگا اور اس کی مرکزیت کو ختم نہیں کرسکے گا۔

مساجد کی فضیلت و اہمیت :

اسی مرکزیت کی بنیاد پر مساجد کے بنانے کی ترغیب دی گئی ، اس کی طرف جانے کی ، اس میں بیٹھے رہنے کی ، اس کے ساتھ دلی تعلق کے قائم کرنے کی ، اس کی خدمت وصفائی کی ، اس میں اذان دینے،نماز پڑھنے پڑھانے کی ، اس کے ساتھ دل معلق رہنے کی ، اس کی طرف چل کر جانے کی ، اسے آباد رکھنے کی اس قدر روایات ہیں جو دینی شغف رکھنے والے مسلمانوں کے لیے محتاج بیان نہیں ہیں ، اور انہیں اگر جمع کیا جائے تو مستقل کتاب کی شکل اختیار کرجائے ،مثلاً : مسجد کی تعمیر کو جنت میں گھر کی تعمیر سے تعبیر کیا گیا۔

مالی پریشانیوں کی وجہ سے اس کی تعمیر سے کترانے کا سد باب کیا اور فرمایا کہ اگر چہ ایک پرندے کے گھونسلے کے برابر بھی اس کی تعمیر میں حصہ لے سکو تو لے لو، اسی پر صرف اکتفاء نہیں کیاگیا ،بلکہ یہ بھی ذکر کیا کہ یہ صرف ترغیب نہیں، بلکہ رسول اللہ ﷺ نے مساجد کی تعمیر کرنے کا حکم دیا ہے ، نہ صرف حکم دیا ،بلکہ تعمیر مسجد میں خود شریک ہوکر اس کی فضیلت کو عملی طور پر بھی بیان کیا اور اس میں کام کرنے والے صحابۂ کرامؓ کے کپڑوں سے خود دھول جھاڑتے رہے ، اور ہاتھوں کو میلے ہونے کے ڈر سے بچانے والوں سے مزاح فرماکر اس میں اچھی طرح محنت کرنے کی بھی ترغیب دی ۔

یہ سب کچھ کیوں نہ ہوتا،جب کہ خود ارشاد فرمایا : زمین کے حصوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ جگہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں مساجد ہیں اور بدترین جگہیں بازار ہیں ‘‘بلکہ اگر کوئی بازار چلا بھی جائے تو اس کے بارے میں بھی بتادیا کہ قیامت کے دن سات لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا ،ان میں سے ایک وہ ہے جس کا دل مسجدوں کے ساتھ معلق رہے، اور امام بزار کی نقل کردہ روایت کے مطابق تو مسلمان کی بیٹھک مسجد میں ہی ہونی چاہیے ، کیونکہ جو لوگ مساجد میں رہتے ہیں ،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے پل صراط کو پار کرنے کی ضمانت دیتے ہیں ، غرض جس قدر فضائل مسجد ، اس کی صفوں ، اس کے اوقات ، اس کی جماعت ، اس کے اذان ونماز کے متعلق ذکر کیے گئے ہیں، انہیں اگر جمع کیا جائے تو مستقل کتاب تیار ہوسکتی ہے ۔