آخر حکومت کس مرض کی دوا ہے؟

January 19, 2022

خیال تازہ … شہزادعلی
سانحہ مری کی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں سانحہ کی ذمہ داری مقامی انتظامیہ کی غفلت پر ڈالی ہے کہ اس نے محکمہ موسمیات کے پیشگی انتباہ کو نظر انداز کیا اور ضروری حفاظتی اقدامات نہیں اٹھائے جس کی وجہ سے 7 اور 8 جنوری کی شب صورتحال قابو سے باہر ہو گئی، انتظامیہ نے مری کے راستے بند کر دینے میں تاخیر برتی جب کہ برف ہٹانے والی ساری مشینری ایک جگہ کھڑی تھی اور اس کا عملہ بھی غائب تھا ،اس پر مزید یہ ظلم کیا گیا کہ متعلقہ محکموں کے اہلکاروں نے گاڑیوں کے پھنس جانے کی اطلاعات ملنے پر ضروری مشینری مدد کیلئے بھیجنے کی بجائے اپنے فون ہی بند کر دئیے تھے، ساتھ ہی پولیس کے عدم تعاون اور غفلت کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے، ٹریفک جام ہونے سے بھی مشینیں آفت زدہ جگہوں پر نہ پہنچ سکیں۔رپورٹ میں مری کی ملحقہ شاہراہوں پر تجاوزات اور غیرقانونی تعمیرات کو ٹریفک کی روانی میں بڑی رکاوٹ قرار دیا گیا، اب جہاں انتظامیہ کی نااہلی حکومت کی مقرر کردہ کمیٹی کی رپورٹ سے ظاہر ہوگئی ہے جو وسیع تر معنوں میں درحقیقت حکومت کی ناکامی کا ثبوت ہے ،کیا پاکستان میں انتظامی عہدے میرٹ پر لوگوں کو ملنے کی روایت ہے یا جو بھی حکومت وقت ہو اکثر و بیشتر اسی کے ہمنوا اعلیٰ عہدے پاتے ہیں جس اعتبار سے بھی اس سانحہ کا جائزہ لیا جائے انگلیاں بالآخر حکومت کی طرف ہی اٹھتی ہیں، سانحہ مری مقامی حکام کی غفلت اور بدانتظامی، فوری ردعمل کا فقدان، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی ناکامی، انتظامی ذمہ داری سے انکار، ذمہ داری سے انحراف، سرکاری عدم توجہی کا بین ثبوت ہے،ماضی کے ادوار میں بھی سانحات رونما ہوتے رہے ہیں مگر تبدیلی سرکار کے دور میں کسی سانحہ کے رونما ہونے پر جس طرح کے مظاہر دیکھنے میں آرہے ہیں ماضی میں ان کی مثال ملتی ہو لیکن شاید تبدیلی اسی کا نام ہو ، یعنی اب جب کوئی واقعہ یا المیہ پیش آئے گا تو بجائے حکومتوں کی ہمدردی کے آپ کو تبدیل شدہ روئیے دیکھنے کو ملیں گے حالانکہ دنیا بھر میں کہیں بھی کوئی سانحہ پیش آتا ہے تو عموماحکومتیں اور ذمہ دار حلقے اپنے پہلے ردعمل میں ذمہ داری قبول کرتے ہیں جس سے وقتی طور پر متاثرین کے جذبات کو کچھ تسکین ملتی ہے اور ساتھ ہی تحقیقات کا عمل جاری رہتا ہےمگر یہاں پر وزراء کو تو رہنے دیں جو تخت کے مسند پر بیٹھے ہیں وہی ایک ٹویٹ جاری کر کے گویا بری الذمہ ہو جاتے ہیں اور پھر ٹویٹ میں بھی حادثے کے متاثرین کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہےکہ لوگوں کو خطرناک سفر شروع کرنے سے پہلے موسم کی جانچ کرنی چاہیے تھی گویا وفاقی یا صوبائی حکام کی موسم کو چیک کرنے اور ایک بہت بڑی تعداد میں اضافی گاڑیوں کو سخت ترین موسم میں سیاحتی مقام پر داخلے سے روکنے کی کوئی ذمہ داری نہیں تھی، حالانکہ محکمہ موسمیات کی جانب سے کچھ دن پہلے برفانی طوفان کی پیش گوئی کر دی تھی اس کو وسیع پیمانے پر مشتہر کیا جانا چاہئے تھا اور اس کے پیش نظر برف صاف کرنے والی مشینری کو تعینات کیا جانا چاہئے تھا، اس حوالے سے قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف نے وزیرِ اعظم عمران خان پر جو تنقید کی ہے کہ عمران خان نے متاثرین کو ہی موردِ الزام ٹھہرانا اپنی حکمرانی کا فلسفہ بنا لیا ہے یہ بجا طور پر وزیر اعظم کے طرز عمل کی درست عکاسی ہے، قائد حزب اختلاف نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ حکومت اس دوران کہاں تھی، سیاحوں کی آمد کو سنبھالنے کے لیے کیا انتظامات کیے گئے تھے، ماضی میں پیشگی انتظامات اور 24 گھنٹے نگرانی ان کا معمول تھا، اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا یہ کہنا بھی درست تھا کہ اگر مری میں سیاحوں کو سنگین صورتحال سے آگاہ کیا جاتا تو ایسا سانحہ رونما نہ ہوتا، اپوزیشن کے علاوہ بھی ملک کے قریب قریب تمام سنجیدہ سیاسی، سفارتی، سماجی اور غیر جانبدار صحافتی حلقوں نے سانحہ مری پر حکومت وقت کے کردار پر سوالات اٹھائے ہیں ، ہوشربا مہنگائی، قومی مسائل پر شدید غفلت ، ناکام خارجہ اور داخلہ پالیسیوں یعنی عمومی طرز حکومت کو اگر آپ ایک طرف بھی رہنے دیں، صرف مری کے سانحہ اور اس سے پہلے، اس دوران اور واقعے کے فوری بعد حکمران طبقے نے جس ذہنی کھوکھلے پن کا مظاہرہ کیا ہے اس سے نہ صرف یہ کہ اندرون ملک بلکہ اوورسیز پاکستانیوں میں بھی حکومت کے خلاف جذبات بھڑک اٹھے ہیں کیونکہ کسی بھی سانحہ کے دوران عوام الناس کی اپنی حکومت سے جو توقعات وابستہ ہوتی ہیں اس باب میں سانحہ مری اور اس حکومت کے دور میں پیش آنے والے دیگر سانحات پر حکومت ناکام نظر آتی ہے، عوام اپنی قیادت سے جائے حادثہ پر فوری پہنچنے کی توقع کرتے ہیں، فوری عملی اور ٹھوس اقدامات دیکھنے کے متمنی ہوتے ہیں مگر یہاں تو الٹا جاں بحق ہو جانے والوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے نہ وزیر اعظم جائے وقوع پر پہنچتے ہیں اور نہ متاثرین کے لواحقین کے پاس جاتے ہیں حتیٰ کہ وزیراعلٰی پارٹی تنظیم نو میں مصروف رہے اور 22 افراد حکومت اور اس کے زیر انتظام انتظامیہ کی غفلت اور بدانتظامی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے ،ہزاروں بری طرح برف میں پھنس اور دھنس کر رہ گئے مگر ان نازک معاملات میں بھی ایک ٹویٹ ہی ہے جو وزیر اعظم کے اکاؤنٹ سے نکلا ہے، ہماری ایک قابل ترین سابق سفارت کار ڈاکٹر ملحیہ لودھی نے اپنے کالم میں حکمرانوں کی بے مروتی پر برملا تبصرہ کیا کہ افسوس کا اظہار کرنے کے لیے وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں کوئی بیان دیا نہ ہی اور ذاتی طور پر ان لوگوں تک پہنچنے کی کوئی کوشش کی گئی جو اس سانحے میں اپنے پیاروں کو کھو بیٹھے۔ صرف ایک انکوائری کا اعلان جو بےکار طریقے سے کیا گیا تھا، جب آفت آئی تو 24 گھنٹے سے زیادہ وقت تک کوئی مدد دستیاب نہیں تھی، اہلکار مدد کے لیے لوگوں کی پکار کا جواب دینے میں ناکام رہے، ان عوامل کی سب زندہ بچ جانے والوں کی طرف سے تصدیق کی گئی تھی، وفاقی وزراء نے ایسے بیانات دئیے جو اس سانحے کی بجائے اپوزیشن کی تنقید پر مرکوز رہے، ایک وزیر نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ یہ سانحہ اپوزیشن لیڈروں کی کرپشن کا نتیجہ ہے جنہوں نے اقتدار میں رہتے ہوئے مری کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کیا، انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کی اپنی حکومت نے تین سال سے کیا کیا ہے، اگر تمام منفی پیش رفت کسی اور کا قصور ہے تو وہاں حکومت کس کے لیے ہے، اس نے ایک بار پھر یہ ظاہر کیا ہے کہ حکومت کس طرح اپنی کوتاہیوں پر دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتی ہے، حکمران جماعت کے دعوؤں کے برعکس کہ وہی صرف ایک ہے جو عوام کی خدمت کرتی ہے حالانکہ وہ کبھی بھی متاثرین کے لیے ہمدردی ظاہر کرنے کا انتظام نہیں کرتی ہے، چاہے وہ قدرتی آفات ہوں ، انسان غلطیوں کا خمیازہ ہو یا معاشی مشکلات کی صورت حال ہو جس کے سینئر رہنما بمشکل ٹوکن ہمدردی پوسٹ کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں، کسی بھی مسئلے یا سانحے کا الزام دوسروں پر ڈالنے کی عادت اب پی ٹی آئی حکومت کا امتیاز بن چکا ہے،ایک حکومت اپنے اقتدار کے چوتھے سال میں اب بھی یہ نعرے لگاتی ہے کہ معیشت کی بگڑتی ہوئی حالت پچھلی حکومتوں کی غلطی ہے،اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ملک کے دائمی بجٹ اور ادائیگیوں کے توازن کے خسارے کے بنیادی یا ساختی ذرائع حال ہی میں سامنے آئے ہیں۔ درحقیقت، 1980 کی دہائی کے وسط سے تقریباً ہر حکومت کو بڑھتے ہوئے مالی عدم توازن اور بڑھتے ہوئے قرضوں کی معاشی میراث ملی لیکن یہ اقتدار میں رہنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو دور کریں اور ان کی اصلاح کریں یہی حکومت کا امتحان ہوتا ہے اور ووٹرز نے اسے اسی لیے منتخب کیا مسائل کو حل کرنے کے لیے نہ کہ تسلسل سے سابقہ حکمرانوں پر ہی الزامات عائد کرتے رہو، معیشت کو بہتر کرنا حکومت کا کام تھا لیکن اپنی ذمہ داری نبھانے کے بجائے اس کے بیانیے نے بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کا ذمہ دار پچھلی حکومتوں کو ٹھہرایا، اونچی مہنگائی، غریبوں پر سب سے زیادہ نقصان دہ ٹیکس جس میں اس کی پالیسیوں نے اپنا حصہ ڈالا وہ بھی دوسروں کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے اگر تمام منفی پیش رفت دوسروں کی غلطیاں ہیں چاہے یہ ایک سانحہ ہو جو ان لوگوں سے منسوب ہے جنہوں نے "موسم کی جانچ کیے بغیر" سفر کیا یا بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال جو دوسروں کی ذمہ داری ہے تو پھر حکومت آخر کس مقصد کے لیے ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کو اصلاح احوال پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔