پیارے بچو!
کیسے ہیں آپ سب۔ آپ کی خیریت پوچھتے ہوئے یہ سوچ کر دل کانپ رہا ہے کہ پتا نہیں سن 2024 میں کس حال میں جیئے ہوں گے۔ بہت سے بچوں کے چہروں پر پھیلی یاسیت دیکھ کردل میں درد سا اُٹھتا ہے لیکن ایک باپ کاخط جو اس وقت میرے ہاتھ میں پھڑپھڑا رہا ہے، اسے ایک بار نہیں کئی بار پڑھا اور ہر بار پڑھ کر یہ سوچ کر دل پر بوجھ بڑھتا رہا کہ ہم معصوم کلیوں، پھولوں کو زمانے کے سردو گرم سے نہ بچاسکے۔ ہم کیوں زندہ ہیں، ہمیں بھی مر جانا چاہیے۔
خط کا متن من و عن اپنے قارئین کی نذر کر رہی ہوں، صرف اس لیے کہ بچوں ہی کا نہیں اُن والدین کا درد بھی سمجھیں جن کے بچے بے موت مارے گئے، جو خود جیتے جی زندہ در گور ہو گئے۔ یقیناً یہ خط ہر پڑھنے والے کا دماغ ماؤف کر دے گا اور اُ س باپ کی طرح وہ بھی خوف کے سائے میں روز جیئیں گے، روز مریں گے، آئیے پہلے ملاحظہ کریں خط۔
’’میں چار سال سے روزانہ کئی مرتبہ رات کے کسی پہر اپنے بچوں کے کمرے میں جاتا ہوں صرف یہ جاننے کے لیے انہیں ڈر تو نہیں لگ رہا، وہ خوف سے جاگ تو نہیں رہے، کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ کر گہری نیند سے بے دار تو نہیں ہوگئے۔ گرچہ مجھے اپنے بچپن سے ہی کڑی جدوجہد کرنا پڑی اور بڑی اذیت ناک مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
میں تو کیچڑ سے اوپر اٹھا ہوں اور بہ خوبی جانتا ہوں کہ اس کیچڑ کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے۔ میں اپنے دو بچوں کو لے کر اس گھر میں بھی گیا ہوں، جہاں میرا بچپن گزرا، مگر اس گھر اور اس کے اردگرد گھروں کی مٹی، کیچڑ اور کنکریٹ نے میرے بچوں سے اس طرح باتیں نہیں کیں، جیسے میرے ساتھ کرتے تھے۔ میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ میرے بچے غربت کے اسی جال میں پھنس جائیں جس میں، میں تھا۔
غربت سے گزرنے کا تجربہ کیسا ہوتا ہے یہ غریب ہی جان سکتا ہے، پھر بھی میں یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ میرے بچے اپنی کوئی قیمتی متاع کھو چکے ہیں۔ میری ماں نے مجھے تعلیم کی دولت اور اس کی قدرو قیمت سے آگاہ کیا تھا، میں نے بھی اپنے بچوں کو تعلیم کی اہمیت کے بارے میں بتایا ہے لیکن اس مسئلے کا حل میرے پاس نہیں ہے کہ میرے بچے اسکول جاتے ہوئے خوف زدہ ہوتے ہیں، ان کی ماں اس وقت تک گھر کا کوئی کام نہیں کرتی جب تک بچے اسکول سے گھر لوٹ نہیں آتے۔
ایسے میں کیا کروں میں؟ ماں، بچوں کے خوف کو ختم یا کم تو اس وقت کروں جب میں خود خوف زدہ نہ ہوں، وجہ یہ ہے کہ چند سال قبل میری چار سال کی بچی اغوا ہوئی اور پھر اس کی لاش ایسی حالت میں ملی جس کا ماں باپ تصور نہیں کر سکتے۔
میرے پڑوس، گلی سے ایک، دو نہیں دس بچے اغواء ہوئے لیکن کوئی بھی زندہ سلامت گھر نہ لوٹا، کسی کسی کی تو لاش بھی نہ ملی، پتا نہیں وہ زندہ ہیں یا انہیں درندوں نے اپنی ہوس پوری کرکے مار دیا۔ یہ ایسا خوف ہے، جسے سوچ کر بھی جھرجھری آتی ہے۔
میری بیوی تو بچوں کو اسکول ہی بھیجنا نہیں چاہتی۔ بچے بھی جانا نہیں چاہتے، اب تو میں بھی شش و پنج میں مبتلا ہوں۔ میری معصوم بچی اور گلی، محلے کے بچوں کا اغوا، ان کا قتل پرانی بات نہیں ہے، یہ گزرے سال کے قصے ہیں۔ ہمارے گھر ہی نہیں ہماری گلیاں، محلے بھی ویران ہوگئے ہیں۔
بچوں کے قہقہے سننے کو کان ترس گئے ہیں۔ گلیوں میں کرکٹ کھیلتے بچے ڈر کر گھروں میں دبک گئے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا ہم کس معاشرے میں رہ رہے ہیں۔
مجھے ڈر ہے کہ کہیں میری بیوی، بچے سائیکو نہ بن جائیں۔ میری اکلوتی پیاری بیٹی تین بھائیوں کی لاڈلی بہن گلی میں کھیلتے کھیلتے ایسے غائب ہوئی جیسے وہ انسان نہیں روئی کا گالہ تھی اور پھر اس کی لاش روئی میں لپٹی کوڑے کے ڈھیر سے ملی۔ اپنی بچی کو اس حالت میں دیکھ کر کون ماں، باپ سکون کی نیند سو سکتا ہے۔ کوئی بتلائے میں کیا کروں۔
سکون کا متلاشی ایک باپ‘‘
یہ صرف ایک باپ کی بپتا نہیں ہے۔ 2024ء میں نہ جانے کتنے گھروں سے بچے اغوا ہوئے، اُن کا ریپ ہوا اور قتل بھی کر دئیے گئے ،گرچہ بچوں کے اغوا، ان کے ساتھ زیادتی کی خبریں تواتر سے کئی سال سے سننے اور پڑھنے کو ملیں، لیکن2024ء نے تو گزشتہ چند سالوں کے ریکارڈ توڑ دیے۔ ہر روز ہی اخبارات، ٹیلی وژن اور سوشل میڈیا پر بچوں سے ہونے والی ظلم و زیادتی کی بھیانک خبریں ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑتی رہیں۔
ہمارے احساس کو رلاتی رہیں، لیکن نہ ہم میں سے کوئی کچھ کر سکا نہ حکام بالا کو کچھ احساس ہوا، اگر ہوتا تو صرف قانون نہ بناتے، اس پر موثر انداز میں عمل درآمد بھی ایسے کراتے کہ مجرم جرم کی جرات نہ کرتے پےدرپے واقعات ایسے ہوتے رہے جیسے یہ کوئی جرم ہی نہیں ہیں۔
کہتے ہیں کہ،جب بھی کبھی انسان شیر کو مارنے کی نیت سے جنگل جائے تو اُسے شکار کھیلنا کہتے ہیں لیکن جب شیر انسان کو مارنے کے لیئے حملہ کرتا ہے تو اسے درندگی کے نام سے پکارتے ہیں۔
بس سال گزشتہ میں انسان نے درندے کا کردار خوب کیا۔جرم اور انصاف میں صرف اتنا ہی فرق ہے سال بھرتھرسی مارکس کا قول اردگرد گونجتا سنائی دیتا رہا کہ ’’قانون طاقت وروں کے تحفظ کے لیے ہوتا ہے۔‘‘ 2024ء میں تو بچوں کی صورت حال دیکھ کر سانس لینا بھی مشکل ہوگیا تھا۔
ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں روزانہ بے شمار معصوم بچے انسان کے روپ میں چھپے کسی نہ کسی وحشی کی درندگی کا نشانہ بنے، حیرت کی بات یہ تھی کہ ان بچوں کی ایک بڑی تعداد ایسے افراد کا نشانہ بنی جنہیں وہ پہلے سے جانتے تھے، لیکن عدالتوں اور تھانوں میں ایسے مقدمات بھی دیکھنے کو ملے جن میں زیادتی کے مرتکب افراد کا متاثرہ بچے کے ساتھ کوئی تعلق تھا یا وہ سرے سے ان کو جانتے تک نہیں تھے، اس پر مستزاد یہ کہ اس قسم کے ظلم پر خاموش، صبر اور قانونی چارہ جوئی سے اجتناب کے رویوں نے وحشیوں کو مزید کُھل کر کھیلنے کا موقع فراہم کیا۔
یہ قریہ قریہ بکھرے ایسے دل دہلا دینے والے واقعات ہیں جو بار، بار قدموں سے لپٹ جاتے ہیں۔ 24ء کے پورے بارہ ماہ بچوں کے اغوا، قتل اور زیادتی، وباء کی طرح پورے ملک میں پھیلتی رہی، لیکن کوئی کچھ نہ کرسکا۔ بچوں کے لیے تو یہ دنیا قیدخانہ بنا دی گئی، نہ وہ آزادی سے گلیوں میں کھیل کود سکے۔ (اور اب تک نہیں کھیل سکتے۔) نہ زندگی سے لطف اندوز ہوسکے۔
ان پر بہیمانہ تشدد ہوتا رہا۔ وقت کا ظالم ریلا ساری حدیں اپنے ساتھ پار کرکے لے جاتا رہا، کبھی پانی کے بہاؤ میں بچوں کی تشدد زدہ لاشیں ملیں تو کبھی معصوم بچیاں کچرا کنڈی میں ننگ دھڑنگ کسمپرسی کی تصویر بنی، ایسے ملیں جیسے کسی کے گھر کا کچرا تھیں۔
ان معصوموں کا قصور کیا تھا؟ جن ممالک میں سخت قوانین کے ساتھ ساتھ ان پر عمل کیا جاتا ہے، وہاں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں، جو شخص بھی ایسے واقعات میں ملوث ہوتا ہے، اسے سرعام پھانسی دی جاتی ہے یا سر قلم کردیا جاتا ہے۔
کچھ عرصے قبل یمن میں3افراد جو بچوں سے زیادتی کے جرم میں ملوث تھے، انہیں پہلے سرعام گولیاں ماری گئیں، پھر انہیں کرین کے ’’ہک‘‘ کے ساتھ لٹکاکر پورے دن عوام کو دیکھنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ عالمی سطح پر بھی ان لٹکتی لاشوں کو دیکھا گیا۔ جب سزا ئیں اس طرح دی جائیں تو کون جرم کرسکتا ہے۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کی رپورٹ کے طابق پاکستان میں2024ء میں کچھ زیادہ ہی بچے جنسی اور جسمانی استحصال کا شکار ہوئے۔ بچوں کے استحصال کے بڑھتے ہوئے واقعات کی ایک بڑی وجہ ملزمان کو سزائیں نہ ملنا ہے، جب کہ دوسری وجہ بچوں کو استحصال سے محفوظ رکھنے کا کوئی سسٹم نہیں ہے۔
ان کی صحت، تعلیم اور دیکھ بھال ریاست کی بھی ذمے داری ہوتی ہے، لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ سن24ء میں بھی کم عمر بچوں کے ہاتھوں میں کتابوں کے بجائے اوزار تھے، دکانوں، ورک شاپوں، ہوٹلوں وغیرہ میں بھاگ بھاگ کر کام کرتے، بڑوں کی خدمت کرتے نظر آئے۔
بچوں کا کردار معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ معاشرہ جو ایک گھر کی مانند ہوتا ہے، سو چیے تو سہی جن بچوں کی اپنی عمر کھیلنے کودنے کی ہو، انہیں ہی دوسروں کے بچوں کی دیکھ بھال کی ذمے داری سونپ دی جائے ،ظلم نہیں تو کیا ہے، نہ صرف یہ بلکہ صلے میں جھڑکیاں، مار پٹائی ملے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ2024ء میں بچوں کو گھروں میں ملازم رکھنے کا سلسلہ جاری رہا، حالاں کہ اسے ختم کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں، لیکن کچھ نہ ہوا۔
14سالہ رضوانہ کا کیس کون بھول سکتا ہے، جسے ایک جج کے گھر میں ملازمت کے دوران وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، بریکنگ نیوز بنی، جج کی بیگم کو گرفتار بھی کیا گیا لیکن پھر کیا ہوا؟ رضوانہ سمیت کئی گھریلو کم عمر ملازمین کے ساتھ بدسلوکی ہوئی، ایک گیارہ سالہ ملازم ’’قبول‘‘ کو اس کے آجر نے مار مار کر ہلاک کردیا، یہ کوئی ایک دو کیس نہیں ہیں جو منظرعام پر آئے، کئی کیسز نے ہل چل مچائی، ایسا لگا کہ ملزموں کو عبرت ناک سزا ہوگئی لیکن پیسہ پھینک تماشا دیکھ، والی ریت برقرار رہی۔
تازہ ترین رپورٹ نومبر2024ء کے مطابق ہر پانچویں گھر میں ایک بچہ مزدوری کرتا ہے۔ پاکستان بھر میں مشقت کرنے والے بچوں کی تعداد بیس ملین سے تجاوز کرچکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، اسکول جانے کی عمر کے کم و بیش دو کروڑ بچے اسکول نہیں جارہے، جس سے اندازہ لگایا جارہا ہے کہ کم از کم ایک کروڑ بچے چائلڈ لیبر کررہے ہوں گے۔
انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق پاکستان کے شہری علاقوں کے ہر چوتھے گھر میں ایک کم عمر گھریلو ملازم ضرور ہے، جن میں زیادہ تعداد کم سن لڑکیوں کی ہے، تاہم اس کے پیچھے حقائق میں شدید ترین مہنگائی کا عنصر کار فرما ہے۔ اکثر غریب والدین دو وقت کی روٹی کے حصول اور بعض حالات میں والدین اپنے قرضے اتارنے کے لیے بچوں کو گ ھر سے دور امیروں کے گھروں میں کام پر بھیج دیتے ہیں۔
گوکہ ملک میں انسانی ہمدردی رکھنے والے افراد کی کمی نہیں، جو ان سے اچھا سلوک کرتے ہیں، مگر خود غرض اور متشدد ذہن رکھنے والے افراد کے حوالے سے انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی طرف سے ملنے والی رپورٹیں باعث تشویش ہیں۔ اب تک چائلڈ لیبر ایکٹ کی خلاف ورزی اور کمسن گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات ایک سوالیہ نشان ہیں۔ آخر ان میں سے کتنے اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔
شرح پیدائش کے ساتھ ساتھ غربت میں بھی اضافہ ہورہا ہے، اس وجہ سے بھی جن گھروں میں چھ، سات بچے ہیں، وہاں انہیں بچوں کو آمدنی کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ غربت کے مارے سڑکوں اور بازاروں میں ناکافی لباس میں خستہ حال اور زرد آنکھوں والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ وہ ہمارے بچے نہیں ہیں، اس لیے ہم ان کی بھوک کے بارے میں کچھ نہیں سوچتے۔ غربت کے مارے کروڑوں بچے ننگے بدن، خالی پیٹ، فٹ پاتھوں، سڑکوں پر بھیگ مانگتے، کوڑے کے ڈھیر سے رزق چنتے رلتے رہے۔
ایسے میں جب وہ اپنے ہم عمر بچوں کو بڑی بڑی کاروں میں، ریستورانوں میں کھانا کھاتے دیکھتے ہوں گے تو ان کی سوچ میں کیسے تلاطم برپا ہوتے ہوں گے۔ معاشرتی عدم توازن کی یہ مثالیں ان کے دل و دماغ میں نفرت اور انتقام کی آگ بھڑکاتی ہوں گی۔ انہیں تحفظ کا آغاز 2025ء میں تو کردیں، ورنہ اب نہیں تو پھر کبھی نہیں۔
سوشل میڈیا اور بچے
افراد کی ذاتی زندگی سے لے کر معاشرتی امن اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے سوشل میڈیا کا کردار جائزہ طلب ہے۔ نومبر 2024ء میں آسٹریلوی وزیراعظم انتھونی البانیز نے تجویز دی ہے کہ، دنیا بھر میں بچوں کو درپیش ذہنی و جسمانی نقصان اور بدسلوکی کے خطرات کے پیش نظر 16 سال سے کم عمر بچوں پر اس کے استعمال پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔
سوشل میڈیا کے کئی پلیٹ فارمز کا منفی استعمال اور ایسے پلیٹ فارمز کا بڑھتا اثر و رسوخ بچوں کو حقیقی معنوں میں نقصان پہنچا رہا ہے۔ ٹیکنالوجی کمپنیاں عمر کی حد لاگو کرنے کی پابند ہونی چاہیں۔
اگر کم عمر صارفین سوشل میڈیا استعمال کرتے پائے جائیں تو ان پر بھاری جرمانے عائد کیے جائیں۔ آسٹریلوی وزیراعظم اپنی اس تجویز پر مختلف سطحوں پر مشاورت و قانون سازی کے لیے ایک شیڈول مرتب کرکے اس پر عمل درآمد کے خواہاں ہیں۔
تمباکو کی لت میں مبتلا بچے
23 مئی 2024ء کو عالمی ادارہ صحت (WHO) کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ،دنیا بھر میں 13 سے 15 سال کی عمر کے تقریباً 37 ملین بچے تمباکو کا استعمال کرتے ہیں۔"Hooking the next generation{کے عنوان سے جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹین ایجر ’’ای سگریٹ‘‘ کا استعمال زیادہ کرنے لگے۔
ڈائریکٹر جنرل WHO کے مطابق ’’یہ صنعتیں اسکولوں اور بچوں کو نئی مصنوعات کے ساتھ نشانہ بنا رہی ہیں، جو بنیادی طور پر کینڈی کے ذائقے کےحامل ہیں۔
اینیمٹڈ کارٹونز
گزرے سال بچوں کی آبیاری ایسے ڈیجیٹل زہر سے ہوئی جس کا تریاق شاید نہ مل سکے۔ گرچہ کئی سال سے بچوں کو بزرگ کوہ قاف کی کہانیاں، علی بابا چالیس چور اور سبق آموز کہانیاں نہیں سنا رہے اور بچے سننا بھی نہیں چاہ رہے ، کیوں کہ والدین نے اپنی مصروفیات کے باعث بچوں کے ہاتھوں میں موبائل تھما دیے ، جس سے وہ کتاب سے دور ہوگئے، پھر بچےازخود دل چسپ کارٹون کے بجائے اینیمیٹیڈ کارٹون دیکھنے لگے، جن سے وہ ایسی راہ پر چل پڑے، جن سے بچنا اب مشکل نظر آرہا ہے۔
ستم ظریفی تو دیکھیے، اخلاقیات کی غلط تربیت دینے کے ساتھ ساتھ جھوٹ، چوری وغیرہ سے بچوں کو روشناس کیا گیا۔ مائیں بچوں کو موبائل دے کر مطمئن ہوجاتیں، اس طرح وہ سمجھتیں کہ بچے کا دھیان کارٹونز میں رہےگا لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس طرح بچوں کے حقیقی دنیا سے فرار اور فینسی ورلڈ مین کھوئے رہنے کے رحجان میں تیزی سے اضافہ ہوا ، وہ تعلیم اور کھیلوں کی سرگرمیوں میں پیچھے رہ گئے کارٹون ’’ڈورے مون ‘‘دیکھنے کے بعد بچے شدید خواہش کرتے ہیں کہ کاش ہمارا ہوم ورک کوئی گیجٹ ہی کر دے۔
نیز بچوں کو غیر صحت مند اور غیر متوازن غذا کی طرف راغب کرنے میں بھی کارٹونز کےکردار چھائے رہے، جو بچوں کو ’’جنک فوڈ‘‘ کی طرف مائل کرتے رہے، بچوں کے فیورٹ کردار زیادہ تر کینیڈی، چپ اور اسینکس کھاتے دکھاتی دیتے ہیں۔ 2024 میں بچوں میں یہ رجحان کچھ ایسا پروان چڑھا جو ان کی صحت کا دشمن بن گیا لیکن تاحال بچے ان سے باز آئے ،نہ والدین اس کی روک تھام کے لیے کچھ کرسکے۔
بیش تر کارٹونز میں حیرت انگیز حد تک تشدد دکھایا جاتا ہے، کم و بیش ہر کردار ایک دوسرے کو مار پیٹ اور دھماکتے ہوئے نظر آتا ہے۔ ان کی وجہ سے بچوں میں عدم برداشت، تشدد اور تمیز بھی ختم ہوگئی، جس کا مظاہرہ ان کی گفت و شنید سے واضح نظر آیا۔
موسمیاتی خطرات کی زد میں بچے بھی آگئے
نومبر2024ء میں یونیسیف اور پاکستان نے بچوں کو موسمیاتی خطرات سے بچانے کے لیے مل کر کام کرنے کا عزم کرتے ہوئے مفاہمت کی ایک اہم یادداشت پر دستخط کیے۔ سندھ کو حالیہ برسوں میں موسمیاتی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سیلاب اور بڑھتا ہوا درجہ حرارت شامل ہے۔
نومبر کے وسط میں اقوام متحدہ کی موسمیاتی تبدیلی کانفرنس (Cop29) سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ،سندھ بچوں پر مبنی موسمیاتی حکمت عملیوں کے ذریعے قابو پانے والی صلاحیت کے لیے کوشاں ہے۔
سندھ حکومت اپنے موسمیاتی ایجنڈے میں گرین انرجی کے حل، پائیدار زرعی طریقوں اور بچوں، نوجوانوں پر توجہ مرکوز کرنے والی صلاحیت سازی کو شامل کرنے کے لیے عمل پیرا ہے۔
بچوں پر ٹیکنالوجی کے اثرات و خطرات
اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع، ’’کار ماما فاطمہ سنگھاتا‘‘ کی ایک رپورٹ جو انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی،کے مطابق، ٹیکنالوجی سے بچوں کے حقوق برقرار رکھنے اور انہیں تحفظ دینے کے لیے بہت سے مواقع ملے، تاہم اس کی غیر معمولی صلاحیتوں سے بچوں کے لیے خطرات بھی بڑھے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ٹیکنالوجی کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے سے بچوں کو لاحق کئی طرح کے جنسی استحصال اور بدسلوکی کے خطرات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے، رضامندی کے بغیر ان کی تصاویر اور ویڈیوز بنانے، بدسلوکی پر مبنی مواد کی تیاری، انہیں بلیک میل کرکے تاوان لینے وغیرہ کے مناظر انٹر نیٹ پر براہ راست دکھانے جیسے جرائم کا ارتکاب عام ہوگیا ہے۔
ڈیپ فیک، عام تصاویر کو جعلسازی سے برہنہ دکھانے، عمر کو گھٹا اور بڑھاکر ظاہر کرنے کی ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت مواد کو سرور کے بغیر براہ راست ایک دوسرے تک منتقل کرنے اور ویڈیو میں آواز کو تبدیل کرنے جیسے طریقوں سے بھی بچوں کا جنسی استحصال کیا جارہا ہے۔
تلخ سچائی یہ ہے کہ ڈیجیٹل ماحول میں بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی کی اور استحصال میں شدت آگئی ہے۔ خصوصی اطلاع کار نے ٹیکنالوجی کمپنیوں پر زور دیا ہے کہ انہیں عمر کی تصدیق انٹر نیٹ پر بچوں کے لیے دستیاب مواد کی نگرانی اور مسائل کی صورت میں بچوں کو مدد دینے کے طریقوں پر بھی سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔
فاطمہ سنگھانا نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے بھی کہا ہے کہ، وہ ایسے قانونی نظام کو مضبوط بنائیں، جن سے ان عناصر کو سزا مل سکے جو ڈیجیٹل ماحول کو بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی پر مبنی مواد پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
گرچہ ٹیکنالوجی بچوں کے حقوق اور انہیں تحفظ دینے کے لیے بہت سے مواقع لائی ہے، تاہم اس کی تیز رفتار تبدیل ہوتی اور غیر معمولی صلاحیتوں سے بچوں کے لیے خطرات بھی بڑھ گئے ہیں۔