حکومت اورتحریک انصاف کے درمیان انتخابات کے معاملہ پر مذاکرات کا آغاز ہوا، تو ملتان کے دو مخدوم آمنے سامنے آبیٹھے، اتحادی حکومت کے وفد میں سید یوسف رضا گیلانی اور تحریک انصاف کے وفد میں شاہ محمود قریشی کی موجودگی اس حوالے سے خاصی دلچسپ ہے کہ ایک طویل عرصہ کے بعد دونوں کہیں ایک جگہ اکھٹے ہوئے ہیں، ملتان کی سیاست میں تو ان دونوں کا کردار ہمیشہ حریفانہ رہا ہے ا ور پچھلے کچھ عرصہ سے دونوں ایک دوسرے پر کبھی نام لے کر اور کبھی اشارے کنایوں میں تنقید بھی کرتے رہے ہیں۔
اب یہ اتفاق ہے یا ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کہ ان دونوں مخدوموں کو مذاکرات میں ایک جگہ بٹھا دیا گیا ہے اور وہ مذاکرات ایسے ہیں کہ جن کا بظاہر کو ئی نتیجہ نکلتا نظر نہیں آرہا ،کیونکہ عمران خان مسلسل یہ دباؤ ڈال رہے ہیں کہ انتخابات کے لئے اسمبلیاں فوری توڑی جائیں اور جولائی میں انتخابات کا انعقاد کیا جائے ،جبکہ اتحادی حکومت اکتوبر یا نومبر سے پہلے انتخابات نہیں چاہتی، اس صورتحال میں یہ مذاکرات کس کروٹ بیٹھیں گے، اس کا تو علم نہیں ہے ،لیکن ان دو مخدوموں کا آمنے سامنے بیٹھنا اور ایک دوسرے سے نظریں بھی چرانا ،اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ ذمہ داری ان پر ڈال تو دی گئی ہے، مگر اس کا کوئی حل نکالنا ،ان کے بس کی بات نہیں ہے، تحریک انصاف تو 14مئی کے انتخابات کے لئے بھی پوری طرح تیاری کرچکی ہے اور اس نے پنجاب اسمبلی کی تما م نشستوں کے لئے پارٹی ٹکٹ بھی جاری کردیئے ہیں ،لیکن دوسری طرف سنجیدگی کا عالم نظر نہیں آتا اور یہ انتخابات کیسے ہوں گے ؟ فنڈز اور سیکورٹی کون فراہم کرے گا ؟
اس بارے میں کسی کو کچھ بھی معلوم نہیں ہے، تحریک انصاف کی ٹکٹوں کے بارے میں مختلف افواہیں تو گردش کر ہی رہی ہیں اور اس میں پیسے کے لین دین کا الزام بھی آڈیو کالز اور کچھ ویڈیو کلپس کے ذریعے لگایا گیا ہے ،تاہم خود پارٹی کے اندر بھی ٹکٹوں کی تقسیم پر ایک ردعمل پایا جاتا ہے اور کئی جگہوں پر ٹکٹیں دینے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بننے کے بعد تبدیل بھی کیا گیا ہے ،مثلاًجنوبی پنجاب میں 9حلقوں کے ٹکٹ تبدیل کئے گئے ہیں ،جبکہ ملتان میں بھی شاہ محمود قریشی کے فیصلوں پر ردعمل سامنے آیا اور خود ان کے قریبی ساتھیوں کی طرف سے کہا گیا کہ وہ موروثی سیاست کو فروغ دے رہے ہیں اور بیٹے ،بھانجے سمیت ٹکٹوں کی تقسیم انہوں نے اپنی ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر کی ہے، ایک بڑی تنقید تحریک انصاف جنوبی کے صدر عون عباس بپی پر کی جارہی ہے کہ جن کے بارے میں یہ خیال ہے کہ وہ شاہ محمود قریشی کے زیراثر ہیں اور انہیں کی مرضی سے فیصلے کرتے ہیں ،جنوبی پنجاب میں 9ٹکٹوں کی تبدیلی ان کی ایک بڑی ناکامی ہے ،اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے عمران خان کو صحیح طور پر یہاں کی سیاسی صورتحال اور امیدواروں کے بارے میں آگاہ نہیں کیا ، ایسا کیوں نہیں کیا ؟
اس بارے میں بھی چہ مگوئیاں جاری ہیں اور مختلف افواہیں گردش کررہی ہیں ،کیونکہ اس وقت تحریک انصاف کے حق میں ایک سیاسی فضا موجود ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کا امیدوار آسانی سے کامیاب ہوجائے گا ،اس لئے تحریک انصاف کے ٹکٹ کی طلب بہت زیادہ ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس طلب کی بنیاد پر ان پرانے سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کو نظرانداز کیا جائے ،جو اپنے حلقہ میں ذاتی ووٹ بنک بھی رکھتے ہیں اور ان کی ساکھ بھی اچھی ہے ، اس بار تو عمران خان نے زمان پارک میں خود امیدواروں سے انٹرویو لئے تھے اور یہ خبریں بھی سامنے آئی تھیں کہ عمران خان تک پہنچنے کے لئے پارٹی فنڈ میں ایک کروڑ روپے جمع کرانے کی شرط رکھی گئی ہے، اگرچہ آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہوسکی ، لیکن اس حوالے سے تردید بھی نہیں کی گئی۔
سوال تو یہ بھی ہے کہ عمران خان خود یہ کہتے ہیں کہ پارٹی میں انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے تنظیمی ڈھانچہ موجود نہیں ہے اوروہ یہ نہیں جان سکتے کہ میانوالی یا راجن پور میں کون زیادہ پارٹی کا وفادار اور مقبو ل ہے، تو پھر سوال یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی کے لئے امیدواروں کو ٹکٹ کس فارمولے کے تحت تقسیم کئے گئے ہیں ؟فارمولا نہ ہونے کی وجہ سے ہی یہ شکایات سامنے آئیں کہ ٹکٹوں کی تقسیم صحیح نہیں کی گئی ، بہرحال انتخابات ہوتے ہیں کہ نہیں ،لیکن ٹکٹوں کی تقسیم کی مشق میں جو خرابیاں سامنے آئی ہیں ،وہ تحریک انصاف کے لئے ایک سبق ہے ،آگے قومی انتخابات بھی آنے ہیں ،اس وقت بھی ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ درپیش ہوگا ،اگراسی طرح زمان پارک میں بلاکر ٹکٹوں کی تقسیم کا نظام بنایا گیا ،تو شاید پہلے آؤ ،پہلے پاؤ ـ والی صورتحال پیدا ہوجائے اور اچھے امیدواروں کو ٹکٹ نہ مل سکے۔
ادھر ملتان میں گیلانی فیملی کے ذرائع کے توسط سے یہ چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ سید یوسف رضا گیلانی جلد ہی چیئرمین سینیٹ بننے جارہے ہیں، اگرچہ سید یوسف رضا گیلانی نے کہیں اس کا اظہار نہیں کیا ، لیکن ان چہ مگوئیوں کی کسی سطح پر تردید بھی نہیں کی گئی ،گیلانی ہاؤس کے انتہائی قریبی ذرائع کے مطابق اگلے چند ہفتوں تک سینٹ کے چئیرمین کی تبدیلی عمل میں آجائے گی اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوگی اور غالب امکان یہی ہے کہ وہ اس کی ووٹنگ سے پہلے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے ، یہاں یہ امرقابل ذکر ہے کہ سیدیوسف رضا گیلانی کا نام چیئرمین سینیٹ کے لئے پہلے بھی آیا تھا، اب چونکہ حالات بدل چکے ہیں ،حال ہی میں وزیراعظم شہبازشریف نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ بھی لیا ہے اور اتحاد میں شامل تمام سیاسی جماعتوں نے انہیں ووٹ بھی دیا ،جو اس بات کا اشارہ ہے کہ سینیٹ میں بھی یہ ساری جماعتیں کسی ایسے فیصلے کی تائید کریں گی ،جو چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کے حوالے سے کیا جائے گا۔
یہاں یہ امرب ھی قابل ذکر ہے کہ آنے والے چند ماہ میں بہت سے بڑے عہدے خالی ہوں گے اور ان پر نئی تقرریاں عمل میں آئیں گی ، سید یوسف رضا گیلانی پیپلزپارٹی کے ایک بڑے وفادار اور سینئر سیاستدان سمجھے جاتے ہیں اور آصف علی زرداری کی گڈبکس میں ہیں ،وہ ان پر اعتاد کرتے ہیں ، وہ یہ چاہتے ہیں کہ چیئرمین سینٹ کا عہدہ سید یوسف رضا گیلانی کو دیا جائے، پی ڈی ایم کے اتحادی فارمولے کے تحت بھی چیئرمین سینیٹ کا عہدہ پیپلزپارٹی کا ملنا تھا، اس وقت حالات سازگار نہیں تھے ،مگر اب صورتحال پی ڈی ایم کے حق میں ہے ،اس لئے آنے والے دنوں میں تحریک عدم اعتماد متوقع ہے، دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ اگر یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ بن گئے ،تو ستمبر میں صدر عارف علوی بھی مدت ملازمت پوری ہونے پر سبکدوش ہوں گے، صدارت کا منصب بھی خالی ہوجائے گا اور آئین کے مطابق چئیرمین سینٹ صدر کی کرسی پر براجمان ہوں گے ،چونکہ اس وقت ملک میں پارلیمنٹ مکمل نہیں ہے ،اس لئے صدر کا انتخاب نہیں ہوسکے گا اور اس کے لئے نئی اسمبلیوں کے آنے کا انتظار کرنا پڑے گا ،اس وقت تک چیئرمین سینیٹ ہی قائم مقام صدر کے طور پر کام کریں گے ،اس لئے بھی اتحادی حکومت یہ چاہتی ہے کہ سینیٹ چیئرمین کے منصب پر اپنے اعتماد کی شخصیت کو لایا جائے۔
اگر ایسا ہوگیا ، تو سید یوسف رضا گیلانی سپیکر قومی اسمبلی ، وزیراعظم کے بعد چیئرمین سینیٹ اور صدرمملکت بننے والی پہلی شخصیت بن جائیں گے۔ آصف علی زرداری نے پچھلے دنوں یہ تنقید کی تھی کہ عمران خان کی عوامی حمایت موجود نہیں ہے ،یہ سوشل میڈیا کا کمال ہے ،جسے پیسے دے کرعوامی حمایت کا تاثر دینے کا فریضہ سونپا گیا ہے ،مگر اب خود پیپلزپارٹی اسی ڈیجیٹل سوشل میڈیا کی طرف آرہی ہے ،اس سلسلہ میں ایک ڈیجیٹل میڈیا کنونشن ملتان میں منعقد کیا گیا ،جس میں کراچی سے شرجیل میمن اور اسلام آباد سے فیصل کریم کنڈی نے خصوصی شرکت کی ،اس میں نوجوانوں کو مدعو کیا گیا ،مگر یوں لگتا ہے کہ اس مقصد کے لئے ہوم ورک نہیں کیا گیا ،یہ کنونشن بدانتظامی اور ہڑبونگ کا شکار رہا اور ا س میں ڈیجیٹل میڈیا کو استعمال کرنے یا پارٹی کی پروجیکشن کے لئے پالیسی بنانے کی کوئی بڑی مشق نہیں کروائی گئی ،تاہم یہ واضح ہوگیا ہے کہ پیپلزپارٹی بھی اب نئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہورہی ہے اور اس کی قیادت نے اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ اگر سیاست میں زندہ رہنا ہے ،تو میڈیا کے جدید ذرائع سے استفادہ کرنا ناگزیر ہے۔