اربوں کا ترقیاتی بجٹ: صرف اعلانات تک محدود

January 20, 2022

گزشتہ 25سالوں میں ہر حکومت نے بلدیاتی انتخابات کا وعدہ کیا لیکن پارلیمانی پارٹی کے آگے وزیر اعظم بے بس ہوجاتا ہے اس حکومت میں ایک بڑی تعداد ان اراکین اسمبلی کی ہے جو مسلم کانفرنس پیپلز پارٹی ن لیگ میں اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں یہ اراکین اسمبلی سردار محمد عبدالقیوم خان سردار سکندر حیات خان ممتاز حسین راٹھور بیرسٹر سلطان محمود سردار عتیق خان چوہدری مجید راجہ فاروق حیدر خان کو بھی چکمہ دے چکے ہیں سردار قیوم نیازی تو انکے آگے بےبس ہیں کچھ اراکین اسمبلی ایسے ہیں ہر جماعت کے اندر اپنی خدمات کا لوہا منوا چکے ہیں ان سے عوامی مفاد کے کاموں اور تحریک آزادی کی توقعات کم ہی ہوسکتی ہیں اسی وجہ سے ابھی تک چھ ماہ ہونے کو ہیں حکومت کی جانب سے کوئی منصوبہ بندی سامنے نہیں آسکی اور نہ ہی وزیر اعظم پاکستان عمران کے انتخابی اعلان جس میں 500ارب کے پیکج کا اعلان کیا تھا۔

اس کے بارے میں کوئی وزیر بتانے کو تیار ہے کہ وہ 500ارب میں امسال کتنے فیصد فنڈز ملنے والے ہیں تحریک انصاف کی حکومت کو پاکستان میں ڈیڑھ سال باقی ہے اس ابھی تک ان پانچ سو ارب روپوں میں سے کچھ ملنے کی امید نہیں بلکہ 28ارب کے ترقیاتی بجٹ پر بھی کٹ لگنے کا خدشہ ہے اس سے ظاہر ہورہا ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومت کی نہ تحریک آزادی اولین ترجیحات ہے اور نہ تعمیر و ترقی ثانوی ترجیحات پاکستان کی عوام کی طرح آزاد کشمیر کی عوام بھی اعلانات پر گزارہ کرینگےریاست جموں کشمیر صدیوں پرانی ڈیموگرافی demography تبدیل کرنے کیلئے بھارت کی حکومت دن رات کی بنیادیوں پر کام کررہی ہے۔

مقبوضہ جموں کشمیر میں مسلم اکثریتی آبادی والے علاقوں کے لوگوں پر عرصہ حیات تنگ کیا ہوا ہے گزشتہ سال 2021 میں بھارتی قابض افواج اور آزادی پسند کشمیری مجاہدین میں 85 خونریز جھڑپیں ہوئیں جن میں 178 کشمیری عسکریت پسند شہید ہوئےان جھڑپوں میں128 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے جن میں 29 وہ فوجی ہیں جنہوں نے کشمیر میں خود کشیاں کی ہیں بھارتی قابض فورسز نے سال 2021 میں 135 رہائشی مکانات کو کیمیکل اور بارود لگا کر خاکستر کیا اور49 نہتے کشمیری شہریوں کو ماورائے عدالت فرضی جھڑپوں میں شہید کیا جموں کشمیر کی کوٹ بھلوال جیل میں ایک سال سے زیادہ عرصہ قید تحریک حریت کے چیئرمین محمد اشرف خان صحرائی 5 مئی کو شہید ہوگئے۔

یکم ستمبر کو کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی شاہ گیلانی گیارہ برس کی مسلسل نظر بندی کے دوران ہی گھر میں شہادت کے منصب پر فائز ہوگئےبھارتی بھارتی فورسز نے 1686 نہتے شہریوں کو گرفتار کیا جبکہ 410 شہریوں کو کالے قانون UAPA اور 178 شہریوں پر PSA لگا کے گرفتار کیا گیابھارتی قابض انتظامیہ نے عوامی احتجاج کو روکنے کیلئے 122 مرتبہ انٹرنیٹ کی بندش کی گی مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں بھارتی فورسز کے مظالم کے مظالم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

بھارت پوری طاقت کے ساتھ نہتے کشمیریوں کی تحریک آزادی کی کچلنے کی کوششں جاری رکھے ہوئے ہیں تمام جنگی حربے استعمال کیے جارہے ہیں لیکن اس کے باوجود کشمیری منزل کے حصول کی طرف گامزن ہیں اس وقت کشمیری مکمل طور پر غیر مسلح ہیں انکے پاس کوئی گولہ بارود نہیں جس کی تصدیق بھارتی آرمی چیف بھی کرچکے ہیں کہ اس وقت ریاست میں مسلح عسکریت پسندوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے پھر بھی خالی ہاتھ سے لیکر نکلتے ہیں لیکن دل اس امید سے بھرا ہوا ہے کہ اپنے خون سے سینچا ہے صبح آزادی ہوکر رہے گی۔

اگست 2019 کے سقوط کشمیر کے بعد کشمیری خواتین ایک سال تک پھول کی ٹوکریاں اکھٹی رہی پاکستان کی فوج آئے گی اس پر نچھاور کریں گیں پاک آرمی کے لیے وازوان پکاتی تھیں صبح ہونے کے بعد مسجد میں جانے والے بچوں کو دے دیتی تھیں ان حالات میں جب کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی ہورہی ہے انکی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جارہا ہے اعلیٰ درجے کی قیادت پابندسلاسل ہے نوجوان کی بڑی تعداد جیلوں میں ہے کشمیریوں کی آواز کو عالمی سطح پر اٹھانے کیلئے کوئی مواثر کردار ادا نہیں کیا جارہا ہے۔

تحریک آزادی کمزور ہونے سے پاکستان کو سب سے بڑا نقصان کشمیر کے پانچ دریا جو پنجاب کے پی کے اور سندھ کو سیراب کرتے ہیں ان کا مستقبل محفوظ نہیں اس وقت 5500میگاواٹ بجلی کی پیداوار اور 20ہزار میگاواٹ کے منصوبوں پر لٹکتی تلوار ہوگی سی پیک روٹ کی حفاظت کی ضمانت بھی کشمیر سے ہوکر گزرتی ہے پتہ نہیں پالیسی ساز اداروں نے کیا سوچ کر پچاس سالہ پلان بنایا ہے کیا دریائے سندھ جہلم نیلم بیاس راوی ستلج چناب کشمیریوں کے قتل عام کے بعد بہہ پائیں گے پاکستان کی عوام کو پالیسی سازوں سے یہ سوال لازمی پوچھنا چاہئے کیونکہ اس سے پاکستان کا مستقبل اور خوشحالی وابستہ ہے۔

آج سے 75سال پہلے قائد اعظم نے کشمیر کو شہ رگ پاکستان قرار دیا تھا اسکی سمجھ آج لوگوں کو آرہی ہے یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ شہ رگ کے بغیر جسم کا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے کنٹرول لائن کے دونوں اطراف کشمیریوں میں حکومت پاکستان کی کشمیر پالیسی پر تشویش پائی جاتی ہے خاص کر تحریک آزادی کے بیس کیمپ کی حکومت کی ابھی تک چھ ماہ ہونے والے ہیں کوئی سمت نظر نہیں آرہی تحریک انصاف کی حکومت نے عوام کی توجہ اپنے اوپر سے ہٹاکر لوگوں کو بلدیاتی انتخابات کی طرف موڑ دی ہے حکومت کے ابتدائی ایام میں وزیر اعظم سیکرٹریٹ وزرا بلاک وزیر اعظم ہاوس میں کارکنوں کا بڑا رش ہوتا ہے موجودہ حکومت نے کارکنوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگادیا لوگ نہ ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی مہم پر لگ گے ہیں اگر بلدیاتی ادارے بحالی ہوجاتے ہیں اراکین اسمبلی وزرائے حکومت بے اختیار ہوجائیں گے۔